• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایسے کلپس چل رہے تھے جن میں مختلف چینلز پر گزشتہ رمضان میں پیش کئے جانے والے پروگراموں میں میزبان خواتین و حضرات اپنے کردار نبھا رہے تھے۔ ایک طرف خواتین دوپٹہ اوڑھے سحرو افطار کا پروگرام کر رہی ہیں تو دوسری طرف ایٹم سانگ میں ان کا ڈانس اپنی انتہا کوچھو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر دل بہت ہی بوجھل ہوگیا۔ ذہن میں بار بار یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ ہم بطور قوم اتنے بے حس اور لالچی ہو گئے ہیں کہ اپنی دکانداری چمکانے کیلئے مذہب کو ہر روپ میںبیچ دیتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک اداکارہ کا انٹرویو پڑھا جس میں اس نے واضح طور پر یہ تسلیم کیا کہ فنکار کے پاس جو صلاحیت ہے وہ اس نے بیچنی ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ وہ رمضان کا پروگرام کر رہی ہے۔ 9مئی 2018ء کو میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کا یہ فیصلہ سنا کہ رمضان مبارک کے مہینے میں پیمرا کی گائیڈ لائن کے خلاف کوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا اور تمام پروگراموں کی سخت نگرانی کی جائے گی جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی۔ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو، رمضان المبارک میں تمام چینلز پانچ وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان مقامی وقت کے مطابق نشر کریںگے ۔ اس کے علاوہ مغرب کی اذان یعنی افطار کے وقت سے پانچ منٹ قبل درود شریف اور پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور امن کیلئے دعا کی جائیگی، عدالتی حکم میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی لاٹری اور جوے پر مشتمل پروگرام ، یہاں تک کہ حج و عمرہ کے ٹکٹوں کے حوالے سے بھی کسی چیز کو براہ راست یا ریکارڈ شدہ نشر نہیں کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نیلا م گھر اور سرکس جیسے پروگرام لازمی رُکنے چاہئیں ، عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ غیر ملکی مواد خاص طور پر بھارتی ڈرامے ، اشتہارات اور فلموں پر پابندی ہوگی جبکہ صرف 10فیصد غیر ملکی مواد ضابطہ اخلاق کے تحت نشر کرنے کی اجازت ہوگی۔ اسلام آبادہائیکورٹ کا یہ فیصلہ 2013ء میں ایڈووکیٹ محمد وقاص کی طرف سے حکومت پاکستان کے خلاف دائر پٹیشن نمبر 2013/4098 پر پانچ سال بعد آیا ہے ،جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ رمضان المبارک میں خصوصی ٹرانسمیشن کے نام پر اسلامی جمہوری پاکستان کے وقار اور اسلامی تشخص کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئین پاکستان کی شق 31کی کُھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی وی چینلز مارننگ شوز نشر کرتے ہیں جس میں ڈانس دکھایا جاتا ہے ۔بھارتی گانوں سمیت ایسا مواد نشر کیا جاتا ہے جو ہماری ملکی پالیسی کے یکسر مخالف ہوتا ہے۔ مذہب کی ترجمانی ایسے لوگ کر رہے ہوتے ہیں جن کو اسلام کی بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتیں ۔ درخواست میںاس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ چینلز انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسے اشتہارات نہ چلائیں جو اسلام اور ہماری تقافت کو مسخ کر رہے ہوں اور ان سے بے راہ روی کا دروازہ کھلتا ہو، جسٹس شوکت صدیقی کیلئے دعائیں جنہوں نے لوگوں کے دلوں کی آواز کے مطابق فیصلہ دیا ۔سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی سنائی دیئے ۔ بلاشبہ یہ نشاندہی کی گئی کہ عجیب تماشا لگا ہے کہ حمد ونعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ ایسے لوگ زباز نہ آئے تو تاحیات پابندی لگا دیںگے۔ رمضان المبارک کے دوران سحر و افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ میچ پر تجزیئے کرانے کیلئے بیرون ملک سے ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن اسلامی موضوعات پر بات کرنے کیلئے کرکٹرز اور اداکارئوں کو بٹھا دیا جاتاہے۔ رمضان المبارک کا پہلا عشرہ گزر چکا ہے ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت اطلاعات ، داخلہ کے سیکرٹریز اور چیئرمین پیمرا پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی، اسے عدالت میں رپورٹ پیش کرنی ہے ۔ معلوم نہیں یہ کمیٹی کن مصلحتوں کا شکار ہوئی ہے اور کس طرح کی رپوٹ پیش کرتی ہے کیونکہ اگر وزارت اطلاعات اور پیمرا اس قابل ہوتے کہ وہ خود سے ٹی وی چینلز کو مانیٹر کر کے اخلاق باختہ پروگراموں کے خلاف کارروائی کرتے تو آج عدالت کو یہ فیصلہ نہ کرنا پڑتا اور ان اداروں کی سنجیدگی کا اندازہ لگا لیجئے کہ مذہب کے نام پر پانچ سال کیا کیا جاتا رہا۔ پیمرا اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کر ے گا کہ اذان نشر نہ کرنے والے 45چینلز کو شوکاز نوٹس دیئے ہیں۔ یہاں بات صرف اذان کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر اُس کلچر کی ہورہی ہے جو رمضان المبارک کے دوران یہ چینلز پروان چڑھا رہے ہیں۔ ایک طرف اسی طرح ناچ گانے، نیلام گھر اور اچھل کود کے پروگرام نشر ہو رہے ہیں اور میزبانی کرنے والے وہ ہی اداکار اور اینکرز ہیں ۔ دوسری طرف سوائے چند ایک مستند عالم دین کو نکال کر دین اسلام کو پیش کرنے والا وہ طبقہ ہے جن کی نہ تو اپنی تربیت ہے اور نہ ہی وہ اس فیلڈ میں کوئی سند رکھتے ہیں ۔ یہ تو رمضا ن المبارک کے خصوصی پروگراموں کی صورتحال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جس طرح کے کریمنل پروگرام ، جرائم کی خبریں، ڈرامے ، فلمیں اور موسیقی کے پروگرام پیش کئے جار ہے ہیں وہ اسلامی کلچر اور خاندانی نظام کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔ ڈراموں میں ایسی ایسی کہانیاں اور ایسے اونچے طبقے کی خرافات پیش کی جاتی ہیں اور عورت کی آزادی اور خود اختیاری کے نام پر گھروں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔ اس لئے اب اس سب کو روکنے کے لئے عدالت عظمیٰ کی طرف سے ایک کمیشن بننا چاہئے جس میں مستند علماء ، مختلف طبقات کے والدین اور اداروں کی نمائندگی ہو اور وہ بچوں، بڑوں ، خواتین کے پروگراموں سے لیکر مذہبی پروگرام ، معاشرتی پروگرام ، سیاسی ، جرائم، اشتہارات ،فلموں اور غیر ملکی مواد کے حوالے سے باریک بینی کے ساتھ تحقیق کے بعد نہ صرف ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دے بلکہ ان سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کی جائے ،پھر اساتذہ اور والدین پر مشتمل عملدرآمد اور مانیٹرنگ کمیٹیاں بھی قائم کی جائیں ۔ یہ تو ایک مستقل عمل ہے اور اس کو مستقل بنیادوں پر ہی جاری رہنا چاہئے ۔ وگرنہ چینلز جو کلچر متعارف کروا رہے ہیں یا جو مذہبی چہرہ لوگوں کو دکھا رہے ہیں وہ راستہ تو صرف تباہی کا ہے اور یہ فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ فلاح کا راستہ اپنانا ہے یا تباہی کا !
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین