• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی کابینہ کے31اکتوبر کو ہوئے اجلاس میں وزراءنے فنانس منسٹر کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے سنجیدہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ یکے بعد دیگرے وزراءنے جن میں وزیراعظم بھی شامل تھے فنانس منسٹر پر معیشت کو غلط انداز سے چلانے پر عمومی اور قیمتوں کی حالت کے اعتبار سے خصوصی طور پر تنقید کی۔ فنانس منسٹر نے اس تنقید کا مساوی طور پرجامع الفاظ میں جواب دیا۔ کابینہ میں اس نوعیت کا واقعہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ جب حالات دگرگوں ہونے لگتے ہیں تو الزام برائے الزام کا کھیل کھیلنا ہمارے معاشرے کی ریت ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ تنقید کا جواب دیتے وقت فنانس منسٹر نے سچ کے چہرے سے ہی پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے نئے ’این ایف سی ایوارڈ‘ اور ’بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے آغاز کے تناظر میں سیاسی رہنماﺅں پر سخت نکتہ چینی کی۔ ان کے موقف کے مطابق نیا ’این ایف سی ایوارڈ‘ اور ’بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ دونوں ہی ملک میں بدستور جاری افراط زر کی اونچی شرح کے ذمہ دار ہیں۔ کیا صرف فنانس منسٹر ہی تن تنہا ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں؟ اگر فنانس منسٹر کو اس حوالے سے الزام دیا جائے کہ وہ معاشی ٹیم کے سربراہ کے طور پر معاشی تباہی کو رونما ہوتے دیکھتے رہے تو سیاسی قیادت کے کردار کو بھی معاشی بربادی کے باب میں معصوم عن الخطا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی قیادت پر یہ الزام ناقابل تردید ہے کہ اس نے اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے تاحال ملکی معیشت پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کی۔ اس نے معاشی ٹیم میں مسلسل ردوبدل کیا اور اس طرح ٹیم کو اعتماد کے ساتھ کام نہیں کرنے دیا۔ سیاسی قائدین نے جس ٹیم کو مقرر کیا وہ کمزور تھی اور زمینی حقائق کے کم فہم کے ساتھ بے سمتی کا شکار تھی۔ سیاسی قیادت نے اپنی معاشی ٹیم کو دشوار ساختیاتی اصلاحات کرنے کے لئے خاص طور پر ٹیکس، اخراجات، توانائی کے شعبے میں دی جانے والی مراعات اور سماجی تحفظ کے پروگراموں میں بھرپور اعانت فراہم نہیں کی۔
سیاسی قیادت خود مالی نظم و ضبط برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئی جس کے نتیجے میں معاشی ٹیم کو ان کی لامتناہی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے نہایت غیر محتاط طور پر قرضے لینے پڑے۔ ملک کے غریب افراد اور کھانے پینے کی اشیاءکی قیمتوں کا خیال کئے بغیر مجرمانہ طور پر گندم کی سپورٹ قیمت میں اضافہ کرنا سیاسی قیادت کا فیصلہ تھا۔ بنا کسی معاشی بنیاد کے این ایف سی ایوارڈ کا نفاذ بھی سیاسی قیادت ہی کا فیصلہ تھا۔ اس ایوارڈ نے نہ صرف مالی توازن کو درہم برہم کر دیا ہے بلکہ ملک میں میکرواکنامکس کے ابدی بحران کے بیج بھی بو دیئے ہیں۔ گلے سڑے ’پی ایس ایز‘ میں انہیں زندہ رکھنے کے لئے ٹیکس دہندگان کی رقم بہانا، توانائی کے شعبے کو1.5ٹریلین روپے فراہم کرنا تاکہ وہ اپنی کرپشن اور نااہلی کے لئے رقم فراہم کر سکے اور ڈالر کی صورت میں قرض لینا، ان ڈالروں کو روپے میں تبدیل کرنا اور ’ہیلی کاپٹر‘ کے ذریعے انہیں3.5ملین خاندانوں پر برسانا بھی سیاسی قیادت ہی کے فیصلے تھے۔ جہاں تک کمزور اور غیر مربوط معاشی ٹیم کا تعلق ہے تو وہ ان معاشی چیلنجز کا ادراک کرنے میں ناکام ہو گئی جن کا ملک کو سامنا ہے۔ اس ٹیم کے کاہلانہ، سست رفتار اور غیر سنجیدہ رویّے نے ان مشکلات کو مزید گمبھیر کر دیا۔ ٹیم کے سربراہ نے کبھی بھی اس بات کی کوشش کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ٹیم میں ایک طرف دیانتدار، اہل اور مخلص سول سرونٹس اور دوسری طرف زمینی حقائق کا مکمل علم رکھنے والے معاشی ماہرین کو شامل کیا جائے۔ معاشی ٹیم نے نجی شعبے کو دور رکھا اور کبھی بھی پاکستان کے عوام سے بات چیت نہیں کی۔ ٹیم اور بطور خاص اس کے سربراہ سیاسی قیادت کو مالی طور پر غیر ذمہ دارانہ فیصلے کرنے سے روکنے کے لئے درکار حوصلے کو جمع کرنے میں ناکام رہے مثلاً معاشی طور پر خراب حالات میں یک لخت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں50فی صد اضافہ کرنا، گندم کی سپورٹ پرائس کو100فی صد سے زائد بڑھا دینا، گلے سڑے پی ایس ایز کو مسلسل فنانس کرنا، کھربوں روپے توانائی کے شعبے کو مراعات فراہم کرنے پر ضائع کرنا، ہیلی کاپٹر کے ذریعے3.5ملین غریب خاندانوں پر رقم برسانا، ایک سال کے لئے مختص کردہ رقم کو محض تین ماہ میں خرچ کر دینا، پارلیمانی منظوری کے بغیر ترقیاتی پروگرام کی فہرست میں ایک کے بعد ایک پروجیکٹ کا اضافہ کرنا وغیرہ۔ معاشی ٹیم کے پاس اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ صاف طور پر غلط کو غلط کہہ سکتی۔ مثال کے طور پر ٹیم کے سربراہ نے غیر سرکاری طور پر اعتراف کیا کہ نیا این ایف سی ایوارڈ ملکی معیشت کے لئے تباہ کن ہے مگر ان میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ وہ یہ بات سیاسی قیادت سے کہہ سکتے۔ صرف اس وقت انہوں نے اپنے دل کی بات کہی جب ان پر کابینہ میں شدید تنقید کی گئی۔ ٹیم نے سیاسی قیادت کو کبھی بھی ’بی آئی ایس پی‘ اور توانائی کے شعبے کو دی گئی مراعات کے اثرات بد کی بابت خبردار نہیں کیا۔ ایک طرف مالی طور پر کمزور حکومت اور دوسری طرف ایک غیر مربوط اور غیر سنجیدہ معاشی ٹیم نے پانچ سالوں کے دوران معیشت کے ڈھانچے کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان کی معیشت اپنی تاریخ میں کبھی بھی اتنے دگرگوں حالات کا شکار نہیں ہوئی۔ اقتدار سنبھالنے کے تقریباً پانچ سال بعد حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کا اسکور کارڈ قطعی طور پر قابل رحم حالت میں ہے۔ اوسطاً تین فی صد سالانہ کی شرح کے ساتھ معاشی نمو سست پڑ چکی ہے، گزشتہ60سالوں میں آج سرمایہ کاری کم ترین سطح پر ہے، ملکی تاریخ میں داخلی بچتیں کبھی بھی اتنے کم درجے پر نہیں رہیں، بے روزگاری اور غربت عروج پر ہے، بجٹ خسارہ گزشتہ سال ملکی تاریخ میں پہلی بار قومی مجموعی پیداوار کی8.5فی صد کی اونچی ترین سطح تک پہنچ چکا ہے اور خدشہ ہے کے رواں مالی سال یہ بلندی کے نئے ریکارڈ قائم کرے گا اور گزشتہ پانچ سالوں میں عوامی قرضہ دوگنا سے بھی زائد ہو چکاہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا بحران دروازے پر دستک دے رہا ہے، روپے کی قدر بلا روک ٹوک مستقل گر رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کا کوئی تصور نہیں بچا ہے، داخلی سرمایہ کار بیرون ممالک منتقل ہو رہے ہیں اور دوسرے ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہیں، بجلی اور گیس کی ’قلت‘ نے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا رہی ہے، امن و امان کا مسئلہ گمبھیر ترین ہو چکا ہے اور ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، گزشتہ55ماہ سے افراط زر کی شرح لگاتار دو ہندسوں میں ہے، پی ایس ایز کی رگوں سے خون بہہ رہا ہے، ریاستی ادارے منہدم ہو چکے ہیں اور حکومتی رٹ غائب ہے۔ چاروں اطراف معیشت کی تباہی بکھری ہوئی ہے مگر سب سے کم پروا حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کو ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے میڈیا، سول سوسائٹی اور پارلیمان اس سلسلے میں اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے وہ مارچ2013ءتک دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹ کر خالی کرنے کے درپے ہیں۔ وہ حلقے بھی جو درحقیقت قومی معیشت کے ڈوبتے جہاز کو کنارے لگا سکتے ہیں خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ ملکی معیشت کی رگوں سے خون بہنے دو! سیاست کو معیشت پر سواری کرنے دو! پاکستان کے عوام کو مصیبتیں بھگتنے دو!
تازہ ترین