• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے بعد پاکستان کو بحری قوت بڑھانے کا خیال آیا، اگرچہ پاکستان کی بحری قوت پاکستان کا دفاع بہ احسن خوبی ادا کررہی ہے، تاہم سی پیک کی تعمیر کا جب پختہ ارادہ کرلیا تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سابق آئی جی پولیس بلوچستان نے مجھے بتا دیا کہ انہوں نے کئی ممالک کی کشتیوں اور چھوٹے جہازوں سے آنے والے مسافروں سے بلوچستان میں اسلحہ پکڑا، اس کے بعد پاکستان نے اپنے نگرانی کےنظام کو بڑی تیزی سے بڑھایا، نگراں کشتیوں میں بتدریج اضافہ کیا، پہلے مرحلے میں دو چینی نگران کشتیاں پاکستان کو مل گئیں اور دوسرے مرحلے میں پاکستان نے کراچی شپ یارڈ بنا ڈالی ۔ اس کے علاوہ جدید آلات سے آراستہ فریگیٹ اتصالات اور ذوالفقار پاکستان میں بنا چکے ہیں، آٹھ آبدوزیں پاکستان نے چین سے خریدی ہیں جن میں سے چار پاکستان میں تیار ہوں گی اور چار چین میں بن رہی ہیں۔ مزید برآں پاکستان نے اسلحہ اور میزائل کے نظام کو جدید بنانے میں خصوصی توجہ دی ہے، ہمارے پاس جو آبدوزیں تھیں اس سے میزائل اور خصوصاً ایٹمی میزائل نہیں داغا جاسکتا تھا مگر اگست 2016ء میں بھارت نے اپنی آبدوز سے میزائل داغ کر دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت حاصل کرلی، اس کی وجہ سے بھارت کو کچھ وقت کی برتری حاصل ہوگئی، مگر پھر پاکستان نے جنوری 2017ء کو بابر III کو آبدوز سے داغ کر بھارتی برتری کو ختم کردیا۔ تاہم بابر III چار سو پچاس کلومیٹر تک سمندر سے زمین پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا تھا۔ یہ کروز میزائل تھا جو اپنے ہدف کو تلاش کرکے اور ساری رکاوٹیں دور کرکے اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ پھر پاکستان نے مارچ 2018ء میں دو مرتبہ بابر III کا مختلف طریقے سے تجربہ کیا۔ دو باتیں کہی جاسکتی ہیں ایک تو یہ کہ ہم نے اپنی آبدوزوں کو اس قابل بنایا کہ وہ میزائل داغ سکیں، دوسرے یہ کہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت پہلے سے موجود تھی کہ وہ دوسرا حملہ کرسکے۔ وہ خود پہل نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ بھارت کو موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ ایسی صلاحیت حاصل کر لے تو اس کا اظہار کیا جائے، مگر ہم نے ایک میزائل (MIRV) جس سے تین مختلف سمتوں میں مار کرنے والے کروز میزائل کا تجربہ 2017ء میں بھارت سے پہلے کردیا۔ پاکستان کو بابر III میزائل کا تین مرتبہ تجربہ کرنے کی ضرورت اس لئے پڑی تاکہ دُنیا یہ جان لے کہ پاکستان وہ صلاحیت حاصل کرچکا ہے جس نے امریکہ اور روس کو 1945سے اب تک جنگ سے باز رکھا ہے۔ مارچ 2018میں پاکستان نے جو میزائل بابر III آبدوز سے زمین پر داغا اُس کی مار 700 کلومیٹر تھی اور زمین کے کسی نامعلوم مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ یہ مختلف قسم کے اسلحہ لے جاسکتا ہے جو 30 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔ یہ میزائل آگسٹا 90B کلاس آبدوز سے داغے گئے۔ یاد رہے کہ جب پاکستان نے آگسٹا آبدوز حاصل کی تھی اور ایک آگسٹا پاکستان میں تیار ہورہی تھی تو آخری مرحلے میں فرانسیسی انجینئرز پاکستان آئے تھے، کراچی کے وہ دو ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے تھے، پاکستان دشمن عناصر نے خودکش حملے کرکے کئی انجینئروں کو مار دیا تھا اس لئے فرانسیسی انجینئرز اپنا کام مکمل کئے بغیر چلے گئے تھے جس کو بعد میں پاکستانی انجینئروں نے مکمل کیا اور آگسٹا کو زیراستعمال لائے۔ اس وقت بھارت کے پاس ایسی جدید آبدوز موجود نہیں تھی، اگرچہ پاکستان کے لئے وہ بہت بُرا دور تھا دشمن ہر طرف سے اور ہر طرح سے حملہ آور تھا مگر پاکستان نیوی کی ہمت کو سلام پیش کرنا چاہئے کہ انہوں نے ہر مشکل اور ہر رکاوٹ کو دور کرکے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنائے رکھا۔ اس کے علاوہ پاکستان چین سے 039قسم کی 8 آبدوزوں کے حصول میں لگا ہوا ہے، بابر III کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ٹارپیڈو ٹیوب سے بھی اپنے ہدف کی طرف جاسکتا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ اس پر لگایا گیا اسلحہ آبدوز پر ہی علیحدہ کیا جاسکتا ہے جو ایک مشکل کام مانا جاتا ہے کہ کسی آبدوز میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ ایسا کرسکے، خصوصاً جبکہ لانچر پر عمودی انداز میں اسلحہ لادا جاتا ہو، اس کے علاوہ پاک بحریہ نے ضرب میزائل کا تجربہ کیا ہے، یہ ٹرک یا بڑی گاڑی پر لگا دیا جاتا ہے اور زمین سے سمندر میں 300کلومیٹر دوری پر موجود دشمن کے جہاز کو باآسانی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ میزائل 300 کلوگرام کا اسلحہ یا ایٹمی ہتھیار کیساتھ ہدف کو نشانہ بنانے کا اہل ہے۔ حربہ یہ ایک خطرناک میزائل ہے جس کی مار 200 سے 250 کلومیٹر ہے اور 300 کلوگرام کا اسلحہ لے جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغرب کے ہارپون میزائل سے کہیں بہتر ہے، یہ سمندر اور زمین دونوں جگہ اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ان میزائلوں کی تیاری میں پاکستانی انجینئرز کی مہارت اور تربیت کا بہت اہم کردار ہے، اگرچہ ان میزائلوں کے لئے کچھ سامان باہر سے منگوانا پڑتا ہے مگر 40 فیصد سے زیادہ سامان اور پرزہ جات پاکستان میں ہی تیار ہوتے ہیں۔ بابر III اور حربہ سیٹلائٹ کنٹرول نظام سے چلتے ہیں اور ہمارا ایک سیٹلائٹ فضا میں موجود ہے، توقع ہے کہ ایک اور سیٹلائٹ کسی بھی وقت اسی سال فضا میں بھیج دی جائے، پاکستان ترکی کی مدد سے بھی فریگیٹ اور وہ جہاز جو تیل، پانی جہازوں کو سپلائی کرتا ہے جیسے TuG کہا جاتا ہے بنا چکا ہے، اس کے علاوہ ہالینڈ اور رومانیہ سے نگراں کشتیاں کے بنانے میں مدد لے رہا ہے، یوں ہمیں چین، ہالینڈ اور رومانیہ کی ٹیکنالوجی حاصل ہوجائیں گی۔پاکستان اور چین کے درمیان بحرہند میں آمدورفت بھی کافی بڑھی ہے اور اُن کے درمیان بحری مشقوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، یہ دو سالوں میں پانچ سے سات تک پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ پاکستان بہت سے ملکوں کے ساتھ بحری مشق کررہا ہے مگر چین کی بات اور ہے کہ وہ دونوں کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔
پاکستان نے اپنے تعلقات مالدیپ سے بہتر کئے ہیں،چین بھی مالدیپ میں کئی منصوبوں پر کام کرنے کا خواہشمند ہے کہ یہ اُس کی بھی ضرورت ہے، پاکستان ساحلی پٹی جو ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے کو زیادہ سے زیادہ جدید اور محفوظ بنا رہا ہے۔ ایک پائیدار اور خوبصورت سڑک کراچی تا گوادر بنائی جا چکی ہے اور اورماڑا میں ہمارا بحری اڈہ ہے جہاں سے حربہ میزائل داغا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مچھلیوں کی افزائش اور ساحلی پٹی کو محفوظ بنانے کے لئے نگراں کشتیوں کی سرگرمیاں بڑھا دی گئی ہیں جس کی وجہ سے انسانی و منشیات کی اسمگلنگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ مزید برآں کھلے سمندر میں مشکلات سے نبردآزما کشتیوں اور اس میں انسانوں کی مدد کا کام بھی پاک بحریہ کررہی ہے۔ حال ہی میں اس نے ایک بھارتی کشتی کو جس میں موجود درجنوں بھارتیوں کو بچایا اور اُن کی کشتی کی مرمت کردی ، انہوں نے اپنے محسنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پاک بحریہ کی خدمات اور کامیابیاں خلیج عدن سے لے کر رن آف کچھ تک تسلیم شدہ ہے اور دادتحسین وصول کرتی رہی ہیں ۔ پاکستانی بحریہ نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین