• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرمسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کیلئے تو یہ زندگی کا معمول ہے کہ وہ ایک اقلیت کے طور پر رمضان اور اسلامی ایام گزارتے ہیں لیکن مسلم ممالک کے شہریوں کو اس بات میں دلچسپی ضرور ہے کہ مسلمان ممالک سے امریکہ آنے والوں پر پابندی کے حامی اور مسلمانوں کے بارےمیں منفی تاثر رکھنے والے صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں مسلمانوں کا رمضان کا مہینہ کیسے گزر رہا ہے؟ دنیا کے کونے کونے سے امریکہ آکر آباد ہونے والے تمام مسلمان امریکہ کی کل آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ہیں اور وہ بھی امریکہ کی پچاس ریاستوں میں نیو یارک سے لے کر کیلیفورنیا، ہوائی اور الاسکا کی ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں جن کے درمیان کئی گھنٹوں کے فرق کے ساتھ کئی ٹائم زون اور چھ گھنٹوں بلکہ اس سے بھی زائد طویل فلائٹس کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے ایسے سوال بھی اٹھتے ہیں جن کا مسلمان ممالک کے کسی شہری کو کبھی سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا۔ مثلاً قطب شمالی اور قطب جنوبی کے علاقوں میں مسلمان کب سحر کریں اور کب افطار کریں؟ کیونکہ وہاں کئی ماہ کی رات اور کئی ماہ کا دن جیسا قدرتی موسم رہتا ہے۔ مختصر یہ کہ مسلم مخالف صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے مسلمانوں پر اس سال کے ماہ رمضان میں کیا اور کیسی گزر رہی ہے؟ مختصر اور دوٹوک جواب ہے کہ مذہبی، طبعی، طبقاتی، تحفظاتی، ماحولیاتی اور معاشرتی لحاظ سے امریکی مسلمان اقلیت پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر طور پر رمضان کے روزے رکھ رہی ہے۔ تفصیل چاہئے تو حاضر ہے۔ مسلمان کی آبادی ایک فیصد ہے مگر مسلمانوں کے بارے میں آگاہی دیگر تمام اقلیتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے سانحہ 11ستمبر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شدید منفی اثرات کے باوجود امریکہ کی سب سے بڑی پولیس فورس یعنی نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ میں کئی سو پاکستانی نژاد اور دیگر مسلمان پولیس آفیسرز ہیں۔ نیویارک پولیس ہر سال اپنی جانب سے ’’استقبال رمضان‘‘ کی تقریب سرکاری طور پر پولیس ہیڈ کوارٹرز میں منعقد کرتی ہےاور رمضان میں مساجد کی سیکورٹی نماز تراویح کے دوران ڈبل پارکنگ اور دیگر سہولتوں کیلئے انتظامات اور جمعہ کے دن اپنے پولیس حکام کو مساجد میں اجتماعات سے خطاب کرکے خدمت اور تحفظ کی یقین دہانی کا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد کچھ اتار چڑھائو مسلمانوں کی سخت اور خفیہ نگرانی کے مراحل بھی آئے مگر یہ اب گزر گئے۔ پھر ٹرمپ منتخب ہوگئے تو مسلم اقلیت کو پھر ایک جھٹکا لگا۔ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے اپنے سخت گیر مشیروں کے مشورے پر وہائٹ ہائوس میں ہونے والا ’’سالانہ افطار ڈنر‘‘ منسوخ کرکے امریکہ کے مسلمانوں میں مزید غلط تاثر پھیلایا لیکن اس سال وہی صدر ٹرمپ ’’افطار ڈنر‘‘ منعقد کررہے ہیں۔ صدر نے آغاز رمضان کی مبارکباد کا پیغام بھی جاری کیا اور امریکی مسلمانوں کیلئے چند مثبت الفاظ بھی لکھے۔ متعدد ریاستوں کے گورنر اور دیگر عہدیداروں نے بھی مسلم اقلیت کو مبارکباد کے پیغام جاری کرکے امریکی عوام کو بھی آگاہی دی۔ امریکہ میں سیکولر نظام کی جانب سے ایک فیصد آبادی والی مسلم اقلیت کے مذہبی ایام کی اہمیت کو اتنا تسلیم کرلینا اور مراعات دینا ایک مفید پہلو ہے۔
امریکہ کینیڈا کے مسلمان ایک اور لحاظ سے بھی پاکستان سےبہتر طور پر رمضان گزار رہے ہیں کہ آپ کسی بھی مسلک کے مسلمان ہوں۔ شافعی، حنبلی، مالکی یا حنفی ہوں۔ حتیٰ کہ شیعہ ہوں یا سنی ہوں آپ تمام نمازیوں کے ساتھ صف میں کھڑے ہوکر کسی بھی مسجد میں اپنے مسلک کے مطابق نماز اور تراویح ادا کرسکتے ہیں کوئی آپ سے نہ تو سوال کرتا ہے نہ ہی اعتراض کرتا ہے۔ آپ کے برابر میں کسی بھی رنگ و نسل اور زبان بولنے والا افریقی، امریکی، ایشیائی، یورپی رنگ و نسل کا مسلمان کھڑا ہوکر اپنی روایت اور عقیدہ کے مطابق نماز ادا کرکے آپ سے خوش اخلاقی سے ہاتھ ملاکر رخصت ہوجاتا ہے۔ پاکستان سے آنے والے مختلف مکاتب فکر کے علما مفتی منیب الرحمن، مولانا کوکب نورانی اور دیگر عقائد و مسلک کے علما نیویارک بروکلین کی مکی جامع مسجد میں خطاب و امامت فرماتے رہتے ہیں۔ امریکی اسکالر امام سراج وہاج، جامعہ الازہر اور سعودی عرب سے فارغ التحصیل اماموں کے پیچھے دیوبندی، بریلوی، حنبلی، شافعی ، مالکی اور حنفی مسلک کے حامل اطمینان سے خوشی خوشی نماز اور تراویح ادا کرکے رمضان کے روزے رکھتے ہیں۔ نیویارک کے المہدی فائونڈیشن کے سربراہ علامہ سخاوت سندر الوی بڑے روادار شیعہ اسکالر ہیں ان کا کہنا ہے کہ متعدد اہل سنت حضرات المہدی فائونڈیشن کے اجتماعات و عبادات میں شریک ہوتے ہیں، کیا ہمارے پاکستان کی مساجد میں اس مسلم بھائی چارے اور اخوت کے مناظر نظر آتے ہیں؟۔ اہل مغرب اپنی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تقسیم کے طرز پر مسلمانوں کو بھی سنی اور شیعہ کی تقسیم کرکے وہی محاذ آرائی اور تصادم سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ قرون وسطی میں خود گزر چکے ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیتھولک عیسائی دنیا کا کوئی پوپ ڈھائی سو سال تک پروٹسٹنٹ انگلینڈ میں وزٹ کے لئے بھی نہیں گیا۔ مسلمانوں میں باہمی خلفشار کے باعث نہ صرف اسپین میں مسلمانوں کاقتل عام ہوا بلکہ ان کی مساجد کو گرجائوں میں تبدیل کردیا گیا اور پھر پانچ صدیوں تک اسپین میں نہ مسجد رہی اور نہ ہی اذان سنی گئی۔ آج پاکستان میں دوران رمضان بھی بعض حلقوں میں فروعی مسائل پر کشیدگی کو عوامی سطح پر فروغ دینے کی کوشش فرمائی گئی جو مسلم اتحاد کے فلسفے سے متصادم ہے اورالیکشن کے سیزن، سیاسی کشیدگی اور بیرونی قوتوں کی پاکستان کے بارے میں مخالفانہ حکمت عملی کے اس ماحول میں انتہائی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ رمضان اتحاد، صبر اور دیانت سکھاتا ہے۔ رواداری، حلم اور مل کر تکلیف و خوشی سہنے کا درس دیتا ہے۔ کیا اس رمضان میں پاکستان کا ماحول یہ سب کچھ فراہم کرتا ہے امریکہ میں یہاں کی مساجد اور مختلف نسل و رنگ اور کلچر کے حامل مسلمان اتحاد و تعاون اور اشتراک کی ایک بہتر تصویر پیش کررہے ہیں۔ رمضان میں اشیاء کی قیمتیں کم و بیش وہی ہیں جو عام دنوں میں ہوتی ہیں۔ کسی پھل فروٹ، اجناس، گھی، چینی اور افطاری کے سامان کی قیمتوں میں اضافہ یا اشیاء کی کمی کی شکایت اس غیرمسلم معاشرے میں بھی نہیں ملتی بلکہ یہاں تو کرسمس اور نئے سال کے موقع پر قیمتوں میں کمی کی روایت ہے اور سیل قیمتوں کا رواج تو اب ہم نے پاکستان میں بھی اپنا لیا ہے۔
گزشتہ 17سال کی دشواریوں اور سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے اثرات کے باوجود امریکہ کے مسلمان آپس کے اختلافات میں الجھے بغیر خود کو صرف مسلم کی شناخت دے کر وہاں کے نظام اور معاشرے میں نہ صرف اپنی حیثیت و شناخت کو منوارہے ہیں بلکہ عیسائی ، پادریوں، یہودی ربائیوں ، سکھ اقلیتوں اور ہر مذہب و عقیدہ کے انسانوں کو اپنی افطاریوں کے اجتماعات میں مدعو کرکے ان کو رمضان کے فلسفہ سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی تاریخ اور عقائد سے بھی آگاہی حاصل کررہے ہیں۔ 4جون کو نیویارک پولیس ہیڈ کوارٹرز میں مسلمان پولیس آفیسرز ایسوی ایشن کا سالانہ افطار ڈنر ہوا۔ تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا اور پولیس کے امام طاہر کو کج نے تقریر کی ایسوسی ایشن کے صدر پاکستانی نژادعدیل رانا کے بعد پولیس کے بڑے امام (چپلین) خالد لطیف اور ان کے بعد یہودی ربی الون کاس نے اسلام اور یہودی عقائد، حضرت اسحٰق ؑ ؑاور حضرت اسماعیلؑ کے رشتہ کے علاوہ ان مشترکہ عقائد کی بات کی جو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے سے قریب لاسکتے ہیں۔ افطار ڈنر میں پاکستان کے قونصل جنرل راجہ علی اعجاز، سعودی اور عرب امارات کے نمائندے بھی موجود تھے تو درجنوں یہودی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی تھے۔ مسلمانوں کے ہر مکتب فکر کے مسلمان افطار میں شریک تھے اور اس امریکہ میں برائے نام اقلیت ہونے کے باوجود متحد اور موثر نظر آرہے تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین