• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان میں گائو رکشا سے متعلق پر تشدد واقعات کے حوالے سے ایک بار دلّی میں مقیم انڈین نیشنل کانگریس کے ترجمان میم افضل نے دعویٰ کیا تھا کہ اِن کے ملک میں آبادی کی اکثریت مذہبی منافرت پر یقین نہیں رکھتی۔ اِس گفتگو میں جب ترجمان کو اپنی اِس بات پر یقین دلانے میں کسی قدر دقت کا سامنا ہوا تو انہوں نے وضاحت کی ، ’’یوں کہہ لیجئے کہ ہماری آبادی کی اکثریت آج بھی سیکولر ہے ۔‘‘ میم افضل در اصل بر سر اقتدار اور انتہا پسند بی جے پی کی مخالف لبرل اور سیکولر کانگریس کے ترجمان ہیں، اورعقیدے کے اعتبار سے مسلمان بھی ہیں۔ سو خیال ہوا کہ شاید دلّی میں اِن کی سیاسی اور سماجی بقا کیلئے ایسی باتیں کرنا ضروری ہوتا ہوگا۔ لیکن گزشتہ پیر ہندوستان میں دس اسمبلی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر اندازہ ہو ا کہ چند ماہ قبل کانگریس کے ترجمان کی کہی ہوئی بات غلط نہیں تھی ۔ مسلمان امیدواروں کی کامیابی کے سبب میم افضل کے خیالات کو مزید تقویت ملتی ہے۔ ملک کی سب سے گنجان آباد ریاست اتر پرادیش میں پورب کے بعد اب پچھم میں بھی بی جے پی کو شکست کامزا چکھنا پڑ ا۔ شروع سال میں گورکھپور اور پھول پو ر میں انتخابی شکست کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی حالیہ ضمنی انتخابات میں مغربی یوپی سے بھی دونوں نشستیں گنواں بیٹھی ۔بی جے پی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے زیادہ اہم بات یہ کہ کیرانا کی نشست پر راشٹریا لوک دل پارٹی کے ٹکٹ پر جیتنے والی امیدوار بیگم تبسم حسین علاقے کے ایک نامی گرامی مسلمان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ بیگم تبسم حسین کا بی جے پی کے امیدوار کے خلاف لگ بھگ پچپن ہزار ووٹوں سے جیتنا ہندوستان بھر میں ایک غیر معمولی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے ۔اُدھر بجنورمیں نور پور کی نشست پرعوام نے سماج پارٹی کے نجم الحسن کو بی جے پی کے آوانی سنگھ کے مقابلے میں چھ ہزار سے زائد ووٹ ڈال کر ثابت کیا کہ ہندوستان کے مذہبی انتہا پسندوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ! انتخابی حلقوں کی موجودہ ترتیب کے حوالے سے بی جے پی کے حمایتیوں کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کے ووٹرز کی تعداد بھی کہیں زیادہ ہے ۔ اِس لئے خیال ہے کہ سال 2019ءکے عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کا مربوط سیاسی اتحاد بھارت میں انتہا پسند سیاست کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔یہ تجربہ چند ماہ قبل گورکھ پور اور پھول پور میں کامیاب ثابت ہواتھا! اِنتخابات میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف راشٹریا لوک دل ، سماج پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کا انتہائی مضبوط اِتحاد بنتا دیکھا گیا ۔ ا ِس قسم کے غیر متوقعہ گٹھ جوڑ کے ساتھ ساتھ چند حلقوں میں بی جے پی کے ووٹ بنک میں کمی بھی دیکھی گئی ہے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں اوپر تلے بی جے پی کی شکست اور اس پارٹی کیخلاف بنتے ہوئے یہ کامیاب اِتحاد سال 2019ءکے انتخابات میں پارٹی کیلئے غیر معمولی پریشانیوں کا سبب بن سکتے ہیں دوسری جانب گزشتہ سال گجرات کے انتخابات میں بی جے پی کیلئے خطرے کی پہلی گھنٹی بجادینے والی کانگریس نے مہاراشٹرا، میگھا لایااور پنجاب میں مجموعی طور پر تین نشستیں حاصل کرلی ہیں۔ شاہ کوٹ کی سیٹ پہلے اکالی دل کے پاس تھی! کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے یہ سیٹ اکالی دل سے چھین کر شمالی ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو ووٹوں کے ذریعے شکست دیکر فیصلہ کن حد تک کمزور کردیا ہے۔جنوبی ہند میں انتہا پسندی کی تازہ لہر میں اپنی مقبولیت کھو دینے والی کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے بھی کیرلا سے دوبارہ انتخابات جیت کرتشدد پسندی کی تازہ لہر کو بڑھنے سے روک دیا ہے۔جوہی کاٹ کی نشست پرراشٹریا جنتا دل کے شاہ نواز عالم نے بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدوار کو شکست دیکر ریاست بیہار میں ہل چل مچادی ہے ۔


اتر پرادیش ہی میں نور پور کی نشست پر سماج وادی پارٹی کے نعیم الحسن کانگریس ، بہوجن سماج پارٹی اور عام آدمی پارٹی کی حمایت حاصل کرکے کوئی چھ ہزار ووٹوں کی برتری سے جیت گئے۔انہوں نے بی جے پی کی انتہائی مضبوط امیدوار آوانی سنگھ کو کم و بیش نو ہزار ووٹوں سے شکست دی! بی جے پی نے اِن ضمنی انتخابات میں واحد سیٹ اتراکھنڈ میں تھرالی کے حلقے سے جیتی؛ یوں مجموعی طور پر یہ نتائج بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی کیلئے انتہائی تشویشناک ہیں ؛ خاص طور پر اُس وقت جب عام انتخابات میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے۔


یہ انتخابی نتائج مجموعی طو ر پر غیر متوقع ہیں لہٰذا فی الحال دنیا بھر میں مختلف زاویوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں اِن نتائج کو بی جے پی کے تاریک مستقبل سے تعبیرکیا جا رہا ہے جب کہ چند تجزیہ کار اِنہیں خطے کی سیاست میں مجموعی تبدیلی کے ابتدائی آثار قرار دے رہے ہیں ۔ البتہ کسی پاکستانی کیلئے ہندوستان میں مسلمان امیدواروں کا ووٹ لیکر کامیاب ہونا ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستانیوں کی اکثریت واقعی انتہا پسند نہیں اور یہ بھی کہ شاید مہینوں پہلے کانگریس کے ترجمان کی جانب سے فون پر کہی گئی بات غلط نہیں تھی۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین