• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ایم کیو ایم لندن کی جانب سے انتخابات کے بایئکاٹ اور پھر تازہ عدالتی فیصلے کے تحت ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے ڈاکٹر فاروق ستار کی بے دخلی کے بعد کم از کم اب کراچی اور شہری سندھ میں پارٹی کے لاکھوں روایتی ووٹرز کے لئے سیاسی منظرنامہ بڑی حد تک واضع ہوتا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ممکنہ طور پر اپیل دائر ہونے تک اب ووٹرز کے پاس اختیار ہے کہ وہ خالد مقبول صدیقی کی زیر قیادت ایم کیو ایم پاکستان کو ووٹ دیں، پولنگ کے دن گھر پر بیٹھے رہیں یا پھر دیگر مد مقابل جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے لئے اپنا ذہن تیار کریں۔
عدالتی فیصلہ آنے تک صورتحال یہ تھی کہ ملک بھر سے ایک جانب سیاسی جماعتوں، سیاسی خاندانوں اور برادریوں کی طرف سے امیدواروں کے تعین اور نامزدگیوں کی خبریں ملتی رہیں اور دوسری جانب ایک ہی پارٹی میں ٹکٹ نہ ملنے پر اختلافات کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں ؛ جب کہ اسی ملک گیر گہما گہمی میں کراچی اور شہری سندھ میں لاکھوں ووٹرز مستقل اِس الجھن کا شکار رہے کہ آخر کار اِن کی اصل پارٹی کا نیا اورحقیقی وارث ہے کون!
اگست 2016 میں بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر سے آج تک ایم کیو ایم کا روایتی ووٹرمستقل تذبذب اور اضطرا ب میں مبتلا رہا ہے۔ پھر مبینہ طور پر کامران ٹیسوری کے طفیل ایم کیو ایم پی آئی بی اور بہادر آباد دو علیحدہ علیحدہ دھڑوں کی صورت میں آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ۔ یوں کشیدگی بڑھتی چلی گئی اور اس کا تسلسل لاکھوں ووٹرز کی پریشانیوں میں اضافے کا مستقل سبب بنا رہا۔ بیان بازی کا سلسلہ تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔کہتے ہیں کہ اِن تمام تر اختلافات کی بنیاد کامران ٹسوری سے ڈاکٹر فاروق ستار کی قربت ہے ۔قوم اور میڈیا کو ان بیان بازیوں سے عامر خان اور خالد مقبول صدیقی سے ڈاکٹر فاروق ستار کے بظاہر دیرینہ اختلافات کا اندازہ بھی ہوا: یعنی دونوں دھڑوں میں بڑھتے فاصلوں کے پیچھے چند پرانے معاملات کے کار فرما ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے دوران یہ معاملہ پارٹی قیادت کے معالے پرتنازع کی صورت اختیار کرگیا اور آخر کار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پارٹی قیادت بہادر آباد کے حوالے کردی تازہ فیصلہ در اصل الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلے کی ہی توثیق ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اس پیش رفت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس پوری صورتحال کو ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ،’’یہ مائنس ون نہیں، مائنس ٹو بھی نہیں بلکہ مائنس ایم کیو ایم فارمولا ہے ۔ ‘‘ فاروق ستار نے اپنے رد عمل میں واضح نشاندہی کردی تھی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔اگرچہ اس حوالےسے انہوں نے اب تک وقت اور تاریخ کی وضاحت نہیں کی ہے ۔
ماضی میں اپیلوں کی شنوائی سے متعلق تجربات کے تحت اندازہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل پر فوری شنوائی اور فوری فیصلہ لگ بھگ ناممکن ہے۔اگر ڈاکٹر صاحب فوری طور پر اپیل دائربھی کردیتے ہیں تب بھی فیصلہ ان کے حق میں یا فوری طور پر ہوجانا ضروری نہیں ہے۔ لہذا ایک محفوظ تجزیئے کے تحت کہا جاسکتا ہے کہ فی الحال انتخابی سیاست کی ہوا ڈاکٹر فاروق ستارکے خلاف چل رہی ہے۔دوسری طرف اِس فیصلے نے اُن خدشات کو بھی بڑی حد تک دور کردیا ہے کہ شہر کراچی کی سیٹیں ایم کیو ایم کے بجائے دیگر یا کسی خاص جماعت کے امیدواروں کو دلوانے کا منصونہ تیارکیا جارہاہے ۔ اَب متحدہ کا روایتی ووٹر ایم کیو ایم بہادر آباد کواپنی پارٹی کا اصل جانشین سمجھتا ہے یا نہیں، یہ راز اب پولنگ کے نتائج سامنے آنےسے ہی کھل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ اب بظاہر دیگرــ قوتوں کے بجائے عوام کے ہاتھ میں ہے لیکن گزشتہ ہفتے رو نما ہونے والی ایک غیر معمولی پیش رفت نے عوام کے بحال ہوتے ہوئے اعتماد کو ایک بار پھر کسی حد متاثرکیا ہے ۔
مذکورہ عدالتی فیصلے سے صرف چند روز قبل حیدر عباس رضوی کی اچانک پاکستان آمد اور فوری واپسی، کراچی کے سیاسی اتار چڑھائو پر گہری نظررکھنے والے شہریوں کے لئے ایک پر اسرار داستا ن بنتی جارہی ہے ۔ اِس انداز میں کسی سیاست داں کا ایک طویل مدت کے بعد وطن لوٹنا اورچند ہی گھنٹوں میں واپس چلے جانا یقینا عام بات نہیں ہے ۔خیال ہے کہ ان کی آمد کا امیدواروں کے فارم میں دہری شہریت کے مسئلے پر نرمی کے امکانات سے براہ راست تعلق تھا! اگرچہ سپریم کورٹ نے بعد ازاںکاغذات نامزدگی کے ساتھ ہر امیدوار کو دہری شہریت سمیت دیگر تفصیلات ایک حلف نامے میں درج کرنے پر پابند کردیا لیکن شاید حیدر عباس رضوی اس پیش رفت سے پہلے ہی کراچی آکر بہادر آباد جانے کی ٹھان چکے تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ حیدر عباس انتخابات کے تناظر میں ایک مقبول لیڈر رہے ہیں اور اُن کے خاص حلقے سے عمران خان بھی الیکشن لڑ رہے ہیں لہذا چند حلقوں نے انہیں انتخابات لڑنے کے بجائے فوری طور پر ملک چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ ایسی صورتحال میں شاید کسی نہ کسی سطح پرایک بار پھرانتخابات کے شفاف اور آزاد ہونے پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن صحافتی تناظر میں حیدر عباس کااپنا موقف اِن کے ووٹرز اور عوام کا انتخابات پر اعتماد بحال کرنے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے ۔ویسے بھی یہ قطعاًلازمی نہیں کہ کراچی او ر شہری سندھ کے عوام کو آئے دن اِن شکوک و شبہات میں مبتلا رکھا جائے کہ دیگرمعاملات کی طرح ان کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بھی کوئی کوٹہ مقرر ہے یا پھر سیاسی معاملات میں اِن کے حقوق محدودہیں! گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے دنوں میں بلا جواز عوام کے دلوں میں اِس قسم کے خدشات پیدا کر دئے گئے تھے۔ انتخابی عمل پر عدم اعتماد کا ماحول قائم کرنے کی اس مہم میں ایک بیان پی ٹی آئی رہ نما فیصل واڈوا سے بھی منسوب کیا جاتا ہے کہ ،’’دسمبر تک کراچی ہمارے حوالے کردیا جائے گا۔‘‘ حالاں کہ چند ہی دنوں بعد اِن بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کی روایتی کامیابی سے ثابت ہو گیاتھا کہ اس قسم کی ماحول سازی کا ووٹرز پر عموما ً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کسی سیاست دان کا ایک ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان اپنے طور پر ایک سوال ہے لیکن اِس قسم کے بیانا ت سے عوام میں بے دلی کے ساتھ ساتھ اداروں کی کارکردگی پرغیر ضروری طور پر عدم اعتماد کا بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے ۔لہذا اس سال آزاد اورشفاف انتخابات کا اجتماعی خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے سیاست دانوں کو غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کرناہوگا اور دوسری جانب نگراںحکومت اور متعلقہ اداروں کو خاص طور پر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں انتخابات پرعوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے فعال کردار ادا کرناہوگا: لیکن وقت پر اور غیرجانبداری کے ساتھ!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین