• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے سب سے پہلا حج 1970ء میں کیا تھا ۔ 42 سال پہلے کے سفر کی مبارک ساعتیں اور بابرکت یادیں ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں۔ اس زمانے میں ہوائی جہاز سے کم ہی مسافر جاتے تھے۔ ویسے بھی حج پر جانے کے لئے کوٹہ سسٹم تھا۔ ہر سال آپ کو اپنے نام کی درخواست ضلعی صدر مقام پر ایک بہت بڑے ڈبے میں ڈالنی پڑتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے اس ڈبے سے پرچیاں نکالتے تھے جس کا نام نکل آیا وہ بہت خوش ہوتا تھا۔ اس وقت اس کو پھولوں سے لاد دیا جاتا تھا اور لوگ حاجی صاحب ، حاجی صاحب کہنا شروع کر دیتے تھے میرے نانا ابو بھی ہر سال درخواست دیا کرتے تھے لیکن ہر سال آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے واپس آتے، ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کا نام نہ نکل سکا۔ میں اس وقت بچہ تھا خاندان کے افراد کے ہمراہ قبلہ والدہ صاحبہ مرحوم نے عمرہ پر جانے کا ارادہ کرلیا۔ ہم بحری جہاز سفینہ حجاج پر کراچی سے روانہ ہوئے اور سات دن میں جدہ کی بندرگاہ پر جہاز لنگرانداز ہوا، راستے میں یمن کی بندرگاہ عدن پر بھی تقریباً آدھا دن رکا رہا ہم نے جلدی میں جاکر شہر دیکھ لیا جدہ کی بندرگاہ پر اترتے ہی معلم حضرات کے نمائندوں نے ہمارا استقبال کیا ہمیں ایک بس میں بٹھا کر مکہ مکرمہ لائے سامان اتارا گیا اور معلم صاحب کے کشادہ گھر کے وسیع و عریض مرکزی کمرے میں ہمارے لئے پُر تکلف ضیافت کا اہتمام تھا،عرب مہمان نوازی کا رنگ غالب رہا،پُرتکلف کھانا کھلانے کے بعد معلم صاحب کے نمائندوں نے پوچھا کہ آپ چاہیں تو آپ کے لئے معلم صاحب کی رہائش گاہ پر قیام کا انتظام کر دیتے ہیں۔ وگرنہ آپ کے لئے کوئی اور مناسب قیام گاہ ڈھونڈنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ کیا بے لوثی اور بے غرضی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی عزت افزائی کی جارہی تھی جوں جوں مادی طور پر ہم ترقی کرتے جارہے ہیں ہر چیزپر مادیت کا رنگ غالب آرہا ہے ہر چیز کمرشل ازم، ہر معاملے میں دنیا وی لین دین ہے اور بے رخی کا مظاہرہ جس سے جابجا شکایتیں پیدا ہوتی ہیں اور حج کے دوران قدم قدم پر جھگڑا اور تلخی کے پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔42 سال پہلے عمرہ کے بعد ہم نے وہاں رکنے کا ارادہ کیا تو اس کی اجازت مل گئی میں نے وہاں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو مقامی سکول میں داخلہ مل گیا۔ حج بڑے سکون و اطمینان سے ہوا نہ کسی سے کوئی شکوہ ہوا اور نہ ہی کہیں تلخی کے اثرات نمودار ہوئے یہ سب چیز یں وہاں ہوتی ہیں جہاں مراعات اور تعیشات کا جھگڑا ہو لوگ اب اس بات پر تلخی کا شکار ہوتے ہیں کہ میرا ائرکنڈیشنر کام نہیں کر رہا ،کھانا وقت پر نہیں پہنچا، خیمہ کے گدے آرام دہ نہیں، ہمیں لینے کے لئے بس ابھی تک نہیں آئی، کھانا اچھا نہیں تھا، ہوٹل فور سٹار تھا، رقم فائیو سٹار کی لی تھی، ہوٹل حرم شریف سے دور ہے، 10 منٹ چلنا پڑتا ہے، ایجنٹ نے بتایا تھا دو منٹ میں پہنچ جائیں گے، ہوٹل میں ریستوران نہیں ہے، پیدل جاکر کھانالانا پڑتا ہے، یہ تمام شکایتیں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ اب سہولیات کے حصول کے لئے بڑی بڑی رقوم دی جاتی ہیں اور ان تمام سہولیات کی توقع کی جاتی جب یہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں تو پھر بجا طور پر شکایات پیدا ہوتی ہیں اور معاملات اب برطانوی عدالتوں کی طرف جاتے ہیں اور بعض ایجنٹ حضرات کو سزائیں بھی ہوتی ہیں اور جرمانہ بھی جس زمانے میں ہم پہلے حج کے لئے گئے تھے اس وقت نہ سہولتوں ، تعیشات اور آسائشات کے دعوے تھے اور نہ ہی اس کی توقعات تھیں اس وقت کوئی فائیو سٹار ہوٹل نہیں تھا ۔ مدینہ منورہ میں حرم نبوی کے قریب ایک صاف ستھرا ہوٹل خندق بہاؤالدین تھا۔ یا پھر کچھ اپارٹمنٹ میں اس زمانے کے مدینہ منورہ کو یاد کرتا ہوں تو آنکھوں میں کچی مٹی کے بنے ہوئے اور گارے سے لیپ کئے ہوئے مکانات آنکھوں میں پھر جاتے ہیں۔ جن کی بیرونی دیواریں ٹین کی چادروں سے بنائی گئی تھیں’باب عبدالمجید‘ سے نکلتے ہی پاکستانی ہوٹل سے ذرا آگے کچی گلیاں اور کچے مکانات تھے ان میں جو بڑی بڑی حویلیاں تھیں انہیں آباط کہا جاتا تھا وہاں پر موجود خدمت گار کو چند ریال دے دیجئے اور اسے بتا کر سامان رکھ دیجئے جس دن جانا ہو اسے بتا دیجئے اس کی کچھ خدمت کر دیجئے اللہ اللہ خیرصلاّ نہ ہوٹل کی طرح بکنگ نہ چیک اِن، نہ چیک آؤٹ ،ایک ریال میں خود بھی کھانا کھا آئے اور گھر بھی لے آئے بہت سی دوکانوں اور ریڑھیوں سے ہی صدائیں آرہی ہوتی تھیں ’کل شی بریال‘ ہر چیز ایک ریال میں خریدیں ۔ لوگوں میں محبت، اُنس، اخوت، بھائی چارہ، ہمدردی، غمگساری کے جذبات موجزن ہوتے تھے۔ واقعی لگتا تھا کہ ایک بہت بڑی عالمگیر برادری کا حصہ ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہے، کوئی کمزور کوئی بوڑھا تھک جاتا یا گر جاتا تو اجنبی لوگ اس کی مدد کے لئے آگے بڑھتے۔ دو حاجی کسی بات پر آپس میں تلخ کلامی کرنے لگتے تو مقامی عربی حضرات فوراً لپکتے اور اونچی آواز میں کہتے۔ ”صل علی الحبیب“ حضور حبیب کبریاﷺ پر درود پڑھو اور چند ساعتوں میں تلخی مسکراہٹوں اور مصافحوں اور معانقوں میں بدل کر دور ہو جاتی تھی۔ اب نامعلوم وہ اصل عرب لوگ کہاں گئے جو لوگ وہاں خدمات پر مامور ہوتے ہیں جب میں ان سے پوچھتا ہوں تو ان میں سے کم ہی عرب ہوتے ہیں اس لئے ان کے اندر نہ ہی عربوں کی سخاوت اور فیاضی اور رحم دلی نظر آتی ہے اور نہ ہی اہل مدینہ کی روایتی نرم گفتاری، ہر طرف شکوے، ہر طرف شکایتیں ایک ہجوم ہوتا ہے جو لگتا ہے ایک دوڑ میں لگا ہوا ہے کہ مجھے سب سے اچھی جگہ ملے۔ مجھے ریاض الجنة میں نماز پڑھنے کا موقع ملے میں جلدی سے دوڑ کر سلام کرآؤں ، میں دوسروں کو دھکے دے کر حجر اسود کو بوسہ دے لوں، میں دوسرے لوگوں کو کہنی مار کر مقام ابراہیم پر دو نفل پڑھ لوں، میں ہجوم میں گھس کر اور نمازیوں کے اوپر سے پھلانگ کر حطیم میں دوگانہ نفل پڑھ لوں، ’میں میں میں‘ ہر طرف یہی نظر آتا ہے۔ اس میں ”تقویٰ “ کہاں گیا۔ فرمان الٰہی تو ہے کہ حج پر جانے والوں یاد رکھنا کہ وہاں جھگڑا، گالی گلوچ اور لڑائی نہیں کرنا۔ ہر سفر پر جانے سے پہلے انسان سفر کی ضروریات کی تکمیل کے لئے زاد سفر کی فراہمی کا انتظام کرتا ہے، قرآن مجید کے الفاظ کے مطابق (فان خیر الزاد التقویٰ) حج کے لئے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے، یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حضوری میں رہنا اور اس کے دربار میں حاضری کے احساس سے لبریز رہنا، ورنہ یہ ایک رائیگاں سفر، مدینہ منورہ میں اذان کے دوران بھی جب بعض لوگوں کو باتیں کرتے دیکھتا ہوں تو ذہن عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی اذان بلالی کی طرف چلا جاتا ہے اور سوچتا ہوں وہ کیا منظر ہوگا اقبال نے کہا:
چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا ایک بہانہ بنی
ادائے دید سراپا نیاز تھی تری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تری
تازہ ترین