• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کی آکسفورڈ اورکیمبرج یونیورسٹیاں صرف یورپ نہیں پوری دنیا کی عظیم ترین درسگاہیں سمجھی جاتی ہیں آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی کی طرف سے پاکستانی طلباء وطالبات کو خطاب کرنے کی دعوت ملی تو میں نے اسے ایک اعزازسمجھ کرفوراًجانے کی حامی بھرلی ۔ویزہ ،چُھٹی اورسفری تیاریوں کے مراحل طے ہورہے تھے کہ کیمرج اورلنڈن سکول آف اکنامکس کی جانب سے بھی دعوت مل گئی ،18اکتوبرکی شام کوLSEمیں تقریب تھی اورسترہ کی صبح کو میں انگلستان جانے کے لیے پی آئی اے کے طیارے میں بیٹھ چکا تھا ۔
میرے برابرکی سیٹ پرایک خوش لبا س پیرصاحب براجمان ہوئے چندجملوں میں ہی اندازہ ہوگیا کہ خوش لباس ہی نہیں خوش گفتاراورزندہ دل بھی ہیں ۔جہاز کی کھڑکھڑاہٹ اورنشستوں کی خستگی کا مشاہد ہ کرنے کے بعد حضرت کی نظر ائیرہوسٹس پرپڑی تو مایوس سے ہوئے اورکہنے لگے کہ" یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جہاز کی عمرزیادہ ہے یا ائیرہوسٹس کی" پھرفرمایا"لگتا ہے جے یو آئی نے حفظِ ایمان کی خاطر کسی آئینی ترمیم کے ذریعے ائیرہوسٹسوں کی کم ازکم عمرچالیس سال مقررکرادی ہے" پیرصاحب پورے زورشورسے ائیرلائینزکے زوال اورفضائی میزبانوں کے معیار میں کمی پرخفگی کا اظہارکررہے تھے کہ ٹائیٹ جینزپہنے ایک غیرملکی خاتون واش روم سے نکل کرانکے پاس سے گذری حضرت نے اس کا بھرپورجائزہ لینے کے بعد فرمایا" وسائل کے ساتھ حُسن کا زیادہ حصہ بھی مغرب والوں کے حصے میں ہی آ یا ہے ویسے پردے کاحکم باری تعالیٰ نے صحیح دیا ہے عورتیں اپنے آپ کو پوری طرح نہ ڈھانپیں تو معاشرے میں بڑی قباحتیں پیدا ہو جاتی ہیں " میں نے پیرصاحب سے برطانیہ کے دورے کا سبب پوچھاتومسکراکوبولے اپنے ملک میں کچھ مندا ہے مگر یورپ میں کام بہت اچھا ہے اللہ کا بڑافضل ہے کچھ خاص مریدوں کے گھرانوں میں چند شادیاں ہیں اوران کی بڑی خواہش تھی کہ پیرصاحب خودآئیں۔ بے تکلفی بڑھی تومیں نے کہا" پیرصاحب کوئی ڈپٹی یا اسسٹنٹ پیر کی آسامی نکلے تو ہمیں ضروریادرکھیے ۔و ہ ہنس پڑے پیر صاحب کی خوش کلامی سے زیادہ دیراس لیے محظوظ نہ ہوسکا کہ آنکھیں نیندسے بوجھل تھیں لہذا میں نے کمبل منگوایا اورجلد ہی نیند کی وادیوں میں پہنچ گیا۔
ہیتھرو ایئرپورٹ پرہمارے دیرینہ فیملی فرینڈمنیرلون صاحب آئے ہوئے تھے جن کی آرام دہ موٹر میں بیٹھتے ہی تھکاوٹ دورہوگئی اورہم چندمنٹوں میں ائیرپورٹ کی حدودسے نکل کرلند ن شہرمیں داخل ہوگئے۔لند ن مجھے ملک سے باہر(عقیدتوں کے مرکزچھوڑکر)دنیا بھرکے تمام شہروں سے زیادہ پسند ہے اس کی سڑکوں ،عمارتوں ،پارکوں ،عجائب گھروں بازاروں،سٹوروں ،ٹیوب سٹیشنوں ،ٹرینوں ،بسوں کے ساتھ فوراًاپنائیت کا رشتہ استوارہوجاتا ہے ۔
نہ جانے کیوں یہاں غیر ہونے کا احساس نہیں ہوتا اس کی وجہ بہت سوں کے نزدیک یہ ہے کہ آقا اورغلام کا رشتہ کئی نسلوں تک چلتا ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ دنیا کے کسی اورملک میں مقامی باشندوں کے ساتھ اِس قدرآسانی سے Communicateنہیں کیا جاسکتا ۔پھر یہ کہ لندن سمیت بہت سے شہروں میں پاکستانی بڑی تعدادمیں موجودہیں (جن میں بہت سے اب مالی طورپرمستحکم اورسماجی طورپرمضبوط ہیں ان میں سے کئی ایک لوکل کونسلر،مئیراورپارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہوچکے ہیں) کئی علاقے اورمحلے تو لگتے ہی پاکستانی ہیں اوروہاں کوئی گوراخال خال ہی نظر آتا ہے ۔لون صاحب نے جوپروگرام ترتیب دے رکھا تھا اس کے مطابق ہماری سرگرمیوں کا آغاز پارلیمنٹ کے دورے سے ہوا برطانیہ کی پارلیمنٹ کو Mother Parlianment یعنیدنیا بھر کی پارلیمنٹوں کی ماں کہا جاتا ہے اسکے دونوں ایوان دریائے ٹیمزپرواقع ویسٹ منسٹرپیلس کی پرشکوہ عمارت میں ہیں ۔ہم پہلے ایوانِ بالا (House of Lords) میں داخل ہوئے جہاں لارڈنذیراحمدہمارے منتظرتھے لارڈ نذیراحمدایک دیانتدارلیڈر ہیں اورکشمیراورپاکستان پر موثراورجاندارموقف پیش کرنے پرپاکستانی اورمسلم کمیونٹی میں عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لارڈ صاحب ہمیں ہاؤس آف لارڈزکی عمارت کے مختلف کمرے ،ہال ،کاریڈور،گیلریاں ،رہنماؤں کے بت اوردیواروں پربنی ہوئی پینٹگزدکھاتے رہے اور اِسکے تاریخی پسِ منظر سے آگاہ کرتے رہے ویسٹ منسٹر پیلس کی ہر اینٹ جمہوریت کیلئے کی جانے والی جدّوجہد کی گواہ ہے اور اسکا ہر پتھر بادشاہت سے عوامی حکومت تک کے سفر میں سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
انگلینڈ کی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس 1295ءءء میں ہوا اُس وقت یہ صرف بڑے بڑاے پادریوں اور جاگیر داروں پر مشتمل ہوتی تھی پارلیمنٹ آہستہ آہستہ طاقت حاصل کرتی رہی ۔ایڈورڈسوم کے زمانے میں باقاعدہ دوایوان قائم ہوگئے ایوانِ بالا(ہاؤس آف لارڈز) پادریوں اور اشرافیہ (Clergy and Nobility) پرمشتمل تھا پندرہویں صدی میں پارلیمنٹ خاصی بااختیارہوچکی تھی ارسٹو کریسی کے اثرورسوخ کے باعث ایوانِ بالا،ایوان زیریں سے کہیں زیادہ بااختیارتھا لیکن سترھویں صدی کے وسط تک ہاؤس آف کامنزایوانِ بالا سے زیادہ طاقتورہوگیا پارلیمنٹ اوربادشاہت کے درمیان اختیارات کی جنگ کئی صدیوں تک جاری رہی جو بالاآخر 1640میں سول وار میں تبدیل ہوئی اس کے نتیجے میں وقت کے بادشاہ چارلس اوّل کو1649میں شکست ہوئی۔ بادشاہ کو پھانسی دے دی گئی اور اولیور کرو مویل لارڈ پروٹیکٹرآف انگلینڈقرارپایا ۔اِسطرح عوامی راج کی بنیاد رکھ دی گئی۔
جوں جوں جمہوریت کا پودا پھلتا پھولتا گیا،لارڈز کی طاقت کم ہوتی گئی ۔سترھویں صدی میں ایک بار ایوانِ بالا کو ختم کردیا گیا مگر 1832کی اصلاحات کے نتیجے میں اسے محدوداختیارات دئیے گئے آج کل ایوان ِ بالا میں حکومت کی پالیسیوں اورقانون سازی پربحث مباحثہ اورتنقیدہوتی ہے کافی عرصہ تک HOLکی حیثیت ہائیکورٹس کے فیصلوں کے خلاف ایپلٹ اتھارٹی کی رہی مگر اب باقاعدہ سپریم کورٹ بننے کے بعدیہ حیثیت ختم ہو گئی ہے اس وقت ایوانِ بالاکے775ممبرہیں ،ہال میں نشستیں ساڑے چارسوہیں پہلے پہنچنے والے ممبران سیٹوں پر بیٹھتے ہیں اورلیٹ آنے والے کھڑے رہتے ہیں (یہی حال ایوانِ زیریں یعنی ہاؤس آف کامنزکا ہے کل ممبران ساڑھے چھ سوہیں مگر صرف چارسوستائیس بیٹھ سکتے ہیں باقی کھڑے رہتے ہیں) نہ کبھی کسی نے نشست نہ ملنے پراحتجاج کیا ہے اورنہ کبھی بڑاہال تعمیرکرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے انگریز اپنی پرانی اقدار اورروایات سے ہی نہیں پرانی عمارتوں سے بھی محبت کرتے ہیں چھوڑنے یابدلنے پرآسانی سے تیارنہیں ہوتے ۔ہاؤس آف لارڈ ز کے ارکان ہماری طرح منتخب نہیں ہوتے بلکہ تقرری کمیشن کی سفارشات پرمقررکیے جاتے ہیں کچھ ممبران تاحیات مقررکیے جاتے ہیں اورکچھ کو رکنیت وراثت میں ملتی ہے یورپ میں عیسائیت اورچرچ کی اہمیت کم ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی آج بھی ہاؤس آف لارڈز میں چھبیس نشستیں پادریوں کے لیے مخصوص ہیں جو Lords Spiritual کہلاتے ہیں اورچرچ کی نمائین دگی کرتے ہیں ۔کیفے ٹیریا میں لارڈ ز نذیر احمد بتا رہے تھے کہ یہ بحث ابھی جاری ہے کہ ایوان ِ بالاکے ممبران مقررکیے جائیں یا انکا انتخاب ہو ۔ لون صاحب کی اِس بات سے سب نے اتفاق کیا کہ ہم پاکستان میں ذرا بے صبرے ہوجاتے ہیں ورنہ یہاں بھی جمہوریت اور اداروں کو مستحکم ہونے میں صدیاں لگی ہیں۔ لارڈصاحب ہمیں رخصت کرنے کے لیے سڑک پرآئے توبرطانیہ کے کئی معروف اورممتاز لیڈرپاس سے گذرتے ہوئے ہیلو ہائے کرتے رہے لارڈصاحب بتاتے رہے کہ یہ وزیرخارجہ ہے وہ ٹرین کی جانب جانے والا وزیرداخلہ ہے ،یہ پیدل جانے والا وزیراعظم تھا وہ سائیکل پرآنے والاوزیرِصحت ہے مجھ سے نہ رہا گیا اورمیں پوچھ بیٹھا کہ" پراڈوکہاں ہے جس پریہ آتے جاتے ہیں ؟"لارڈ صاحب قہقہ لگاکر کہنے لگے اِن کے ہاں عزّت کاسمبل بڑی گاڑی نہیں ہے ۔ان میں سے زیادہ تر انڈرگراؤنڈ ٹرین پریا بائسیکل پرسوارہوکرآتے ہیں اِس پر ہمارے دوست شاہ جی نے کہا یہ ایم پی پراڈوکے بغیر رہ سکتے ہیں ہمارا ایم پی اے پراڈو کے بغیر نہیں رہ سکتا۔برمنگھم سے منتخب ہونے والے پارلیمنٹ کے رکن خالدمحمود ہمیں ہاؤس آف کامنزکا اجلاس دکھانے لے گئے پولیس کو ہڑتال کا حق دینے پر بحث ہورہی تھی ،لگتا تھا ہرممبرپوری تیاری کرکے آیا ہے ،اپوزیشن کے ارکان بھی مدلل اورنپی تلی بات کررہے تھے ہال سے نکلے تو شاہ جی نے کہا ،"خالدصاحب سوادنہیں آیا" (لطف نہیں آیا)وہ کیوں؟انہوں نے پوچھا" نہ جوتے چلے نہ دوپٹے پھینکے گئے نہ دست اندازی نہ زبان درازی۔اسمبلی نہ ہوئی پرفیسروں کا سیمنارہوگیا ۔ کبھی اُدھر آئیں آپ کودکھائیں اجلاس کیسے ہوتا ہے" خالد محمود صاحب نے ہنستے ہوئے کہا " Yes your sessions are very lively "ہالوں ،کاریڈورز اورلابیوں سے گزرتے ہوئے رکنِ پارلیمنٹ بتا رہے تھے کہ 1642میں بادشاہ (چارلس اوّل) ہاؤس آف کامنز کے پانچ ارکان کو گرفتارکرنے کے لیے مسلح فوج لے کراسمبلی ہال میں داخل ہوگیا تھا لہذا اس کے بعد سے بادشاہ یاملکہ کا ہاؤس آف کامنزمیں داخلہ بند ہے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے ملکہ کا خطاب بھی لاؤنج میں ہوتا ہے۔ لون صاحب نے پوچھا کہ پارلیمنٹ سے باہر تعینات پولیس کانسٹیبل اوروزیرصاحب کے جھگڑے کا کیا ہوا ؟بتایا گیا کہ چند روز قبل حکمران پارٹی کے چیف وہپ(کابینہ کے وزیر) مسٹراینڈریومائیکل بائیسکل پرآرہے تھے کہ پولیس کانسٹیبل نے روکا کہ آپ یہاں سے آگے سائیکل نہیں لے جاسکتے وزیر صاحب پرانے لارڈ تھے لہذا اُنہوں نے حقارت سے پولیس آفیسرکو Plebکہہ دیا کہ معمولی کانسٹیبل ہوکر وزیر کو روکنے والے تم کون ہوتے ہو؟پولیس کی یونین نے احتجاج کیا ۔ میڈیا نے سخت تنقید کی ،وزیرصاحب نے معافی مانگ لی ،مگر اپوزیشن اورسول سوسائٹی کادباوٴاس قدربڑھا کہ وزیر صاحب کو مستعفی ہونا پڑا ۔بلاشبہ زندہ قومیں اعلی ٰ روایات قائم رکھنے اوراپنی عظمتوں کاپرچم سر بلندرکھنے کے لیے افراداورعہدوں کی قربانی دینے میں کبھی عارمحسوس نہیں کرتیں ۔(جاری ہے)
تازہ ترین