• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی طور پر ملکی حالات اس قدر خراب شاید پہلے کبھی دیکھنے میں نہیںآئے اور یہ بھی دنیا بھر کے کسی ملک کا انوکھا ہی واقعہ ہوگا کہ ایک شخص جو تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہو اور اپنے اعمال کی وجہ سے تاحیات نااہل ہونے کے بعد ریاست کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دے پھر ہرروز یہ دھمکیاں بھی دے کہ میں فلاں راز کھول دوں گا ، بمبئی حملوں کے حوالے سے نواز شریف کے حالیہ بیان نے ایک طرف ملک کے اندر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ملک کو نقصان ہورہا ہے ، اُس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے ۔ ایسے سیاسی ماحول میں ، میں تعلیمی پستی کے حوالے سے بات کرنے جارہا ہوں ،میری رائے میں تعلیم دشمنی دراصل ملک دشمنی ہے اور شریف برادران تعلیم سے محبت کے ہمیشہ دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر عملی طور پر سب سے زیادہ بُرا سلوک اس شعبہ کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ جس سے ملک مزید تعلیمی پستی کی طرف جارہا ہے۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک بھر کی 13مختلف جامعات کے پی ایچ ڈی اور ایم فل پروگراموں پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ ملک بھر کی جامعات میں معیار پر پورا نہ اترنے والے 450تعلیمی پروگراموں پر بھی پابندی لگا نے کے بعد ان تعلیمی اداروں کی اسناد کی تصدیق سے انکار کرتے ہوئے طلبہ و طالبات کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان اداروں میں داخلہ نہ لیں۔ جن تیرہ یونیورسٹیوں کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلوں پر پابندی لگائی ہے ان میںبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، ورچوئل یونیورسٹی کیمپس ، کومسیٹس اسلام آباد ، یونیورسٹی آف پشاور ، گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف فیصل آباد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، سکھر آئی بی اے ، شاہ لطیف بھٹائی یونیورسٹی خیر پور، یونیورسٹی آف سندھ جامشور اور یونیورسٹی آف کوئٹہ بلوچستان شامل ہیں۔
یہ بڑی عجیب سی صورتحال ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن تیرہ جامعات پر اور 450پروگراموں پر پابندی لگا کر اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے حالانکہ یہ سب اسی کاکیادھرا ہے۔ ہم کوئی سنی سنائی اور غیر مصدقہ بات نہیں کر رہے بلکہ صرف دو رپورٹس کا ذکر کریں گے ایک وہ جو وزیراعظم پاکستان کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی چار سالہ کارکردگی کے حوالے سے دی گئی اور دوسرا وہ خط جو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین نے حکومت پنجاب کو لکھا تھا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکمراں کس طرح تعلیم دشمنی کر رہے ہیں۔
گزشتہ چار سال کی کارکردگی کی رپورٹ جو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو جمع کرا ئی گئی اس میں یہ انکشاف ہوا کہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ایڈہاک ازم ، اقربا پروری ، مالی بے ضابطگیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں کے باعث اعلیٰ تعلیم کا معیار بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں 45فیصد غیر رجسٹرڈ یونیورسٹیاں خلاف قانون ڈگریاں جاری کر رہی ہیں ، ملک بھر کی جامعات تھیسز میں چربہ سازی روکنے کے لئے ایچ ای سی کی پالیسی کو پوری طرح نافذ نہ کر سکیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی ان امور کو چیک کرنے کا ذمہ دار ہے لیکن کوالٹی ایشورنس ایڈوائزر کا عہدہ تین سال تک خالی رہاجبکہ کمیشن نے نیب کے تین افسران کو خلاف قانون مساوی ڈگری کے سرٹیفکیٹ جاری کئے۔ حالیہ ریٹائرڈ ہونیوالے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے مسابقتی عمل کے ذریعے کسی ماہر کی تقرری کی بجائے دسمبر 2017ء میں ڈیپوٹیشن پر ڈاکٹر ممتاز کو تعینات کر دیا۔ گزشتہ چار برس کے دوران غیر رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی تعداد میںکمی کی بجائے اضافہ ہوا۔ ایچ ای سی میں رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی تعداد 187جبکہ غیر رجسٹرڈ کی تعداد 154ہوچکی ہے ۔ اس طرح 45فیصد غیر رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کے باعث نوجوانواں کا مستقبل دائو پر لگا دیا گیا ۔ گیارہ ہزار ا سکالرز نے ملکی اور غیر ملکی یوینویورسٹیوں سے پی ایچ ڈی ا سکالر شپ حاصل کیا مگر پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کا ریکارڈ موجود نہیں۔ بیشتر طلبہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد واپس نہیں آئے ۔ 95ارب روپے سالانہ فنڈز کی حامل ایچ ای سی کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ کا مستقل سربراہ ہی نہیں۔ آڈٹ ، کوالٹی ایشورنس اور چیئرمین آفس میں چھ اہم عہدوں پرریٹائرڈ حکومتی افسران کو کنٹریکٹ پر تعینات کیا گیا ہے ۔ چھ شعبے ایسے ہیں جو ڈائریکٹر جرنلز سے محروم ہیں حالانکہ ان کے اربوں روپے کے فنڈز ہیں اور پھر ناقص مانیٹرنگ کی وجہ سے 2016-17کے دوران 49فیصد ترقیاتی فنڈز جاری ہی نہ ہو سکے اور چار سال کے دوران بھاری مالی بے ضابطگیاں اور قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق 18رکنی گورننگ باڈی میں 10ممبران کی تقرری نہ ہو ئی اور اس طرح 17ماہ کمیشن کا اجلاس ہی نہ بلایا جا سکا۔ یہ ہیں وہ حالات جن کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے معیار میں انتہائی نچلے درجے کی گراوٹ آچکی ہے ۔ گزشتہ چار بر س کی ایچ ای سی کی کارکردگی کے حوالے سے سول سوسائٹی کی دس تنظیموں نے جورپورٹ مرتب کی ہے اس کے مطابق پاکستانی جامعات کی بین الاقوامی درجہ بندی میں تنزلی بھی کمیشن کی غفلت اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس وجہ سے تعلیمی سیکٹرز بوں حالی کا شکار ہے ۔ تعلیمی معیار اس قدر گر چکا ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد اکرم کو حکومت پنجاب کو خط لکھنا پڑا کہ پنجاب کی سرکاری اور نجی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی تھیسز 30ہزار روپے سے لیکر ایک لاکھ 50ہزار روپے میں خریدکر طلبہ اپنے نام کروا لیتے ہیں ۔ یہ طلبہ اپنے تھیسز کے حوالے سے دو لائنیں لکھنے تک سے قاصر ہیں۔ یونیورسٹیوں کے معاملات خراب ہونے کے باعث معیار تعلیم تباہ ہورہا ہے یہ معیار انتہائی خطرناک حد تک گر چکا ہے ۔حیران کن صورتحال یہ ہے کہ تعلیم سے محبت کا دم بھر نے والی حکومت کی سنجیدگی اور تعلیمی دلچسپی دیکھ لیجئے کہ اس نے چھ ماہ بعد اس خط پر تحقیقات کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔
یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن 25ویں آئینی ترمیم کے بعد اور زیادہ نظر انداز ہوگیا ہے ۔ لوگوں کے ہاتھوں میں بی ایس ، ایم ایس ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تو موجود ہیں مگر اپنے ڈسپلن کے حوالے سے بنیادی کانسپٹ تک کلیئر نہیں لیکن ایسی ڈگریاں رکھنے والے جعل سازوں کی اکثریت بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہو رہی ہے ۔ ملک کے اندر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کا مقصدتعلیمی اور ریسرچ کے معیار کو بلند کرنا تھا مگر یہ لوگ ریسرچ اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے انتظامی عہدوں پر تعینات کر دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح ہم اربوں روپے ضائع کر رہے ہیں ۔ اگر حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ذاتی مفادات کے حصول کی جنگ سے فرصت ہو تو ملکی مفادات کیلئے بھی کچھ وقت نکالیں کیونکہ تعلیم کے ساتھ اُن کی یہ دشمنی دراصل ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین