• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حصے میں آنیوالی جمہوریت کا دوسرا پانچ سالہ دور بھی ختم ہوگیا —آئین کے مطابق اب 60دنوں میں عام انتخابات ہونے ہیں جس کیلئے نگران وزیراعظم حلف اٹھا چکے ہیں۔ جسٹس (ر)ناصر الملک کی بطور نگراںوزیراعظم تقرری کوسب سیاسی جماعتوں نے نہ صرف بہت سراہا بلکہ جمہوری سفر جاری رکھنے کیلئے نیک شگون قرار دیا ہے۔ وہ کچھ عرصہ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ، 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے جو کمیشن بنایا گیا وہ اسکے سربراہ بھی تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ الیکشن کے انعقاد کیلئے ایک بہترین نگراں ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد یہ کہا کہ یاد رکھیں انتخابات وقت پر ہونگے ، 25جولائی کو انتخابات نہیں ہوئے تو آگے کام نہیں کرونگا۔ گو الیکشن قوانین کے مطابق فیئر ، فری اور شفاف الیکشن کا انعقاد الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے ۔ اسوقت یہ سب سے اہم سوال زیر بحث ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں پورے کرتے ہوئے بروقت الیکشن منعقد کروا سکے گا ؟چونکہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل ہی عجیب قسم کی صورتحال سامنے آنا شروع ہوگئی ہے ۔ خیبر پختوانخوا کیلئے نگراںوزیراعلیٰ کا نام متنازع ہونے کے بعد ابھی فی الحال ڈیڈلاک ہے۔ اسی طرح پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرف سے تجویز کردہ ناصر محمود کھوسہ کا نام متنازعہ ہونے کے بعد کوئی اور نام بھی فائنل نہیں ہوسکا۔ سندھ کیلئے سابق چیف سیکرٹری فضل الرحمٰن کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں ابھی ڈیڈ لاک ہے۔
٭…بلوچستان اسمبلی نے 30مئی 2018ء کو ایک قرار داد پاس کی ہے کہ انتخابات اگست کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دیئے جائیںچونکہ بہت شدید گرمی ہے ، اس موسم میں لوگ نقل مکانی کر جاتے ہیں اور پھر لوگوں کی اکثریت حج پر ہوگی ۔
٭…اسوقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے 107کیسز زیرسماعت ہیں جن میں سے بارہ اضلاع جہلم، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، لوئر دیر، قصور، خاران، گھوٹکی ، شیخوپورہ ، بہاونگر، ہری پور اور راولپنڈی و اٹک جبکہ این اے15، 16اور کے پی کے 37,38کی حلقہ بندیوں کو ہائیکورٹ کالعدم قرار دیکر نئی حلقہ بندیوں کا حکم دے چکی ہے۔ اسی طرح ایبٹ آباد کے بعض حلقوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے کوئٹہ کی 8صوبائی نشستوں کی حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دیا ہے، اور چند دنوں میں مزید ایسے فیصلے آنے کی توقع ہے۔
٭…ایم کیو ایم نے کراچی میں شفاف مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کرانے کیلئے نہ صرف الیکشن کمیشن میں درخواست دی ہے بلکہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کے بغیر 2017ء میں ہونیوالی مردم شماری کو مسترد بھی کر دیا ہے اور انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔
٭… پلڈاٹ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں الیکشن کے انعقاد کیلئے اب تک الیکشن کمیشن کے سارے عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہی روش رہی تو الیکشن کی شفافیت بہت متاثر ہوگی۔
٭…28مئی 2018ء سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے بریفنگ دی کہ عالمی طاقتیں الیکشن سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں ، گو عام انتخابات کے لئے سیکورٹی پلان تیار کر لیا گیا ہے،ہر پولنگ ا سٹیشن پر 4سے5پولیس اہلکارتعینات ہونگے، اسطرح تین لاکھ پولیس اہلکارالیکشن ڈیوٹی سرانجام دینگے۔ الیکشن کیلئے85ہزار پولنگ اسٹیشن ہیں جن میں سے 20ہزار حساس ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے موقع پر بڑے پیمانے پر سیکورٹی خطرات ہیں جو الیکشن کمیشن کیلئے پریشانی کا باعث ہیں ،پولیس کی سیکورٹی ناکافی ہے اور صوبوں کی طرف سے سیکورٹی کیلئے پاک فوج کی خدمات کا مطالبہ آرہاہے۔
٭…ایک رپورٹ کے مطابق فاٹا کے خیبر پختوانخوامیں انضمام اور گلگت، بلتستان کے نئے آرڈر کے بعد سے بھارت اور افغانستان مل کر گلگت ، بلتستان اور فاٹا میں نیا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں بھارتی و افغان سفارتکارمل کر پاکستان کیخلاف مہم شروع کرنیوالے ہیں کہ گلگت اور فاٹا میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں کو چھپانے کیلئے پاکستان طاقت کااستعمال کر کے متنازعہ علاقوں کو آئینی شکل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان میں ہونیوالے عام انتخابات کو سبو تاژ کرنے کیلئے افغانستان اور بھارت ملکر کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اسکوتقویت دینے کیلئے اندرون خانہ ایک پاکستانی گروپ بھی سرگرم ہے ۔ ان دونوں ملکوں کو پاکستان کی کچھ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہیں۔
٭… ن لیگ کی حلیف جماعت جے یو آئی ف کے سربراہ نے فرمایا ہے کہ فاٹا کاانضمام وہاں کے لوگوں کی رائے کیخلاف ہے اور یہ فیصلہ خودکشی کے مترادف ہے۔
٭…اس وقت سابق نااہل وزیراعظم نے جو بیانیہ اپنایاہوا ہے، مبینہ طور پر بین الاقوامی سازش اور ایجنڈے کا حصہ ہے۔
٭…28مئی کووزیراعلیٰ خیبر پختوانخوا پرویز خٹک چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ چکے ہیں کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن اکٹھے نہ ہوئے تو یہ نقصان دہ ہوگا ۔
اسوقت جس طرح کے بین الاقوامی حالات اور اندورن ملک جو ماحول بنا ہوا ہے۔ اسمیں نہیں لگتا کہ نگراں حکومت کوئی بڑا قدم اٹھا سکے گی کیونکہ اسکا کردار انتظامی امور تک محدود ہوگا ۔ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق یہ نہ تو بڑے پیمانے پر افسروں کے تبادلے کر سکتی ہے نہ ہی کسی پالیسی کو تبدیل ۔ الیکشن کمیشن سے پوچھے بغیر کسی افسر کی تقرری یا تبادلے پر الیکشن کمیشن کارروائی کر سکتا ہے ، اور مزید یہ کہ الیکشن کمیشن ووٹنگ کے دوران کسی ایسے افسر جو ووٹر پر اثر انداز ہو، اسے ہٹا سکتا ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں الیکشن شیڈول جاری ہوچکا ،28جون کو امیدواروں کی حتمی فہرست بھی جاری ہو جا ئیگی اور الیکشن کمیشن فیئر ، فری اور شفاف انتخابات کرانے کااختیار رکھتا ہے لیکن کیاایسے حالات میں وہ 25جولائی کو انتخابات کروا سکتا ہے جبکہ ایک درجن سے زائد اضلاع کی حلقہ بندیوں کو عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے۔ پھرجب ان اضلاع کی نئی حلقہ بندیاں ہونگیں تو کیاان سے منسلک باقی اضلاع کی حلقہ بندیاں متاثر نہیں ہونگیں؟ لیکن اگر الیکشن کمیشن ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ چلا جاتا ہے تو کیا پھر الیکشن وقت پر ہو سکیں گے اگر وقت پر ہوگئے تو انکی شفافیت کتنی درست ہوگی، اسی طرح اگر دس جون کو آنیوالے مردم شماری کے حتمی نتائج اور عارضی نتائج میں بڑا واضح فرق ہوتاہے تو پھرکیاتمام حلقہ بندیاں نئے سرے سے کرانا قانونی طور پر ضروری نہیں ہوگا ؟ پاکستان میں آج تک ہونیوالے ہر الیکشن کے حوالے سے انگلیاں اٹھی ہیں ، ان انتخابات کے آغاز سے ہی تنازعات سامنے آرہے ہیں ۔ حکمراں جماعت نے متنازعہ نامزدگی فارم دیکر ایک طرح سے کرپٹ لوگوں کو کلیئر کیا ہے ، گو لاہور ہائیکورٹ نے فارم کو آئین کی دفعہ 63,62کے مطابق بنانے کا حکم دیا ہے، لیکن لگتا یہی ہے کہ آنیوالے دنوں میں مزید الجھائو اور متنازعہ چیزیں سامنے آئینگی جو ہر پاکستانی کو کنفیوژ کریںگی کہ کیا ایسے حالات میں انتخابات ہو سکیں گے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین