• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے متفقہ طور پر ملک کے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کو نگران وزیر اعظم کے طور پر نامزد کرنا، عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان، فاٹا کا آئینی انضمام، جنرل (ر) اسد درانی کی مشترکہ اور متنازعہ کتاب اور جی ایچ کیو میں طلبی پچھلے چند دنوں میں اس قدر تیزی سے منظرعام پر آنیوالے ان واقعات میں سے ہر ایک پاکستانی تاریخ کا ایک منفرد باب ہے جو ہمارے مستقبل کیلئے لازمی اور گہرے اثرات لئے ہوئے ہیں۔ ہم امریکہ والوں کو تو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ پاک۔ امریکہ کشیدگی کے ان ایام میں ہمیں ماضی میں واشنگٹن کے معین قریشی (مرحوم) کی طرح اسلام آباد کو ایک اور نگران وزیر اعظم امریکہ سے سپلائی نہیں کرنا پڑا۔ نگران وزیر اعظم عوامی اور عدالتی سطح پر مثبت شہرت رکھتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر بھی رہ چکے ہیں لہٰذا ہر پاکستانی کی دعا ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ، پرامن اور شفاف انتخابات منعقد کروا کے عوام کے منتخب نمائندوں کو نئی حکومت دے کر اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوں۔
امریکہ میں بھی انتخابی مہم، سیاسی اسکینڈلز کا زور، سیاسی حامیوں اور مخالفین کی گہما گہمی، فاکس ٹی وی اور سی این این یعنی مختلف نقطہ نظر کے میڈیا پر مسائل اور شخصیات کے بارے میں بحث و مباحثہ کا ماحول ہوتا ہے لیکن 33؍کروڑ آبادی والے امریکہ میں وہ مسائل اور مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے جو 22؍کروڑ آبادی والے پاکستان میں انتخابی موسم میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں اقتدار کی کرسی کے بارے میں خواب اور حصول کی کوشش میں اپنی ذات سے لے کر اجتماعی اور ملکی مفاد کو قربان کردینے کی تمام حدوں کو پار کرنے کے لئے تیار سیاسی لیڈر انہی موقع پرست ’’الیکٹ ایبل‘‘ (یعنی قابل انتخاب) افراد کا اپنی سیاسی پارٹیوں میں خیرمقدم کررہے ہیں جوپہلے بھی کئی پارٹیوں سے وفاداری اور وابستگی کو تبدیل کرکے اقتدار کے مزے لوٹنےکا طویل ریکارڈ رکھتے ہیں۔ آج کل ایسے ہی وفاداری تبدیل کرنے والے ’’سیاسی لوٹوں‘‘ کا سیزن ہے۔ مسلم لیگ (ن) کوچ کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت، پی پی پی سے ناطہ تو ڑ کر پی ٹی آئی میں شرکت اور پی ٹی آئی سے مایوس سیاستدانوں کا مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں شرکت و پناہ کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ہر پارٹی ان فصلی بیٹروں کو اپنی چھتری میں جگہ دینے کے لئے تیارہے کہ ان کی انتخابی جیت سے اقتدار کے حصول میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی وفاداریاں اور پارٹیاں تبدیل کرنے والے ان سیاستدانوں کو عوامی سطح پر تو ناپسند ہی کیا جاتا ہے لیکن سیاسی بحران کے دور میں پارٹیاں تبدیل کرنے والے اپوزیشن اور برسراقتدار دونوں پارٹیوں کے لئے بڑی کشش کے حامل ہوتے ہیں۔ آج کل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے والے ’’الیکٹ ایبل‘‘ سیاستداں عمران خان کے لئے توجہ اور خوشی کا باعث بھی ہیں۔ میڈیا کا ایک سیکشن بھی وفاداریاں بدلنے والوں کو شہرت اور اہمیت دے رہا ہے۔ لیکن امریکہ اور کینیڈا کے جمہوری نظام میں ’’سیاسی لوٹوں‘‘ کی حیثیت اور وقعت کا اندازہ آپ اس حقیقت سے لگا لیں کہ امریکہ میں جمہوریت کے کمزور اور ابتدائی ایام میں بھی سیاسی پارٹی اور وفاداری تبدیل کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم رہی۔ انیسویں صدی کے آخر میں امریکی کانگریس نمبر53صرف دو سینیٹرز اور ایک کانگریس مین گالو شاگرو نے وفاداری تبدیل کی اور اس کی وجہ اقتدار نہیں قانون سازی کے معاملات پر اختلاف تھا۔ 1965ء سے لے کر 1984ء کے دوران صرف 6اراکین کانگریس نے پارٹیاں تبدیل کیں بعض نے تو اپنی نشست سے استعفٰی دیا اور پارٹی تبدیل کرنے کے بعد دوبارہ اسپیشل (ضمنی) الیکشن بھی جیت کر کانگریس میں بیٹھے۔ 1964ء میں ہیلری کلنٹن ری پبلکن تھیں لیکن جوانی میں ہی پارٹی تبدیل کرلی۔ خاتون اول، سینیٹر اور پھر صدارتی امیدوار کا الیکشن سب ڈیموکریٹ پارٹی سے لڑا۔ گزشتہ صدارتی الیکشن میں آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے صدارتی امیدوار کی مہم ڈیموکریٹک پارٹی سے پرائمری نامزدگی کے لئے چلائی۔ ری پبلکن امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس 1982ء تک ڈیموکریٹ تھیں لیکن ری پبلکن پارٹی سے وابستگی کے بعد اب تک ری پبلکن ہیں۔ امریکی کانگریس اور سینٹ میں پارٹی الحاق تبدیل کرنے والوں کی تعداد تو بہت تھوڑی ہے اور تبدیلی کی وجہ اقتدار سے زیادہ نظریاتی سامنے آتی ہے۔ گزشتہ 100؍سال میں پارٹیاں تبدیل کرنے والے امریکی ’’الیکٹ ایبل‘‘ بلکہ کانگریس میں منتخب افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور انہیں بار بار عوامی تنقید اور ناپسندیدگی سے بچنے کیلئے اپنی پارٹی سے وابستگی کی بار بار عوامی یقین دہانی بھی کرانی پڑتی ہے۔
کینیڈا کی پارلیمانی تاریخ، سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے، عوامی ناپسندیدگی اور اثرات کے بارے میں ایک پاکستانی نژاد کینیڈین رہنما کے بارے میں حقائق پر مبنی واقعہ اور نتیجہ سنئے اور سر دھنیے۔ 1966ء سے 1973ء تک پاکستان کے ایک ائیرفورس پائلٹ کینیڈا آگئے شہریت اور کاروبار میں کامیابی کے بعد کینیڈا کی لبرل پارٹی کی سیاست میں سرگرم ہوگئے اور پھر ٹورنٹو کے ایک نواحی حلقہ انتخاب سے کینیڈا کی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلے پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ منتخب بھی ہوگئے۔ پاکستانیوں نے بڑی خوشیاں منائیں۔ 2004ء میں کینیڈا کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد لبرل حکومت کے وزیر اعظم کے مشیر برائے افغانستان اور مشرق وسطٰی بھی مقرر ہوگئے اور پھر 2006ء میں بھی الیکشن جیت لیا۔ 2007ء میں لبرل پارٹی کی جگہ کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی کی حکومت آچکی تھی لہٰذا کینیڈا کی سیاست کو بھی پاکستانی سیاست سمجھتے ہوئے انہوں نے اقتدار پر فائز کنزرویٹو پارٹی میں شرکت اختیار کرلی کہ وہ اب افغانستان اور مشرق وسطٰی کے مشیر کے عہدے پر فائز رہ سکیں۔ لہٰذا 2007ء کے کینیڈین میڈیا کی سرخیوں کا نشانہ بنے۔ کینیڈا کی پاکستانی کمیونٹی کو بڑی شرمندگی کا سامنا تھا کہ لبرل پارٹی کے پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ نے عہدے کو جاری رکھنے اور اقتدار کے ساتھ منسلک رہنے کے لئے سیاسی پارٹی ہی تبدیل کر ڈالی۔ اس کینیڈین عہدے کی جھلک دکھلا کر پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطٰی میں فوائد و مراعات حاصل کرنے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اور ابھی تک کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا لیکن اس سال مارچ میں کینیڈا کی وفاقی پولیس نے اس پاکستانی نژاد سابق رکن پارلیمنٹ پرجنوری 2015ء سے ایک شکایت کی تحقیقات کے نتیجے میں سات الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے کینیڈا کی وفاقی پولیس کے حساس اور انٹرنیشنل تحقیقاتی سیکشن کے مطابق فراڈ کے تین الزامات، تین غلط بیانی اور جعل سازی اور ساتواں الزام جعلی دستاویز کا ہے۔ گیارہ لاکھ ڈالرز کی رقم کے فراڈ کا الزام ہے کینیڈین وفاقی پولیس کا یہ سیکشن ایسے جرائم اور سرگرمیوں پر توجہ دیتا ہے جو کینیڈا کے حکومتی اداروں کے لئے سرکاری حکام، کینیڈا کی سیاسی و سماجی اور معاشی امیج اور استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس 71؍سالہ پاکستانی کینیڈین نے پاکستانی اسٹائل سے سیاسی وفاداری اور پارٹی تبدیل کرکے کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی اور اس کے امیج کو بھی نقصان پہنچایا اور مستقبل میں سیاسی میدان میں آنے والے پاکستانیوں کے لئے مسائل و مشکلات اور منفی امیج کی صورت پیدا کی 2007ء میں کینیڈا میں سیاسی پارٹی تبدیل کرنے کے فیصلہ پر جس قدر منفی ردعمل ہوا تو پھر وہ بھی نہ سہہ سکے اور 2009ء میں سیاست کو خیرباد کہہ کر بیٹھ گئے کیونکہ سیاسی پارٹی تبدیل کرنے پر کینیڈین ووٹرز کا ردعمل بھی سامنے تھا۔ پاکستانی سیاست ہوتی تو اس سیاسی تبدیلی سے سرکار کا اقبال، شہرت اور عہدہ بلند ہوتا مگر یہ نہ ہوسکا۔ 71؍سالہ پاکستانی نژاد سابق رکن پارلیمنٹ کے ساتھ ایک 48؍سالہ پاکستانی جو آئی ایس آئی کے ایک سابق عہدیدار کے فرزند ہیں وہ بھی خاموشی سے انہی الزامات میں شریک کار کے طور پر مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔ کینیڈا میں بھی سیاسی پارٹی اور وفاداری تبدیل کرنے کا ریکارڈ بہت کم ہے۔ کاش کہ پاکستان میں بھی سیاسی وفاداریاں بیچنے اور تبدیل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی بجائے پارٹیاں حوصلہ شکنی کرکے عارضی نقصان اٹھالیں تو پھر انہیں داخلی طور پر خطرات و خلفشار سے بچت، اپنے اراکین کی پختہ وفاداری اور ملک میں جمہوریت کو استحکام کے طویل المیعاد فوائد مل سکتے ہیں۔

تازہ ترین