• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں پاکستان کے انتخابات میں جو فضا بنتی رہی ہے وہ الیکشن 2018ء میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ نظر آتی ہے کہ ملک میں کرپشن کے سلسلے میں کئی لیڈران کو احتساب کا سامنا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ جیل میں ہیں، آصف علی زرداری متحرک ہوئے اور تحریک انصاف بھی متحرک ہوئی مگر ان میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ پورے ملک کو اپنے اندر سمو لے، اُس کے لیڈران اور اُن کی آپس کی ناراضگیاں اور احتجاج اتنے تھے کہ وہ پارٹی جس کا ایک ایسا سربراہ ہو جس کی سب بات مانتے ہوں وہ کیفیت اس پارٹی میں نہیںپیداہو سکی۔ انتخابات کیونکہ آزاد فضا میں ہورہے ہیں، اس لئے ماضی کی تمام سیاسی پارٹیوں سے بشمول تحریک انصاف کے لوگ گلی کوچوں میں سوالات کررہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام میں ایک بیداری کی لہر ہے مگر عوام کی خواہشات کی ترجمانی کرنے والی کوئی پارٹی نظر نہیں آتی۔ عوام میں بے چینی، بیزاری اور لاتعلقی صاف دیکھی جاسکتی ہے، ممکن ہے جب یہ کالم شائع ہو اس وقت تک الیکشن کی فضا بن جائے اور عوام کوئی حتمی فیصلہ کرلیں، کراچی بہت اہم ہوگیا ہے کیونکہ بڑی پارٹیوں کے اہم رہنما کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم انتشار کا شکار گھٹن ہے اس لئے ہر کس و ناکس کراچی میں خلا کو پُر کرنااور اس خلا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہا ہے مگر کراچی تو پھر کراچی ہے، یہاں کے لوگ بھی ماضی کی جمی پارٹی کے رہنمائوں کو سخت سوالات کی زد میں لا رہے ہیں، ڈر اور خوف ختم ہوگیا تو کراچی کروٹ لیتا دکھائی دیتا ہے مگر کیا وہ 25 جولائی 2018ء تک اپنی حتمی رائے مرتب کرسکے گا یا نہیں، یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا، دوسرے یہ فضا اس لئے بھی نہیں بن پائی جاتی کہ دو بڑے واقعات خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوگئے جس میں بڑے پاکستانی سپوتوں کے ساتھ 200 افراد کے قریب افراد شہید ہوگئے، جس کی وجہ سے بھی کارکنوں میں وہ جوش و خروش پیدا نہیں ہو پایا جو ماضی کے انتخابات میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ کئی پارٹیوں کے درمیان چھیڑچھاڑ کراچی سے لے کر پشاور اور اس سے آگے بھی شروع ہوچکی ہے مگر یہ انتخابات کا منفی پہلو ہے تاہم الیکشن میں گہماگہمی بڑھنے کا رحجان نظر آنا شروع ہوگیاہے، پہلے کی طرح الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ کار بنایا ہے اس کے تحت بڑے بڑے بینرز، پوسٹرز لگانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور دہشت گردی کے خوف سے جلوس کے لئے اجازت درکار ہوتی ہے اور الفاظ کے چنائو اورشائستگی برقرار رکھنے پر زور دیاگیاہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو اس ضابطہ کار کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر الیکشن کمیشن نے تنبیہ کی ہے جو اپنے ضابطہ کار پر عمل درآمد کرانے کی ایک کوشش ہوگی۔ دیکھتے ہیں ، البتہ اس الیکشن میں یہ بات ضرور نوٹ کی گئی کہ پہلے جیسا بے ہنگم پن موجود نہیں ہے، میں نے 2016ء میں ازبکستان کے الیکشن میں بطور بین الاقوامی مبصر کے صدارتی انتخابات کو مانیٹر کیا، وہاں کے انتخابات مثالی اور ایک بہترین نمونہ تھے، ووٹر حضرات اپنے طور پر خود آئے اور ووٹ ڈال کر چلے گئے، اگر کسی خاتون کے پاس شیرخوار بچہ ہے تو اس کی دیکھ بھال کے لئے الگ سے اسٹاف مختص تھا، جب وہ خاتون ووٹ ڈال لیتی تو اپنے بچوں کو ساتھ لے کر چلی جاتی، اگر کسی کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھا تو اُس کو ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا، کہیں پر بھی لڑائی جھگڑا یا منہ ماری نہیں دیکھنے میں آئی تاہم اُس کی وجہ یہ ہوسکتی کہ وہاں آبادی پاکستان سے دس گنا کم ہے مگر جو بھی ہو ایسے ہی الیکشن ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے لوگوں کو پوسٹرز اور ہلٹر بازی کی اجازت نہ دے کر ایک اچھا کام کیا ہے اور ہمارے عوام کو پُرامن انتخابات کی تربیت دینے کی ابتدا کردی ہے، جس کو ہم سراہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جہاں تک الیکشن مہم کی بات ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ پی پی پی اپنی مہم انتہائی منظم طریقے سے چلا رہی ہے گو کہ اُس کو شدید تنقید کا سامنا ہے، خود سندھ میں جہاں وہ اپنی جیت کو یقینی سمجھ رہی تھی وہاں لوگ سخت سوالات کررہے ہیں اور پی پی پی کے سامنے شکایات کی بھرمار کر رکھی ہے ، جی ڈی اے متبادل کے طور پر دیکھی جارہی ہے ویسے عمران خان الیکشن سے پہلے ہی اپنے آپ کو وزیراعظم کے عہدے پر سرفراز کر چکے ہیں، اگرچہ اُن کے کئی جلسے اخباری اطلاعات کے مطابق بُری طرح ناکام ہوئے ہیں مگر جہاں اُن کے جلسے ناکام ہوئے وہ روایتی طور پر مسلم لیگ (ن) کے گڑھ میں لیکن ان کو بھی نیب نے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر طلب کیا مگر وہ نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے اسی لئے مسلم لیگ (ن) اُنہیںلاڈلہ کہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم ایم اے بھی اپنی انتخابی مہم تیز کررہی ہے،میرےخیال میں وہ اچھے خاصے ووٹ لے گی۔ عین ممکن ہے کہ وہ دوسری پارٹیوں سے اتحاد کرکے ایک صوبے میں حکومت بنا لے۔ کراچی میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کی حمایت سےکم از کم دو نشستیں ضرور جیت لے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان کو یہ یقین ہے کہ اُن کا ووٹ بینک پہلے جیسا ہے اُن کی یہ غلط سوچ ہے اُن کی پہلے جیسی پوزیشن قطعاً نہیں ہے، وہ پاک سرزمین پارٹی کے خلاف شکایت کرتی نظر آتی ہے، پاک سرزمین پارٹی شاید دوچار مرکز اور صوبے کی زیادہ نشستیں حاصل کرلے۔ مذہبی جماعتیں میدان میں موجود ہیں مگر وہ خاطر خواہ کامیابی کے حصول میں ناکام رہیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اگرچہ ڈینٹ پڑا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ یکسر غائب ہوجائے، اُن کے لیڈر کو کرپشن کی وجہ سے سزا ملی ہے اس لئے اُن کو ہمدردی کا ووٹ تو ملنا مشکل ہے مگر جس طرح کا ڈینٹ پڑا ہے اس کی وجہ سے اُس کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے، مثال کے طور پر جیتنے والے امیدوار کی کوئی 20 فیصد تعداد پی ٹی آئی یا دوسری پارٹیوں میں چلی گئے ہیں، چوہدری نثار نے اُن کو بالآخر سخت نقصان پہنچا دیا ہے، وہ آہستہ آہستہ مخالف کرتے رہے اور اب وہ کھل کر مخالفت کررہے ہیں جو ن لیگ کے فائدے میں نہیں ہے، شہباز شریف جو اب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ ہیں وہ بھی سخت الزامات کے زد میں ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یوں اگر صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو کسی پارٹی کی مرکز میں اکثریت آتی نظر نہیں آتی۔ یہ لٹکی یا بٹی ہوئی پارلیمنٹ ہوگی مگر دنیا کے کئی ممالک میں ایسا ہوتا رہا ہے، ایک دفعہ اٹلی میںپارٹیوں میں اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے چھ ماہ تک کوئی گروپ حکومت نہیں بنا سکا تھا۔محسوس یہ ہوتا ہے موجودہ پارٹیاں جلد کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ کر ایک اتحاد یا دو اتحادوں کی شکل اختیار کریں گی اور ایک حزب اختلاف تو، دوسرا حزب اقتدار کی صورت میں ،معاملہ باریک بینی سے دیکھا جائے تو ایسے اتحاد یا ان میں سے کسی بھی موجودہ پارٹیوں کے صدور کا وزیراعظم کیا غیرمتنازعہ ہوگا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین