• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سے صرف دس یا پندرہ برس پہلے تک سردار جمال خان لغاری، سردار سلیم جان مزاری اور سکندر بوسن جیسے بااَثر سیاست دَان اپنے ساتھ پیش آنے والے تازہ ترین واقعات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اپنے آبائی علاقوں کے غریب اور نہتے باسیوں کی جانب سے جاگیر دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والی اِن تینوں شخصیات کی حال ہی میں جس طرح باز پرس کی گئی وہ گئے زمانوں میں اِن کے آباو اجداد کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہوسکتی تھی۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو کسی بھی سوئی ہوئی قوم کو بیدارکرنے میںفیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔
وڈیروں ، جاگیرداروں اور برادریوں کے اجا رہ داروں سے اِن کی کارکردگی پر عوام کی جانب سے براہ راست پوچھ گچھ کی یہ نئی ریت کوئی سات دہائیوں پہلے قائم ہوچکی ہوتی تو آج ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی خدوخال یقینا بہت بہترحالت میں ہوتے۔سوشل میڈیا پر تھوڑا بہت وقت گزارنے والے بیشتر پاکستانی اِن واقعات سے کسی نہ کسی حد تک واقف ہوں گے۔
معاملہ کچھ یہ ہے کہ انتخابات کے قریب آنے پر روایتی سیاست دانوں کے ضمیر ایک بار پھر چند دنوں کے لئے کچھ جاگ سے گئے ہیں۔اِنہیں فکر لاحق ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں تک اَپنے حلقوں سے غیر حاضری اور عوام کو درپیش مسائل کی جانب اِن کی بے نیازی اَب اِن کے سیاسی مستقبل کو غرق بھی کر سکتی ہے۔ سو حسب روایت اِنہی خدشات کے تحت اپنے غیر جمہوری اثر و رسوخ اور ذات برادری کی فرسودہ روایات کے سہارے منتخب ہونے والے سیاست دان اَب مختلف بہانوں سے عوام سے قریب تر ہونے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دکھ سکھ کے موقع اور تہوار اِن مفاد پرستوں کے لئے ووٹرزسے قریب ہونے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔
انتخابی مہمات اِن دنوں زور پکڑتی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں تعینات مختلف چینلز اور اخبارات کے رپورٹرز اور نامہ نگار اِن سرگرمیوں کے سب سے بڑے گواہ ہیںکیوں کہ اِن کے پاس مفاد پرست ، نااہل اور بد عنوان سیاست دانوں کی پچھلے پانچ برس کی ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ اِن کی انتخابات سے جڑی سر گرمیوں سے متعلق سنانے اور بتانے کے لئے ہمیشہ بہت کچھ ہوتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ نیوزمیڈیا کے پاس سیاسی وی آئی پیز کی بدکلامیوں اور متفرق سرگرمیوںکی رپورٹنگ کے علاوہ ٹاک شو ز اور بلیٹن میں پیش کرنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہوتا!
ایک اور المیہ ہے کہ سال دوہزار سے اَب تک ملک میں پرائیویٹ نیوز براڈکاسٹ انڈسٹری کے غیر معمولی بڑھاوے اور ابتدائی چند برسوں میں دستیاب صحافتی آزادی کے باجودمیڈیا نے مجموعی طور پر سیاست کے روایتی انداز اور اسٹیٹس کو (Status Quo) کے تناظر میں ، کبھی کوئی معمولی سی تبدیلی لانے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ معاملات کو جوں کا توں رکھنے میں سیاست دانوں اور ’’اشرافیہ‘‘ کا لمحہ بہ لمحہ بھر پور ساتھ دیا۔اِن اٹھارہ برسوں میں میڈیا کی توجہ خواص پر ہی مرکوز رہی ۔ تلخ ہونے کے باجود یہ بات درست ہے کہ نیوز میڈیا نے عوام کو کسی مفاد پرست حکمران کی طرح اِن کے بنیادی مسائل اور حقوق سے متعلق آگہی سے دانستہ وغیر دانستہ طور پر دور رکھا؛ اور جن میڈیا ہاوزز نے روایت شکنی کی کوشش کی اُنہیں خاص دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ! لہذاایک عام پاکستانی کبھی اِس قابل ہی نہ ہوسکا کہ وہ منتخب نمائندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرسوال کرسکے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کیوں ناکام رہا!
ترقی یافتہ جمہوریتیوں کے بر عکس پاکستان میں کبھی وزرا اور اسمبلی ممبران کی کارکردگی پرکھنے کاکوئی مربوط نظام متعارف کرایاگیا نہ ہی میڈیا کو اپنے طور ایسا کچھ کرنے کی توفیق ہوسکی ! سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کی تجویز تھی کہ اسمبلی ممبران اور وزرا کی کارکردگی کاسالانہ جائزہ لینے کے لئے باقاعدہ کے پی آئی (Key Performance Indicators)وضع کئے جائیں۔ اگر کسی وجہ سے اس تجویز پر عمل در آمد نہیںہوسکا تو کیا اَب قیامت تک اِس حوالے سے کچھ سوچا نہیں جاسکتا؟ شاید اِسی صورتحال سے مایوس ہوکر عوام نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب اپنے نمائندوں کی خود خبر لے لیا کریں گے۔
انتخابی سرگرمیوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں سیاست دانوں کی باز پرس کی چند خبریں عوام تک پہنچانے میں سوشل میڈیا کا کردار انتہائی نمایاںہے ۔ خاص طور پر موبائل فون کے ذریعے عام لوگوں کی بنائی ہوئی ویڈیوز پہلے سوشل میڈیا پر ہی دستیاب ہوتی ہیں ۔ مقبول ہوجانے والی ویڈیوز بعد ازاں نیوز ٹی وی چینلز پر بھی دکھادی جاتی ہیں ۔شہر کراچی میں اِن ویڈیوزکی مقبولیت کی سطح یہ ہے کہ اب یہاں بھی چند حلقوں میں ووٹ مانگنے آنے والوں کے ’’ استقبال‘‘ کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ گارڈن ، لیاری، کھارادراور ملحقہ علاقوں کے چند رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اِن ویڈیوز سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب وہ ووٹ مانگنے والے امیدواروں کے استقبال کی’’ بھرپور‘‘ تیاری کررہے ہیں۔
اِس سے قبل لاہور اور اسلام آباد کے دوستوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں ووٹرزکی ایک بڑی تعداد منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے انتہائی نالاں ہے اور قوی امکان ہے کہ چند حلقوں میں انتخابی مہمات کے دوران عوام امیدواروں کو ناکوں چنے چبوادیں۔ اپنے امیدواروں کے خلاف عوام کی جانب سے ایسا سخت روّیہ اب چند حلقوں تک محدود نہیںرہا بلکہ کم و بیش ملک بھر میں معاملات کچھ ملتے جلتے سے ہیں۔ البتہ سردار جمال خان لغاری، سردار سلیم جان مزاری اور سکندر بوسن کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی کہ ملک کے لاکھوں شہریوں نے اِن کے اپنے علاقوں میں اِن کا صدیوں سے قائم رعب اور دبدبہ ، انتہائی بے بس، نہتے اور پریشان حال لوگوں کے ہاتھوں چند لمحوں میں ملیا میٹ ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔اب کوئی کچھ بھی کرلے، مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ یہاں آسانی سے ختم ہونے والا نہیں !
مذکورہ واقعات کے تناظر میں عوام کا اپنے نمائندوں سے مطمئن نہ ہونا اب کسی بھی غیر معمولی صورتحال کا سبب بن سکتا ہے۔ مان لیں کہ اگر اِس سال انتخابی مہمات کے دوران چندیا بہت سے امیدوار عوام کو ایک بار پھر بیوقو ف بنانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو بھی یہ سلسلہ اب بہت دیر تک چلنے والا نہیں۔ یہ طے ہے کہ بدعنوان اور نا اہل سیاست دانوں کا جھوٹا وقار اوران کی نام نہاد عزت اب یقینی طور پر انتہائی خطرے میں ہے ۔کیوں کہ اب اِن مفاد پرست عناصر اور غریب عوام کے ہاتھوں میں موجود سستے سیل فونز میں نصب کار آمد کیمروں کے درمیان اب کوئی دیوار حائل نہیں اور نہ ہی اب ہوسکتی ہے۔
عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے نمائندو ں سے اِن کی کارکردگی پر ہر سوال کریں اور تسلی بخش جواب نہ ملنے تک اپنے سیل فون میں نصب کیمروں کو مستقل آن رکھے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین