• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مخلوط حکومت تشکیل پائی تو زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہونگے، بلاول

مخلوط حکومت تشکیل پائی تو زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہونگے، بلاول

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مخلوط حکومت تشکیل پائی تو آصف زرداری وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے، میں نے اپنا سیاسی سفر 19 سال کی عمر سے شروع کیا، سابق صدر زرداری کو اتحادی حکومت چلانے کا وسیع تجربہ ہے،ماضی میں انہوں نے اتحادی حکومت میں ہو کر این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم جیسی کامیابیاں حاصل کیں۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھے اپنی والدہ کا مشن مکمل کرنا ہے، ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 8 لاکھ افراد کو غربت سے نکالا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا سیاسی سفر 19 سال کی عمر سے شروع کیا، مجھے خطرات کا سامنا ہے لیکن میرے پاس کوئی آپشن نہیں، میں لندن جا کر نہیں بیٹھ سکتا۔ دہشتگردی کے خلاف جتنا کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا، بلاول نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے کیس میں انصاف کے لیے اقوام متحدہ تک گئے لیکن آج تک ہمیں انصاف نہیں ملا۔ عمران خان نے سینیٹ چیئرمین کے معاملے پر 2 دن پہلے اپنا ذہن تبدیل کیا تھا۔ پاناما ایک بین الاقوامی اسکینڈل تھا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایسا کوئی الزام نہیں لگا۔ ایک سوال کے جواب میں پی پی چیئرمین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے (ن) لیگ اور پی ٹی آئی سے نظریاتی اختلافات ہیں، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے معیشت اور انتہاپسندی پر نظریات ایک جیسے ہیں۔بلاول نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں وزیراعظم کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرنے چاہئیں، پاکستان ،ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پیپلزپارٹی کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ تھا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے الیکشن میں اے این پی کے بشیر بلور کو شہید کیا گیا اور اس الیکشن میں انکے بیٹے کو بھی شہید کیا گیا ہے، آپ نے بنوں کا دہشتگردی حملے کا ذکر بھی کیا اور بلوچستان کا بھی۔ جب دہشتگرد ایسے کام کررہے ہیں تو خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے اس کا بھی الیکشن میں اثر ہوتا ہے لیکن یہ صرف ایک وجہ یہ نہیں ہے کہ level playing field نہیں دی جارہی ہے بلکہ اسکی مختلف وجوہات ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر آزاد میڈیا نہیں ہوگا تو کسی کو level playing field ملنا مشکل ہوگا، میں اپنی پارٹی کی شکایات کے بارے میں بتاسکتا ہوں، میں جیسے ہی کراچی سے نکلا، ہماری کراچی سے خیبر تک انتخابی مہم کا پلان تھا، ہمیں میڈیا میں وہ جگہ نہیں ملی ، اس کے علاوہ لوکل باڈی کی سطح سے امیدواروں تک اور کارکنوں کی طرف سے شکایات آرہی ہیں کہ انہیں تنگ کیا جارہا ہے اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر جی ڈی اے یا پی ٹی آئی میں شامل ہونے یا آزاد امیدوار کے طور پر لڑنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے،جنوبی پنجاب میں اوتھ شریف میں ہمارا جلسہ تھا، میں نے ایک درگاہ پر حاضری دینے کی کوشش کی تو میری گاڑی کو روکا گیا، پولیس کی رکاوٹیں تھیں، میں ملتا ن پہنچا تو ہمارے پاس وزٹ کیلئے اجازت نامہ تھا لیکن وہ آخری وقت میں کینسل کرنے کی کوشش کی گئی، ہمیں میڈیا میں جگہ نہیں دی جاتی لیکن ہمارے خلاف جو پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اسے میڈیا میں بہت زیادہ جگہ دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پلان تھا کہ ہم جہاز سے پشاور آئیں، ہماری فلائٹ خان صاحب کی فلائٹ کے دو گھنٹے بعد تھی، عمران خان کو تو اجازت ملی مگر ہمیں اجاز ت نہیں ملی پھر ہم نے بائی روڈ آنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی تک میں انتظار میں ہوں کہ الیکشن کمیشن ہماری شکایات پر ایکشن کرے گی۔شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اس ملک ،عوام اور جمہوریت کیلئے اپنی جان دی، 2013 میں سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے مجھے انتخابی مہم چلانے کا موقع نہیں ملا، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نظر آرہا ہے کہ یہ کافی متنازع الیکشن ہیں، ابھی تک فری اینڈ فیئر نہیں ہوئے ہیں، انتخابات میں پندرہ دن رہتے ہیں، آخر میں ہم فیصلہ کریں گے کہ انتخابات فری اینڈ فیئر تھے یا نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرے گی، میں ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ ہم کتنا برداشت کریں، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو 2007 ء میں شہید کیا گیا مجھے آج تک قانونی طورپر تو انصاف نہیں ملا مگر دوسرے قسم کے انصاف ہوتے ہیں، اگر ہم انتہاپسندی اور دہشتگردی کیخلاف اتفاق رائے پیدا کرتے اور یہ جو پچھلے دس سال گزرہے ہیں اس دوران اس پر مسلسل عملدرآمد کرتے تو شاید ہم اس نہج پر نہیں پہنچتے، جمہوریت کو اس وقت نقصان ہوتا ہے جب پارلیمان کوا ہمیت نہیں دی جاتی ہے، میں اس لئے رسک لے کر خود یہ الیکشن لڑنا چاہتا ہوں تاکہ پیپلز پارٹی جتنی نشستیں نکال سکتی ہے نکالے، میں خود پارلیمان میں جانا چاہتا ہوں کیونکہ پارلیمان ہی وہ جگہ ہے جہاں یہ ایشوز اٹھائے جانے چاہئیں اور وہاں ہم یہ ایشوز اٹھائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن میں تاخیر کی کبھی حمایت نہیں کرے گی، جو بھی ہو الیکشن ہونے چاہئیں، ہر ملک میں الیکشن ہوتے ہیں، اگر افغانستان اور عراق میں الیکشن ہوسکتے ہیں تو اب جبکہ ہم دہشتگردوں کی کمر توڑ چکے ہیں تو پاکستان میں بھی الیکشن ہونے چاہئیں۔ پارلیمان ہی ان ایشوز کو ایڈریس کرسکتی ہے۔ الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، پیپلز پارٹی ان فورمز کو استعمال کررہی ہے، جن کی ذمہ داری ہے انہیں اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی،لیکن میں پہلے بھی کہتا آیا ہوں کہ ہمیں اپنے الیکشن کمیشن کو بہت مضبوط بنانا ہوگا، الیکشن کمیشن کے پاس جو مالی وسائل ہونے چاہئیں وہ آج بھی نہیں ہیں، میری رائے تھی کہ الیکشن کمیشن کا اپنا اسٹاف ہونا چاہئے جو الیکشن کنڈکٹ کرسکے، ہمیں الیکشن کمیشن کی capacity building کرنا پڑے گی۔ میں سمجھتا ہوں آرمی کا رول الیکشن میں صرف اور صرف سیکیورٹی اور لاء اینڈ آرڈر تک ہونا چاہئے، میں سیاست اقتدار کی ہوس کیلئے نہیں کررہا ہوں، میں نے اپنی ماں کے نامکمل مشن کو مکمل کرنا ہے، ہم مفت علاج کوترجیح دے رہے ہیں، پاکستان میں 23فیصد اموات دل سے متعلق امراض میں ہوتی ہیں، پیپلز پارٹی نے سندھ بھر میں مفت علاج کے اسپتال کھولے ہیں، اگر پیپلز پارٹی امیروں کی پارٹی ہے تو امیروں کی پارٹی غربت ختم کرنے کے پروگرام نہیں بناتی ہے، امیروں کی پارٹی مفت علاج کے اسپتال نہیں بناتی ہے وہ پرائیویٹ اسپتال بناتی ہے، ہم نےماضی میں نیشنلائزیشن بھی کی جو بڑا متنازع موضوع ہے لیکن غریب مزدور کو فائدہ ہوا، میرے نانا نے اپنی کلاس سے بغاوت کر کے یہ کام کیے، میرے پاس سوئس اکاؤنٹس نہیں ہیں، اگر شہید بی بی کے پاس سوئٹس اکاؤنٹس ہوتے تو پھر میرے پاس بھی ہوتا، زرداری صاحب نے سب کچھ ڈیکلیئر کیا ہے، عوام جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ان کے مسائل حل کرسکتی ہے یہاں تک کہ اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار ہیں۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں سے ایک کے ساتھ مخلوط حکومت بنانی پڑی تو آپ کی ترجیح کون سی پارٹی ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کوئی ترجیح نہیں ہے، میں نے کہا دونوں کے ساتھ میرے نظریاتی اختلافات ہیں، پیپلز پارٹی کی بڑی جارحانہ اور مصروف خارجہ پالیسی رہی ہے، سی پیک اور پابندیوں کے باوجود ایران پائپ لائن پیپلز پارٹی کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے، ہم سلالہ حملے پر نہ صرف نیٹو سپلائی لائنز بند کرسکتے تھے۔

تازہ ترین