• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ووٹر ہوں ، مجھے معلوم ہے کہ الیکشن 2018ء کیلئے 25 جولائی کو ووٹ ڈالے جائیں گے لیکن ابھی تک کنفیوژڈ ہوں کہ ووٹ کس کو دوں کیونکہ میں ووٹ کی عزت پامال نہیں کرنا چاہتا۔ میرا ووٹ فیصلہ کن ہے لیکن کیا کروں کہ انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار ہونے کے خدشات اپنی جگہ، نظریہ اقتدار رکھنے والی تمام جماعتوں کے لیڈرز کے اثاثے میرا مذاق اڑا رہے ہیں کیا یہ لیڈرملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں جنہوں نے آج تک سوائے اثاثے بنانے کے کچھ نہیں کیا ۔ مجھے یاد آرہاہے کہ الیکشن 2013کے بعد الیکشن کمیشن نے الیکشن میں حصہ لینے والے پندرہ ہزار سے زائد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی تفصیلات جاری کیں تو ’’ محب وطن‘‘ سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ الیکشن کمیشن پر اتنا دبائو ڈالا کہ پاناما اسکینڈل کے بعد الیکشن کمیشن کو یہ کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے پڑے،تا کہ ووٹرزاپنے امیدواروں سے متعلق معلومات حاصل کر کے ووٹ دینے کا فیصلہ کرسکیں ۔ گزشتہ پارلیمنٹ جس میں پی پی، ن لیگ اور تحریک انصاف شامل تھیں الیکشن ریفارمز کے حوالے سے مشاورت کرتے رہیں، ان سب نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اس پالیسی کی سخت مخالفت کی اور یہ کوشش بھی کی کہ الیکشن کمیشن ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات سرکاری ویب سائٹ پر نہ ڈالے کیونکہ یہ نہ صرف نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے بلکہ اس سے جرائم پیشہ افراد کو اغوا اور دیگر غیر قانونی ذرائع اختیار کرتے ہوئے انہیں لوٹنے کا حوصلہ ملے گا۔ پھر کیا تھا کہ ان سب جماعتوں نے نامزدگی فارم ہی تبدیل کر دیئے، مگر سپریم کورٹ کی مداخلت اور فیصلے سے نامزدگی فارم کیساتھ بیان حلفی دینا لازمی قرار دیا گیا اور سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یہ فارم سپریم کورٹ میں بھی جمع ہوگا۔اسکے بعد یہ معلومات دینے میں الیکشن کمیشن نے آغاز میں تو ہچکچاہٹ دکھائی لیکن اب یہ اثاثے ویب سائٹ پر ڈالنے کا اعلان کیا ہے۔ ووٹر کے سامنے یہ اثاثے ہیں ، جن میںبعض ایسی معلومات ہیں کہ جن سے نہ صرف ہنسی نکل آتی ہے بلکہ رونے کودل کرتا ہے ۔ ووٹریہ سوچ رہا ہے کہ کیا اثاثے ظاہر کرنے سے کرپشن ختم ہو جائیگی اور کیا اثاثے ویب سائٹ پر آنے کے بعدالیکشن شفاف ہونگے ، کیونکہ الیکشن کے انعقاد میں بہت کم وقت ہونیکی وجہ سے نہ تو ریٹرننگ آفیسرز نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ اثاثے کیسے بنائے گئے ،ذرائع آمدن کیا تھے،آیئے پہلے سیاسی جماعتوں کے چند بڑے رہنمائوں کے اثاثوں کے چیدہ چیدہ نکات پر نظر ڈالیں کہ ان کو ملک کی خوشحالی کیلئے کیسے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔
بلاول زرداری جو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پارلیمانی سیاست میں پہلی بار قدم رکھ رہے ہیں ، انہوں نے الیکشن کمیشن میں جو دستاویزات جمع کرائی ہیں انکے مطابق یہ ڈیڑھ ارب روپے کے مالک ہیں ، گو ان اثاثوں کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ موجود ہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق انکی اصل مالیت ڈیڑھ کھرب روپے سے بھی زائد بنتی ہے ۔بلاول زرداری کے اثاثوں کے چند نکات ایسے ہیں جنکا اندازہ ایک جاہل انسان بھی لگا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کلفٹن کے بلاول ہائوس کی مالیت صرف 30لاکھ روپے درج کی گئی ہے ،33ایکڑ زمین کی قیمت صرف گیارہ لاکھ روپے ہے، نوڈیرو میں 3.1ایکڑ زمین کی قیمت صرف 20ہزار لکھی گئی ہے جبکہ اسلام آباد جی7-میں ایک گھر کی قیمت 14لاکھ روپے درج ہے۔ پاک لین اسلام آباد سنجیانی میں2460کنال زمین کی مالیت صرف 9لاکھ روپے ہے۔ سوئس بنک دبئی برانچ کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے نیٹ کیش ظاہر کئے گئے ہیں۔ بلاول زرداری نے اپنی یہ ساری جائیداد وارثتی ظاہر کی ہے جبکہ 30لاکھ روپے کا اسلحہ بھی بتایا گیا ہے۔ ووٹر تو یہ سوال ضرور کریگا کہ کھربوں روپے کی جائیداد جو اربوں میں ظاہر کی گئی ہے وہ ماں باپ نے کیسے بنائی ۔ آج جب عدالت میں نواز شریف سے فلیٹس کی منی ٹریل کے حوالے سے پوچھا جا رہا ہے، کیا بلاول کے پاس اسکی کوئی منی ٹریل ہے؟ انکے والد آصف علی زرداری مجموعی طور پر 75کروڑ 46لاکھ کے مالک ہیں ۔
نوازشریف کی بیٹی مریم نواز جو پاناماکیس آنے کے بعد ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویومیں کہہ چکی ہیں کہ اُنکی بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ لیکن الیکشن کیلئے جو کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں ۔ انکے مطابق یہ 1506کنال ایک مرلہ کی مالک ہیں جبکہ مختلف ملوں میں شیئر ہولڈر بھی ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں زمین 548کنال اضافہ ہوا ہے جبکہ 17لاکھ روپے کے زیورات بھی انکی ملکیت ہیں ،ووٹرز کا صرف اتنا سوال ہے کہ کیا یہ صادق اور امین ہیں؟—شہباز شریف نے اپنے اثاثوں کی مالیت15کروڑ روپے بتائی ہے۔ جبکہ انکی پہلی بیوی ان سے کئی گنا امیر ہے کیونکہ ماڈل ٹائون کا 10 کنال کا گھر جسکی مالیت 12کروڑ 87 لاکھ بتائی گئی ہے اور ڈونگا گلی کے 9کنال سوا مرلے کا گھر جسکی مالیت 5کروڑ 78لاکھ بتائی گئی ہے یہ دونوں انکے نام ہیں۔ شہبازشریف نے اپنے ایک بنک اکائونٹ میں ایک کروڑ 41لاکھ ظاہر کئے ہیں۔ انکے بیٹے حمزہ شہباز اپنے باپ سے بھی زیادہ امیر نکلے ، انہوں نے کاغذات نامزدگی میں جو معلومات درج کی ہیں انکے مطابق وہ 41 کروڑ 15لاکھ کے مالک ہیں ۔ مختلف کمپنیوں میں انکے شیئرز کی مالیت 13کروڑ 29لاکھ بتائی گئی ہے ۔ انکے پاس 25لاکھ روپے کا فرنیچر ہے جبکہ انکے پاس کوئی گاڑی نہیں ووٹرز پوچھ رہے ہیں کہ انکے اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق مالیت کے تعین کی ذمہ داری کس کی ہے؟
عمران خان نے اپنی 14جائیدادیں ظاہر کی ہیں۔ وہ 168ایکڑ زرعی اراضی اور بنی گالہ میں 300کنال کے مالک ہیں جسکی مالیت 75 کروڑ روپے بتائی گئی ہے۔ انکے اسلام آباد میں د وفارن کرنسی اکائونٹس ہیں، ایک اکائونٹ میں 3لاکھ 78ہزار ڈالر جبکہ دوسرے میں 1470ڈالرہیں۔ کیا بنی گالہ کی 300 کنال اراضی کی موجود مالیت 75کروڑ ہوسکتی ہے؟ موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس کی قیمت کم ازکم 3ارب روپے ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی 28کروڑ 36لاکھ کے مالک ہیں ۔ انکے لندن کے بنک اکائونٹ میں 80ہزار پائونڈ اور اہلیہ کے فارن اکائونٹ میں 26ہزار 512پائونڈ ہیں۔شاہ محمود قریشی پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ، پھر کسی پاکستانی بنک پر اعتماد کیوں نہیں ؟ پی ٹی آئی کے تیسرے لیڈر علیم خان 91کروڑ 82 لاکھ روپے کے مالک ہیں جبکہ اسد عمر 62کروڑ 93لاکھ کے ، انکے پاس 32 لاکھ کے زیورات اور 13کروڑ 27لاکھ کیش ہیں ؟ کیا اتنے پیسے والے غریب عوام کے مسائل کا ادراک کر سکتے ہیں ؟ان ڈکلیئر کئے گئے اثاثوں میں وہ مُکر تو نہیں سکتے، ایک اہم بات یہ ہے کہ عدالت کے حکم کے تحت تیار ہونیوالے حلف نامے میںدونوں سوالات موجود تھے کہ کوئی اثاثہ کس قیمت پر خریدا گیا اور موجودہ قیمت کیا ہے۔ اگر کسی نے موجودہ مالیت نہیں لکھی تو یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئیگا ۔ اب تو ایف بی آر کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ ٹیکس ان اثاثوں کے مطابق دیئے گئے ہیں یا نہیں، اگر تو ان حلف ناموں میں کالا دھن ظاہر کیا ہے تو کیا کوئی صادق اور امین رہ سکتا ہے۔ پھر نیب بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ آمدنی اور وسائل سے زیادہ اثاثے کیسے بنے؟ الیکن کمیشن کو اپنے طورپر ان اثاثوں کی پڑتال کرانی چاہئے،البتہ عوام ایسے تمام سیاستدانوں اور امیدواروں کو یہ آفرکرتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی کی ہے تو آپ صادق اور امین نہیں رہے ؟ آپ نااہلی کی تلوار سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے یہ تمام اثاثے عوام کو اس قیمت پر دے دیں اور عوام یہ تمام اثاثے سپریم کی اجازت سے فروخت کر کے ان سے حاصل ہونیوالے کھربوں روپے ڈیم بنانے کیلئے قائم فنڈمیں جمع کرا دینگے ۔ چونکہ پھر آپ سے یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ یہ اثاثے کیسے بنائے گئے ، اسی طرح آپکا کالاد ھن سفید بھی ہو جائیگا،کیا اس سے بڑی آفر کوئی ہوسکتی ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین