’مٹکا پیربریانی‘ کا نام سنتے ہی دہلی کی مشہور ’بابو شاہی باورچی‘ کی بریانی کی لذت اور خوشبو ذہن میں آجاتی ہے۔ بابو شاہی باورچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز مغل بادشاہوں کے دور میں کیا گیا تھا اور آج تک نہ صرف اس کا نام بلکہ یہاں کے کھانوں کی شہرت بھی باقی ہے۔
بابو شاہی باورچی کا نام سن کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ کوئی نہایت شاندار اور بڑے پیمانے پر تعمیر کیا گیا ہوٹل ہے جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے، بابو شاہی باورچی دہلی میں واقع ’مٹکا پیر‘ نامی درگاہ کےایک کونے میں بنا ڈھابہ (ریسٹورینٹ) ہےجس کے اندر صرف دو بڑی میزیں موجود ہیں لیکن وہاں رش اتنا ہوتا ہے کہ کوئی اندازہ بھی نہیں کرسکتا، خاص کر دوپہر میں کھانے کے وقت اور رات نو بجے کے بعد تو وہاں جانا جیسے ایک مشکل مرحلہ ہے۔
بابو شاہی باورچی کی خاصیت وہاں کی بریانی ہے جسے وہاں کے مشہور ’گلاوٹی کباب‘ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، بابو شاہی باورچی کے کھانوں کی مقبولیت ایک طرف لیکن وہاں موجود ’مٹکا پیر‘ نامی درگاہ اور اس درگاہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے کہانی بھی بہت دلچسپی اور اہمیت کی حامل ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بابو شاہی باورچی کی وجہ شہرت دراصل مٹکا پیر درگاہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔
مٹکا پیر درگاہ کی حیرت انگیز کہانی:
مٹکا پیر درگاہ کے وجود میں آنے کے پیچھے یہ کہانی ہے کہ بارہویں صدی میں ایک ایرانی صوفی بزرگ ’حضرت شیخ ابو بکر توسی حیدری قلندری‘ جو بعد میں ’مٹکا پیر‘ کے نام سے مشہور ہوئے، انہوں نے اسلام پھیلانے کی غرض سے بھارت کا رخ کیا، وہ یمنا ندی کے قریب جنگل میں مقیم تھے، ایک دن انہوں نے وہاں کے مقامی شخص کو خودکشی کرتے دیکھا تو وہ اس کے پاس خودکشی کی وجہ دریافت کرنے پہنچ گئے جس پر اس شخص نے بتایا کہ وہ شدید بیماری میں مبتلا ہے، جس سے تنگ آکر اس نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بزرگ نے اس شخص کی مایوسی دیکھنے کے بعد اسے اپنے مٹی سے بنے مٹکے سے پانی اس یقین کے ساتھ پلایا کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا اور واقعی کچھ دن گزرے وہ شخص مکمل صحت یاب ہوگیا۔
بزرگ کے اس کارنامے کی خبر کچھ ہی دنوں میں دور اور قریب کے تمام علاقوں میں پھیل گئی، لیکن جب یہ خبر وہاں کے سلطان غیاث الدین بلبن کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور بزرگ کو آزمانے کے لیے دو مٹی کے برتن ان کے پاس لے کر آیا جن میں سے ایک میں لوہے سے بنی چھوٹی چھوٹی گولیاں بھردیں اور کہا کہ یہ ’کالے چنے‘ ہیں اور دوسرے برتن میں مٹی بھر دی اور کہا کہ اس میں ’گُڑ ‘ ہے۔
سلطان نے ایسا صوفی بزرگ کو آزمانے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے کیا لیکن بزرگ نےسلطان کی چال کو ناکام بناتے ہوئے اپنی کرامات سے اُن برتن میں موجود اشیاء کو سلطان کی بتائی ہوئی چیزوں میں ہی تبدیل کردیا جو سلطان کہہ کر لایا تھا، یہ صورتحال دیکھ کر سلطان سمیت وہاں موجود تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اس واقعے کے بعد ان دونوں مٹی کے برتنوں کو وہاں کے مقامی لوگوں میں تقسیم کردیا گیا اور یہاں سے ’مٹکا صوفی‘ یا ’مٹکا پیر‘ کی کہانی کا آغاز ہوا۔
اس دن کی یادتازہ کرنے کے لیے ہر سال وہاں کے مقامی لوگ اپنے ساتھ مٹی کے مٹکے لے کر درگاہ جاتے ہیں اور ان مٹکوں کو درگاہ کے اندر موجود درخت کے تنوں سے باندھ دیتے ہیں۔
لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’مٹکا پیر بریانی‘ کا اس سے کیا تعلق ہے؟ بھارت کی ایک ’مریم ریشی‘ نامی فوڈ رائٹر کا کہنا ہے کہ درگاہ کے اندر ہمیشہ سے ایک بریانی کا ڈھابہ موجود ہوا کرتا تھا جو درگاہ پر آئے عقیدت مندوں کے لیے خاص لگایا جاتا تھا، وہاں آنے والے افراد اپنے مٹکوں کو ہاتھ میں تھام کر بریانی کھایا کرتے تھے اور تب ہی سے اس بریانی کا نام ’مٹکا پیر بریانی‘ جبکہ ڈھابے کا نام ’بابو شاہی باورچی‘ پڑ گیا۔
20 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی بابو شاہی باورچی کا نام باقی ہے وہاں بریانی کے علاوہ اور بھی ڈشز کا اضافہ کردیا گیا ہے لیکن وہاں کی خاصیت ’مٹکا پیر بریانی‘ ہی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے کے دوران میں بابو شاہی باورچی سے متعلق یہ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ مٹکا پیر درگاہ کے ایک کونے میں موجود ڈھابے کا اب بابو شاہی خاندان سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ یہ کسی اور کے سپرد کر دیا گیا ہے کیونکہ اب وہاں کی بریانی اور قورمے کا ذائقہ وہ نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔
ایک اور فوڈ رائٹر کا کہنا ہے کہ اب دہلی میں جگہ جگہ بریانی اور قورمے کے ڈھابے کھل گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بابو شاہی باورچی کی کھانوں کا ذائقہ کہیں نہیں ہے۔ بابو شاہی باورچی کے ’گلاوٹی کباب‘ کا نام سن کر پہلے منہ میں پانی آجایا کرتا تھا لیکن اب ان میں بھی نہ وہ بات رہی ہے نہ وہ ذائقہ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص دہلی جانے کا ادارہ رکھتا ہے تو وہ بابو شاہی باورچی کے کھانوں سے زیادہ امیدیں لگا کر نہ جائے کیونکہ ویسا کھانا اب وہاں میسر نہیں، بلکہ اُس جگہ کو ایک پرانی، قدیم اور تاریخی مقام سمجھ کرجائے اور ہاں۔۔۔ ’مٹکا پیر درگاہ‘ کی کہانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے درگاہ پر حاضری دینا مت بھولیے گا۔