• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج دنیا بھر میں ملالہ ڈے منایا جارہا ہے۔ جو دراصل ملالہ اور 32 ملین بچیوں کا دن ہے جو سکول نہیں جاسکتیں۔ یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ایسے ساڑھے چھ کروڑ بچے ہیں۔ جو کبھی بھی سکول نہیں گئے۔ جن میں سے ساڑھے تین کروڑ لڑکیاں ہیں۔ گو کہ یہ اعداد و شمار کافی محنت کے بعد تیار ہوتے ہیں۔ پھر بھی غریب اور پسماندہ ممالک میں ایسے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کا نہ تو کوئی واضح طریقہ کار ہی ہوتا ہے نہ ہی رواج، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بالکل سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ان اعداد و شمار سے یقیناً زیادہ ہوگی۔ اتنے بچے سکول کیوں نہیں جاتے۔ اس کے اسباب تو بہت سارے ہیں۔ تاہم سب سے بڑا سبب یقیناً معاشی ہے۔ لیکن ان اسباب پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ملالہ ہی کے نام پر ہر دن کیوں۔ اور ملالہ کے نام پر شمعیں کیوں جلائی جارہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ہونے والے طالبان کے واقعے کو محض ایک امریکہ اور یورپ کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ سازش اس لحاظ سے کہ امریکہ اور یورپ وزیرستان پر حملے کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ جبکہ میری دانش کے مطابق یہ واقعہ نہ تو من گھڑت ہے نہ ہی کوئی سازش ۔دراصل ہر چیز میں سازش کا پہلو تلاش کرنا ہمارا مزاج ہے۔ اس لئے کہ ہمارا اپنا نہ کوئی نصب العین ہے اور نہ ہی وژن Vision ہے۔ ہم ان معاملات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہوچکے ہیں۔ جو ہمارے فائدہ یا نقصان میں جاتے ہیں،اس لئے ہم کسی کونہ اپنا فائدہ کرنے دیتے ہیں نہ نقصان،کیونکہ خود کو نقصان پہنچانے یا تباہ کرنے کے لئے ہم خود ہی کافی ہیں۔ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمیں دوست شناسی آتی ہے ۔ ملالہ پاکستان کی بچی ہے جس نے تعلیم کا علم اٹھایا اور تعلیم کے دشمن جانوروں نے اسے اس علم اٹھانے کے جرم میں جان سے مار دینے کی کوشش کی ۔ ہم اس بچی کے تعلیم کا علم اٹھانے کو ہی سازش کہہ رہے ہیں اور ان درندوں کی اسے جان سے مار دینے کی کوشش کو بھی، جبکہ یہ سب کچھ کر گزرنے والے جانور اپنی ذہنی پسماندگی پر مبنی کار گزاری کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ دراصل یہ سارا کنفیوژن اس لئے ہے کہ ہم سوچ کے لحاظ سے کنفیوزConfused لوگ ہیں۔ نظریاتی تذبذب میں ہیں۔ منجدھار میں پھنسے ہوئے ہیں نظریاتی تذبذب میں ہیں۔ ریاست سے لے کر عوام تک ، اداروں سے لیکر افراد تک ، لیڈروں سے لیکر کارکنوں تک ، علما سے لیکر طلبہ تک نہ تو کسی کو سمجھ میں آرہا ہے کہ ہمارے مفادات کن چیزوں میں پنہاں ہیں نہ ہی یہ معاملہ فہمی ہو رہی ہے کہ ہمیں کس طرف جانا ہے۔ ایک ہجوم ہے جو دوڑ و دوڑ میں مبتلا ہے کسی کے پاس نہ سوچنے کا وقت ہے نہ ہی وہ اس کی ضرورت محسوس کررہا ہے۔ ہر شخص کو یہ پریشانی ضرور ہے کہ کوئی اس کی بات کو کیوں نہیں سمجھتا۔ جبکہ وہ یہ یقین کئے بیٹھا ہے کہ وہ سب کچھ جان چکا ہے۔ سمجھ چکا ہے۔ اور یہ کہ اس نے اس کنفیوژن کا راستہ بھی ڈھونڈ لیا ہے۔ دراصل یہ احساس ادراک کل کا مرحلہ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ جس سے ملو، وہ عقل کل ہے۔ عقل کل کے آگے کیا دلیل کیا وکیل ، نہ سمجھائے بنے نہ چلائے ۔ پھر مجھ جیسا یہ سوچ کر بیٹھ جاتا ہے کہ چلو بالآخر انہیں وقت اور تاریخ ہی سمجھائے گی گو کہ اس نوبت کو پہنچنے تک بڑی بھاری قیمت چکا چکے ہوں گے میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس عالمی جنگ کے طریقہ کار کے بالکل خلاف ہوں۔ اس طریقہ کار نے نہ صرف عالمی طور پر دہشت گردی میں اضافہ کیا ہے بلکہ گذشتہ گیارہ برس میں ان دہشت گرد عناصر کی تعداد میں خاطرہ خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ان بڑی طاقتوں کے عزائم اور قرائن پتہ دے رہے ہیں کہ آئندہ کی War on Terror کی حکمت عملی میں تبدیلی آرہی ہے۔ لڑائی کا بنیادی رخ صرف دہشت گردوں کو مارنے کی بجائے انتہائی پسندی کے خاتمے کی جانب کردیا جائے اور علم و قلم کی طاقت کو بندوق کی گولی سے زیادہ طاقتور اور موثر سمجھا جائے۔ اسی بات کا مجھ جیسے نادان عرصہ دراز سے واویلا کررہے ہیں کہ یہ نظریاتی جنگ ہے اس لئے جب تک انتہا پسندی کی جانب Mind Set تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ بات نہیں بنے گی۔ یہ Mind Set کسی لیبارٹری یا آپریشن تھیٹر میں تبدیل نہیں کئے جائیں گے۔ یہ ایک پورا علمی اور ثقافتی عمل ہے جو اس تبدیلی کا پیش خیمہ بنے گا۔ اس کے لئے کچھ چیزوں کو کنٹرول کرنا پڑے گا اور کچھ چیزوں کو آزادی دینی ہوگی موجودہ دکھائی دینے والا منظر الٹ پلٹ کرنا پڑے گا۔ جو اس وقت دندناتے پھرتے اور بے لگام ہیں ۔ انہیں کنٹرول میں لانا پڑے گا۔ جو اس وقت زبان پر مہر لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔ انہیں یہ حلقہ زنجیر توڑنا پڑے گا۔ مجھے ملالہ پر عالمی طاقتوں کی دلچسپی اس پالیسی میں شفٹ کر کڑی محسوس ہو رہی ہے۔ملالہ ہی اس پہچان کی علامت بنے گی۔ جہاں صرف بندوق اور طاقت کے ذریعے تبدیلی لانے کے خواہش مند تنگ نظر دیوانوں کو ایک طرف کھڑا کرنا ہوگا اور علم اور معاشی ترقی کو Mind Set میں تبدیلی کی بنیاد بنانے والوں کو دوسری طرف ، دراصل ہمارے اندر ہی تفریق نہیں ہو پا رہی۔ یہی Positioning اس لڑائی کی مورچہ بندی کرے گی۔ لیکن جب تک یہ کنفیوژن دور نہیں ہوگا یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ہم ورغلائے جاتے رہیں گے اور مار کھاتے رہیں گے کبھی اپنوں سے اور کبھی غیروں سے ، آج کل برطانیہ اور دیگر ممالک میں ملالہ کے نام پر شمعیں جلانے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے۔ یہی دراصل علم اور دلیل کی طاقت کو تسلیم کرنے کی علامت ہے۔ پہلے برمنگھم میں پھر لندن میں فیض کلچرل فاؤنڈیشن کی جانب سے شمع جلاؤ مظاہرے کئے گئے۔ اب اس مظاہروں کے طریقہ کار کو چھوٹے شہروں اور محلوں میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان میں نہ سہی لیکن بیرون ممالک میں موجود انتہا پسندی میں جکڑے ہوئے Mind Set بھی ہلیں گے اور عالمی طاقتوں کو بھی ان قوتوں کی موجودی کا احساس اور دباؤمحسوس ہوگا۔ دوسرا اہم مسئلہ ہے معاشی اسباب کا جو اس انتہا پسندی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انسانی دنیا کے ان دشمنانہ تضادات کو مدہم یا ختم کرنے کا اہم ترین طریقہ یہی ہے کہ انسانوں کی معاشی محرومیوں کو ختم کیا جائے۔ اس وقت جہاں جہاں دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہو رہی ہے۔وہاں معاشی پسماندگی کا عنصر سب سے نمایاں ہے۔ جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ ہم بڑی طاقتوں کے رویئے میں جس شفٹ Shift کی بات کررہے ہیں وہ ان علاقوں میں معاشی ترقی دیئے بغیر ممکن نہیں، گزشتہ دہائی میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں جتنا دولت کا ضیاع ہوا ہے وہ اس وجہ سے ہوا کہ سارا زور اسلحہ اور گولہ بارود کے استعمال پر تھا۔ (گو کہ کافی حصہ کرپشن کی نذر بھی ہوا ہے) جس کے نتائج ہم نے دیکھ لئے ہیں کہ افغانستان جو کسی زمانے میں پورے برصغیر کی ایک بڑی طاقت تھا۔ سب حملہ آور ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لئے وہیں سے آتے تھے آج وہ جنگلوں اور غاروں میں رہنے والا معاشرہ بن چکا ہے۔ پاکستان بھی اس وقت اس راہ پر چل رہا ہے۔ معاشی ترقی کے تمام منصوبے رک چکے ہیں۔ دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔ انسان کی جان کی قدر صفر ہوچکی ہے۔ عقل اور منطق کی بات دماغوں میں رجسٹر ہی نہیں ہو پاتی۔ دراصل ایسی سوچ کو سوسائٹی میں Isolate کرنا ضروری ہے۔ جس کا سارا اسلام عورت پر پابندیوں اور کنٹرول کے ارد گرد گھومتا ہے اور ان کی تمام آخرت اور جنت دوزخ عورت کے ڈھانپنے چھپانے کے مسئلے کے گرد الجھ کے رہ گئی ہے۔ ایسے ماحول میں جب ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرتی ہے اور ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی ہے ۔ یعنی معاشی عمل میں لڑکیوں کو شامل کرنا چاہتی ہے تو یہ انتہا پسند عناصر، اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف نرم گوشے کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ امریکہ میں اوباما دوبارہ منتخب ہوگئے ہیں لیکن انتہا پسندی کے خلاف لڑائی ہمارا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنا کوئی جامع منصوبہ رکھتے ہوں اور مذہبی غلبے کی خواہش مند قوتوں کو قلیل مدتی مصلحتوں کے تحت Accommodate نہ کریں تو اس Mind Set کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔ ملالہ کے نام کی شمع جلانا بھی اس لئے ضروری ہے کہ اس تحریک کو جس علامت کی ضرورت ہے وہ ملالہ کی شکل میں وجود میں آچکی ہے۔ ”تھام لے جو بڑھ کے مینا اسی کا ہے“۔
تازہ ترین