• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نماز کے لئے صفیں باندھی جاچکی تھیں۔ قافلے والوں کو دور سے سرپٹ دوڑتا ہوا گھوڑا نظر آیا۔ کوئی شہسوار اسے تیزی سے دوڑاتے ہوئے آرہا تھا۔ پتھریلی سرزمین اس شہسوار کے گھوڑے کی چاپوں سے گونج رہی تھی اگرچہ نماز کے لئے صفیں باندھی جاچکی تھیں اچانک آنے والے مسافر کی آمد کی وجہ معلوم کرنے کے لئے سب رک گئے۔ سب کی نظریں اس طرف اٹھ گئیں جس طرف سے شہسوار آرہا تھا۔ گھوڑا قریب پہنچا تو سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ سیدنا علی ابن ابی طالب تھے۔شیر خدا ۔ اسد اللہ الغالب ، فاتح خیبر ، برادر پیغمبر ، باب مدینة العلم ، ایسی خوبیوں سے متصف شخصیت کو دیکھا تو مصلائے امامت پر کھڑے ہوئے سیدنا ابوبکر صدیق نے آگے بڑھ کر سیدنا علی ابن ابی طالب کا استقبال کیا اور پہلا سوال یہ کیا۔ ”امیر او مأمور؟“ آپ امیر بناکر بھیجے گئے ہیں یا میری امارت کے تحت ہی رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں ”امیر“ کی اہمیت کیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق فتح مکہ کے بعد ہونے والے اس پہلے حج کے ”امیر حج“ بناکر بھیجے گئے تھے۔ وہ شخصیت جنہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلائے امامت اور مومنین کی امارت کی ذمہ داری سونپی جانی تھی انہیں فتح مکہ کے بعد پہلے حج کا امیر بناکر بھیجا گیا تھا۔ اب انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ کو دیکھا تو سب سے پہلا سوال یہی کیا کہ کیا آپ امیر بناکر بھیجے گئے ہیں۔ یعنی اگر ایسا ہے تو میں پیچھے ہٹ جاتا ہوں اور آپ امامت فرمائیں۔ سیدنا علی المرتضیٰ نے ارشاد فرمایا۔ نہیں امیر آپ ہی ہیں۔ میں تو قرآن پاک کی آیات لیکر آیا ہوں۔ یہ آیات رسول اللہ پر آپ کے قافلے کے مکہ مکرمہ روانہ ہونے کے بعد نازل ہوئی ہیں۔ اس لئے آپ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان آیات میں بھیجے گئے حکم کو حج کے اجتماع میں سناؤں اور لوگوں کو قوانین میں ہونے والی تبدیلی سے آگاہ کروں۔ لیکن میں آپ کی امارت کے تحت ہی کام کروں گا۔ سورة ”التوبہ“ کی آیات کا مضمون بڑا واضح اور رب تعالیٰ کی شان قہاری کا مظہر ہے اس لئے اس کے شروع میں تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ اس سورة مبارکہ میں واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اب مشرکین کی حفاظت سے بری الذمہ ہیں۔ اب انہیں یا تو اسلام قبول کرنا ہوگا یا پھر حدود حرم سے نکل جانا ہوگا۔ (انما المشرکون نجس فلایقرب المسجد الحرام بعد عامھم ہذا) مشرکین نجس یعنی ، ناپاک ہیں اس لئے اس سال کے بعد حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ان آیات کو حضرت علی المرتضیٰ کے حوالے کرتے ہوئے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو روانہ کیا تو مولائے کائنات علی المرتضیٰ نے پوچھا۔ ”یا رسول اللہ میرے لئے کوئی خاص حکم ؟ کوئی خاص ہدایت ؟ میرے آقا نے پیار بھری نظروں سے اپنی لخت جگر کے شوہر اور اپنے پیارے چچازاد بھائی سے فرمایا۔ (یا اخی لاتنسانی فی دعائکم) اے چھوٹے بھائی اپنی دعاؤں میں مجھے بھول نہ جانا۔ کیا پیار بھرا انداز ہے۔ عربی زبان میں بھائی کو ”اُخی“ کہتے ہیں لیکن جب ”اُخی“ کہا جائے تو اس کا مطلب چھوٹا بھائی ہوتا ہے جس طرح بیٹے کو ”بَنی“ کہتے ہیں لیکن چھوٹے بیٹے کو ”بُنَییّ“ کہتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ باعث تخلیق کون و مکاں ارشاد فرمارہے ہیں کہ اے علی ، میرے پیارے بھائی مکہ المکرمہ جاکر مجھے یعنی آقائے دو جہاں سید الانبیاء محمد رسول اللہ کو دعاؤں میں بھول نہیں جانا۔ سبحان اللہ ! کیا شان عجزوانکساری ہے۔ ایک ہم جیسے بے عمل اور غفلت میں پڑے ہوئے لوگ ہیں کہ کسی کو دعا کے لئے کہتے ہوئے ہمارا ”نفس“ اور ہماری ”انا“ آڑے آجاتی ہے اور ہماری گردن میں سریا سما جاتا ہے۔ ہم کسی کو دعا کے لئے کیوں کہیں ؟ کیا وہ مجھ سے بہتر ہے ؟ کیا ہم نے دعاؤں میں کوئی کمی چھوڑی ہوئی ہے ؟؟ کیا میری دعائیں مقبول نہیں ہوتیں کہ میں کسی اور کو دعاؤں کے لئے درخواست کرتا رہوں۔ یہ سوچ تکبر ہے ، یہ سراسر تکبر ہے اور تکبر میرے رب کی چادر اس کی ”ردا“ ہے جو اس کو اوڑھنے کی کوشش کرتا ہے ، میرا رب اسے ذلیل و رسوا کردیتا ہے کیونکہ کبریائی صرف اللہ کی شان ہے اور اسی کو زیبا ہے۔
اس سال حج میں سیدنا ابوبکر صدیق جہاں جہاں خطبہ ارشاد فرماتے سیدنا علی المرتضیٰ کھڑے ہوکر سورة التوبہ کی آیات تلاوت فرماتے اور مشرکوں کو واضح پیغام دیتے کہ تم نجس ہو اور اب حکم آگیا ہے کہ تم لوگ اگلے سال سے حج پر نہیں آسکوگے۔ اس سے پہلے مشرکین بھی اپنے اپنے مشرکانہ رسوم و عقائد کے مطابق ان دنوں میں غیر اسلامی افعال اور مذموم حرکات حج کے نام پر کرتے تھے۔ اب ان پر پابندی لگادی گئی تھی۔ سیدنا علی المرتضیٰ کے اعلان کے بعد اب مشرکین کو اندازہ ہوگیا کہ انہیں یا تو دین اسلام کو قبول کرنا ہوگا یا پھر یہ علاقہ چھوڑ کر جانا ہوگا ورنہ ذوالفقار حیدری ان کے سروں کی فصل کو کاٹتی ہوئی چلی جائے گی۔ وہ دن اور آج کا دن مشرکوں سے وہ دھرتی پاک ہوگئی ہے۔ جیسے ہی آپ حدود حرم میں داخل ہوتے ہیں موٹروے پر مکہ مکرمہ کی طرف جانے والی شاہراہ پر ایک بہت بڑا بورڈ نظر آتا ہے۔ ”المسلمین فقط“ یعنی صرف مسلمان ہی اس راستے سے آسکتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک راستہ مڑتا ہے جس پر لکھا ہے ”الطریق لغیر المسلمین“ غیر مسلموں کا راستہ ، الحمد اللہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اب صرف مسلمانوں کے جانے کا راستہ ہے صرف آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہی جاسکتے ہیں۔ آپ کا حکم پڑھنے والے اور آپ کی ختم نبوت پر یقین و ایمان رکھنے والوں کا داخلہ ہی ممکن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نجس، شرک سے تو پاک ہوگئے ہیں لیکن کیا ہم، کیا ہر نجس ہر غلاظت نفس سے بھی پاک ہیں ؟ اقبال نے کہا تھا۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
تازہ ترین