ایک بار حضرت ابراہیم بن ادہم ؒحج کے لئے تشریف لے گئے، قربانی کے دن حجامت بنوانے کی ضرورت ہوئی، اور ایک حجام سے بات ہوئی، لیکن جس وقت اس نے بال کاٹنے شروع کئے، اسی وقت ایک مال دار آدمی جو اسے ایک دینار اجرت دینے پر تیار تھا ،آگیا اوراس نے اس سے کہا کہ میری حجامت بنادو، پیسے کی لالچ میں وہ ابراہیم بن ادہم ؒکو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوگیا اورجب اس سے فارغ ہوا تو پھر ان کی طرف آیا، ابھی تھوڑے ہی بال کاٹے تھے کہ ایک اور صاحب دینار آگیا اور وہ حجام انہیں چھوڑ کر پھر اس کے بال کاٹنے میں مشغول ہوگیا، غرض پانچ یاچھ مرتبہ یہ قصہ پیش آیا، آخر کسی نہ کسی طرح جب حضرت ابراہیم بن ادہم ؒکے بال کاٹ کرفارغ ہوا تو انہوں نے مزدوری دگنی دی، وہ یہ دیکھ کر بہت شرمندہ اور حیران ہوا کہ میں نے تو انہیں اتنا پریشان کیا اور یہ الٹی مجھے دگنی مزدوری دے رہے ہیں، اس نے پوچھا ،اے درویش !آپ مجھے دہری اجرت کیوں دے رہے ہیں؟ میں نے طمعِ دنیاوی اور اہل دنیا کے خوف سے آپ کی حق تلفی کی تھی، مجھے تو آپ سے کچھ بھی ملنے کی امید نہ تھی، اگر دینا ہی ہے تو جتنا سب دیتے ہیں، وہ آپ بھی دے دیں، دو چند دینے کی کیا وجہ ہے؟
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے جواب دیا، اجرت تو حقِ محنت ہے اور اضافی اس بات کی کہ جب تم مجھے چھوڑ کر کسی مال دار کی حجامت بنانے کے لئے جاتے تھے تو میرے نفس میں شدید غصہ اوراشتعال پیدا ہوتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ تمہیں کچھ کہہ دیں، لیکن میں نے اپنے نفس کو شکست دینے کے لئے صبر سے کام لیا اور صابرین کا درجہ بہت بڑا ہے اور یہ سب مجھے تمہاری بدولت حاصل ہوا، اس لئے درحقیقت تم میرے دوست ہو،اور اجرت میں اضافے کی یہی وجہ ہے۔