• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی روایت کی نقل کرتے ہوئے تحریک انصاف نے بھی انتخابی کامیابی اور وفاقی حکومت کی تشکیل کی صورت میں پہلے100دنوں کے لئے اپنا ایک چھ نکاتی پلان دیا ، یہ پلان فی الوقت خاصا دلکش نظر آتا ہے۔ جنرل (ر) عمر مرحوم کے صاحب زادے اسد عمر اپنی مہارت اور سنجیدہ شہرت کو کام میں لا کر اپنی پارٹی تحریک انصاف کے اس پلان کا مدلل انداز میں دفاع کرتے سنے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے یہ پلان جاری کر کے دیگر سیاسی پارٹیوں کیلئے بھی ایک مشکل اور دبائو کی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ وہ اب ماضی کی طرح محض سیاسی منشور اور خالی وعدے جاری کرنےکی بجائے پی ٹی آئی کی تقلید میں کچھ قدم اٹھائیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے ایسا کر کے الیکشن سے قبل ہی اپنے لئے ایک بڑا چیلنج بھی مول لے لیا ہے۔ خواہ ا یسے پلان محض خواہشاتی اور عملاً انتخابی وعدے ہی سہی لیکن الیکشن سے قبل ایک صحت مند ’’ڈیبیٹ‘‘ اور سنجیدہ تنقید و تجزیہ سے انتخابی ماحول پر خوشگوار اثر پڑنے کا سامان فراہم کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے پہلے100دن کیلئے 6نکاتی پلان جہاں امریکی سیاست کی روایت اور سنگا پور کی معیشت سے بھی ایک ماڈل کی نقل لئے ہوئے ہے وہاں پاکستان کے الیکشن سیزن اور نئی منتخب حکومت کے پہلے100دن میں پاکستان کے ارد گرد جمع ہونے والے علاقائی و عالمی خطرات اور ان کے ممکنہ اثرات سے چشم پوشی کر کے تحریک انصاف نے اپنے لئے عذر اور فرار کا راستہ کھلا رکھ لیا ہے۔میری نظر میں پی ٹی آئی نے 100دنوں کا پلان جاری کر کے ایک اچھی انتخابی روایت میں پہل کی ہے۔ اپنے حامیوں کو تقویت بخشی ہے لیکن عملاً یہ پلان قابل تنقید ،تحفظات کا حامل اور خوش کن وعدوں تک ہی محدود نظر آتا ہے۔ ملک میں انتخابی حالات نارمل رہے۔ بیرونی عناصر نے مسائل کھڑے نہ کئے۔ داخلی حالات ،سیاست دان اور امن و امان کی صورتحال نے پاکستانیوں کو نارمل جمہوری عمل کے تحت ووٹ کے استعمال کا موقع دیا اور پی ٹی آئی الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی تو پھر حکومت کے پہلے 100دنوںمیں اعلان کردہ پلان پر عمل کا موقع آئے گا۔ اس کا پہلا نکتہ طرز حکومت کی تبدیلی ہو گا۔ طرز حکومت کی تبدیلی سے مراد اگر اشخاص کی تبدیلی اور اجلاسوں میں میزوں کی ساخت میں تبدیلی ہے تو اس سے تبدیلی ممکن نہیں۔ کیونکہ تحریک انصاف کے پاس عمران خان اور اسد عمر کے علاوہ بیشتر قائدین اور امکانی وزیروں کی کارکردگی، دیانت داری اور کامیابیاں عوام کی نظر میں ہیں اور ریکارڈ پر بھی ہیں۔ شاہ محمود قریشی پی پی پی دور میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات میں ان کی ڈپلو میسی ،کارکردگی اور نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ جہانگیر ترین اور اس طرح حال ہی میں دوسری سیاسی پارٹیوں سے اڑ کر تحریک انصاف کی سیاسی چھتری پر بیٹھنے والے ’’پرندوں‘‘کے ماضی میں ’’کمالات‘‘ کا ریکارڈ بھی سب کے سامنے ہے۔
اگر طرز حکومت میں تبدیلی نئے منتخب حکمرانوں کے عوام کے لئے رویئے اور مسائل حل کرنے پر توجہ کا عنصر شامل ہے تو عمران خان اپنے ممکنہ وزیروں کے ماضی کی حکومت کے دور میں رویوں کے ریکارڈ پر بھی نظر ڈالیں۔طرز حکومت کی تبدیلی میں کے پی میں صوبائی حکومت کی کارکردگی اور عوامی رویہ بھی گزشتہ پانچ سال پر محیط ہے۔ اگر طرز حکومت سے مراد حکومتی وزرا کے رویوں میں تبدیلی نہیں بلکہ حکومت کی ساخت میں تبدیلی ہے تو پھر طرز حکومت کو بدلنے کیلئے ا سٹرکچر اور آئین میںتبدیلیاں لانا ہوں گی جو کہ ابتدائی100دنوں میں ممکن نہیں ہے۔ پی ٹی آئی اتنی اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آتی کہ جہاں تن تنہاوہ دو تہائی اکثریت سے فیصلے کر سکے دوسرا نکتہ وفاق پاکستان کا استحکام خاصا مبہم نظر آتا ہے۔ طرز حکومت کی تبدیلی کی طرح وفاق پاکستان کا استحکام بھی بڑا مبہم وعدہ ہے۔ وفاق پاکستان کو کمزور کرنے اور مستحکم کرنے کامبہم کھیل ماضی کی متعدد حکومتیں بھی کھیلتی رہی ہیں۔ فوج اور قومی اداروں پر تنقید کرنے والے بھی اپنے بیانات کو وفاقی پاکستان کو مستحکم کرنے کا نسخہ قرار دیتے رہے ہیں اور فوج اور قومی اداروں بلکہ ماضی کے مارشل لا اور حکمرانوں کی حمایت کرنے والوں نے بھی وفاق کے استحکام کا خود کو علمبردار گردانا ہے۔ خود عمران خان نے جنرل مشرف کی حکومت کی ’’ایڈوکیسی‘‘ کر کے وفاق کو مستحکم کیا اور پھر جب ایک مرحلے پر عمران خان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے تو انہوں نے دوستوں کے گھروں میں روپوش رہ کر وفاق پاکستان کے مستقبل کی خدمت کی ۔
تیسرا پوائنٹ معیشت کی بحالی ہے۔ 92ارب ڈالرز کا غیر ملکی قرضہ، بجلی کی چوری اور لینڈ لائن نقصانات کے360ارب روپے ،پی آئی اے اور دیگر کارپوریشنوں کے 3.7ٹریلین روپے کا خسارہ ، تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ سے معیشت پر منفی اثرات کی صورتحال کی انتخابی گہما گہمی اور نئی حکومت کی تشکیل کے بعد آپ معیشت کی بحالی کا آغاز کب کہاں سے اور کیسے کریں گے ۔آئی ایم ایف کےساتھ 12سال گزرنے والے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر زبیر تو بڑے مایوس نظر آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی لیڈر شپ میں اقتصادی مشکلات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ۔ مائیکرو مینجمنٹ گورننس اور معاشی مقابلہ کے مسائل سے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین واقف ہی نہیں۔ بجلی کی چوری کو روکنے کی بجائے اس کا بوجھ اور ذمہ داری ایماندار کنزیومر پر ڈال دی گئی ہے۔ادھر ’’ٹیرر ازم فناسنگ ‘‘ کے حوالے سے FATFکے ساتھ فروری کے بعد اب جون میں مطالبات اور مذاکرات کی جو صورتحال پاکستان کو پیش آنے والی ہے کیا تحریک انصاف نے اس تمام صورتحال کو شامل تجزیہ کر کے اپنے حکومتی 100دن کا پلان تشکیل دیا ہے ؟ چوتھا پوائنٹ زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ کرنا ہے۔ جس ملک میں آلو کی کاشت کرنے والے کسانوں کو ان کی مزدوری ،لاگت اور منافع حاصل نہ ہو بلکہ فاقہ کشی اور نقصان اسکی کمر توڑ دے۔ آپ کی اپنی پارٹی دیگر سیاسی پارٹیوں کے قائدین پر مشتمل’’شوگر مل مافیا‘‘ گنےکے کاشت کاروں سے گنا خریدنے سے انکار اور پیداوار پر آنے والی لاگت بھی کئی طرح کی کٹوتیوں کے بعد بھی تاخیر سے اداکرنے پر قادر ہو تو وہاں ترقی و پانی کا تحفظ کیسے حاصل ہو گا اور کون کرنے دے گا ؟ پانچواں مقصد سماجی خدمات میں انقلاب لانا ہے جہاں بیرون ملک سے فنڈنگ پر کام کرنے والی این جی اوز کا زور ہے ،سماجی خدمات کی ضرورت تو عوام کے اس غریب طبقے کوہے جو غربت و ناخواندگی کا شکار بھی ہوتا ہے اور اپنے حقوق سے بے خبر اور بیورو کریسی کے سامنے بے بس بھی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں سماجی خدمات کے شعبے میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ کوئی اچھی امید نہیں دلاتا۔ صحت کے میدان میں پختو ن خواہ صوبے میں کارکردگی، ایک ارب درختوں کی شجر کاری اور سماجی خدمات کے شعبے میں پی ٹی آئی کی کارکردگی اور اعدادو شمار اور سیاسی مخالفین کی نظر میں بھی مشکوک و متنازعہ ہیں۔
تحریک انصاف کا 100دن کے ایجنڈا کا چھٹا نکتہ پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت ہے جبکہ موجودہ عالمی اور علاقائی صورتحال یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اپنی انتہا پر ہے۔ افغانستان،بھارت اور ایران کے حوالے سے صورتحال خطرات سے بھری ہوئی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف سمیت پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ اور کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان ابھرتے ہوئے خطرات کا نہ تو ذکر کیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی موقف دیا ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ مکانات کی تعمیر کا پی ٹی آئی کا پانچ سالہ منشور بھی اتنا ہی دلکش اور وعدہ ہے جتنا کہ اس کا 100دن کا ایجنڈا۔ پختونخوا کی صوبائی حکومت کے پانچ سال میں اس اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد ملائیشیا کے مہاتیر محمد اور ترکی کے طیب اردوان کے کارناموں اور خدمات کا حوالہ دے کر تحریک انصاف کو تقدس دلانے کی کوشش مناسب نہیں۔ تحریک انصاف نے تو اوور سیز پاکستانیوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ اوورسیز پاکستانی عمران خان کے فلاحی اداروں کیلئے فنڈز کی فراہمی اور تعاون میں پیش پیش رہے ہیں ان پروفیشنل اوور سیز پاکستانیوں میں نہ جانے کتنے ہی با صلاحیت مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسی بصریت و مہارت کے حامل ہیں اور وہ پاکستان کے لئے فکری عملی خدمت اور پلاننگ کے لئے بڑی خدمات انجام دے سکتے ہیں لیکن وہ عمران خان سمیت کسی پاکستانی حکمراں یا سیاست دان یا سیاسی پارٹی کی توجہ کے قابل نہیں ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین