• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سڑکوں کی شہباز شریفانہ اکھاڑ پچھاڑ نے بے چارے لاہوریوں کا جینا پہلے ہی حرام کر رکھا تھا کہ اب رفتہ رفتہ بکرا عید کا مزا بھی کرکرا ہونے لگا ہے اور یہ سب کیا دھرا حکومت پنجاب کی صفائی ستھرائی مہم کا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے دو تین سالوں سے جاری ہے اور پہلے پہل تو ہمارا خیال تھا کہ صفائی ستھرائی کا یہ عاضی بخار دو ایک عیدوں کے بعد اتر جائے گا اور حالات بارِ دیگر معمول پر آ جائیں گے مگر یہ محض ہمارا خیال ہی تھا۔
بخدا ہم نے اس سے زیادہ عجیب اور بے نام و نشان بکرا عید آج تک نہیں دیکھی۔ شہر میں جہاں جہاں سے ہمارا گزر ہوا ہمیں نہ تو آنتوں، اوجھڑیوں و دیگر غلاظتوں کے انبار نظر آئے اور نہ ہی سرے پائے بھوننے کی وہ مسحور کُن ” خوشبو“ ہمارے نتھنوں تک پہنچ پائی۔ یوں لگا جیسے ہم نے عید لاہور نہیں بلکہ لاس اینجلس میں گزاری ہے۔
آج عید سے چوتھا دن ہے مگر سڑکوں سے اٹھنے والی وہ سڑانڈ جو ہمارے ہاں بکرا عید کا خاصہ سمجھی جاتی تھی یکسر غائب ہے۔ حتیٰ کہ سمن آباد والا گندا نالہ بھی اس مرتبہ آنتوں اور اوجھڑیوں کی بھرمار سے محروم ہی رہا۔ یہ بات اہل سمن آباد ہی نہیں پورے لاہور کے لئے افسوس اور حیرت کا باعث ہے۔
صفائی ستھرائی کی اہمیت پوری دنیا میں اجاگر کی جاتی ہے مگر ہماری قوم نے اس قسم کی ”چھچھوری“ نصیحتوں پر کبھی کان نہیں دھرا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غلاظت اور نجاست کا ورلڈ کپ منعقد ہوتا تو شاید ہم مقابلہ چیمپئن ہوتے۔ مگر افسوس کہ شہباز شریف اور ان کے ترک دوست ہماری اس انفرادیت پر بھی پانی پھیرتے نظر آتے ہیں۔
اس حوالے سے مسلمان ممالک کا عمومی ریکارڈ کوئی ایسا خاص قابل رشک نہیں۔ صفائی کے اعتبار سے پہلے ساٹھ ممالک میں صرف دو مسلم ممالک کا ذکر ملتا ہے۔ اس فہرست میں قطر کا نمبر چوبیسواں ہے جبکہ ساٹھویں نمبر پر ترکی ہے۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر اسرائیل ہے۔ ”صفائی نصف ایمان ہے“ کا ورد سب سے زیادہ ہم کرتے ہیں مگر ہم پہلے ایک سو دس ممالک میں کہیں دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتے۔ تاہم اگر شہباز شریف اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ والوں نے اپنے لچھن درست نہ کئے تو کوئی بعید نہیں کہ ہم جلد بھارت کے آس پاس پھٹکتے دکھائی دیں جو اس وقت اپنی سواارب آبادی کے باوصف بہترویں نمبر پر موجود ہے۔
امریکہ میں دوران تعلیم ہماری ایک جرمن ہمسائی ہوا کرتی تھی جس پر ہمہ وقت صفائی کا خبط سوار رہتا۔خاصی خوش شکل ہونے کے باوجود یہ خاتون اپنے بھارتی مسلمان شوہر سے علیحدگی اختیار کر چکی تھی۔ شوہر بھی بظاہر تو اچھا خاصا پڑھا لکھا خوش لباس آدمی تھا مگر دو چارجاسوس نما محلہ داروں کی زبانی معلوم ہوا کہ دونوں میں اکثر جھگڑا ہوا کرتا اور ہٹلرانہ مزاج کی مالک یہ خوش شکل عورت ہر دوسرے تیسرے دن بے چارے شوہر کی کماحقہ ”لہتریشن“کیا کرتی۔ اس جنگ و جدل کی بنیادی وجہ بھی صفائی ستھرائی ہی بتائی جاتی کہ ہمارا ہندوستانی دوست کچن اور غسل خانے کو حسب توفیق گندا رکھتا اور اس بی بی کے نزدیک یہ جرم ناقابل معافی تھا۔
ہمارے دوست مخبرِ اعلیٰ کا گھر، گاڑی اور لباس بھی اس کے خیالات کی طرح غلیظ ہی رہتا ہے۔ ہمارے ایک مشترکہ دوست محترم مبالغہ نویس صاحب اپنی ای میل میں رقمطراز ہیں ”آفتاب اقبال کا مخبر نہ صرف باتوں، حرکتوں اور خصلتوں سے واہیات لگتا ہے بلکہ صفائی ستھرائی اور پاکی پلیدی کے حوالے سے بھی قرون وسطیٰ کے کسی پسماندہ افریقی قبیلے کا چشم و چراغ لگتا ہے۔“
ہم نے یہی میل مخبرِ اعلیٰ کو فارورڈکردی۔ چنانچہ گزشتہ ایک ہفتے سے وہ بیہودہ شخص بے چارے مبالغہ نویس صاحب کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ ہماری چشم تصور دیکھ رہی ہے کہ جس روز مبالغہ نویس صاحب اس کمبخت کے ہتھے چڑھ گئے یہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ایلیٹ فورس والے عام طور پر بیکری ملازمین کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
اکثر دوست جب مخبرِ اعلیٰ کو چائے کی پیالی میں سگریٹ بجھاتے اور خوب وحشیانہ انداز میں کھانا کھا کر واش بیسن پرناک، کان، گلا و دیگر حساس اعضا کی صفائی کے دوران ایک طوفان بدتمیزی برپا کرتے دیکھتے ہیں تو باجماعت اس کے سدھرنے کی دعا کرتے ہیں۔ مخبرِ اعلیٰ کو جب بھی ہماری حالتِ زار پر رحم آیا، وہ ایک ہی بات کرتا ہے کہ جب تک میں کسی خوش شکل جرمن بیوی سے کم از کم چھ ماہ تک لگاتار مار نہیں کھاتا اس وقت تک سدھر نہیں سکتا!
مبالغہ نویس صاحب اس کی اس خواہش موہوم بارے جان کر یوں رقمطراز ہوتے ہیں۔
”یہ منحوس مخبر، جرمن بیوی کے خواب دیکھتے دیکھتے ایک دن موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ کاش ہم اس کے کسی کام آ سکتے۔ اگر یہ شیطان صفت انسان کسی ایک آدھ خوبی کا حامل بھی ہوتا تو بخدا ہم سب دوست مل کر کسی نیک بخت جرمن بی بی کے پاؤں بھی پکڑ سکتے تھے۔ مگر یہ لعنتی اس جوگا بھی نہیں کہ ہم اس کے لئے کسی ایتھوپیائی عورت کے ساتھ بات کریں جرمن تو بہت دور کی بات ہے۔ البتہ میں اس سلسلے میں اپنے جرمن شیفرڈ کتے کی خدمات پیش کرنے کو تیار ہوں جس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ تاہم اس کے لئے مجھے جرمن شیفرڈ کو رضا مند کرنا پڑے گا۔“

مبالغہ نویس صاحب کی یہ تحریر پڑھ کر بھی ہم حسب معمول خوب محظوظ ہوئے مگر ہم سے حماقت یہ ہوئی کہ ہم نے یہ میل بھی منِ وعن تمام دوستوں کو فارورڈ کرڈالی۔ آخری خبریں آنے تک مخبرِ اعلیٰ ایک بڑے سائز کا خنجر خریدتا پایاگیا ہے!!
تازہ ترین