• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو روز بعد 25جولائی 2018ء کو ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 577نشستوں جن میں پنجاب کی 297، کے پی 99، سندھ 130اور بلوچستان کی 51نشستیں شامل ہیں ، کیلئے ووٹ ڈالے جائینگے۔ پولنگ کا وقت صبح 8بجے سے شام چھ بجے تک ہے ۔ نئی مردم شماری کے مطابق اسوقت ملک کی آبادی 22کروڑ کے قریب جبکہ کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10کروڑ 59لاکھ 55ہزار 409ہے ، جن میں چار کروڑ سے زائد یعنی 43فیصد وہ نوجوان ووٹرز ہیں جنکی عمر 18سے 35سال کے درمیان ہے۔ ان کُل ووٹرز میں سے پنجاب میں 6کروڑ 6لاکھ ، 72ہزار 870، سندھ میں 2کروڑ 23لاکھ 91ہزار 244، کے پی /فاٹا میں ووٹرز کی تعدا د ایک ایک کروڑ 78لاکھ 26ہزار 453جبکہ بلوچستان میں 42لاکھ 99ہزار 494اور اسلام آباد میں 7لاکھ 65ہزار 623 ہے۔ اسی طرح ان عام انتخابات میں کل اقلیتی ووٹ 36لاکھ 30ہزار ہیں، جن میں ہندو ووٹرز سب سے زیادہ یعنی 17لاکھ 70ہزار ، مسیحی 16لاکھ 40ہزار ، سکھ 8ہزار 852 ، پارسی 4ہزار 235اور بدھ مت کو ماننے والے ووٹرز کی تعداد 18سو 84ہے۔ یہ سب ووٹرز ملک بھرمیں قائم کئے گئے ،85ہزار 307 پولنگ ا سٹیشنز جن میں مردوں کیلئے 23ہزار424، خواتین کیلئے 21ہزار 707اور دونوں کے مشترکہ 40ہزار 133 پولنگ اسٹیشنز پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرینگے۔
31مئی کو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم کی گئیں جنکا کام انتخابات کی نگرانی اور اسکے منصفانہ اور شفاف انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن سے تعاون کرنا ہے چونکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق الیکشن کمیشن بہت زیادہ خود مختار اور آزاد ادارہ ہے، اسے وہ اختیارات حاصل ہیں جو آج تک 70 سالہ تاریخ میں حاصل نہیں ہوئے ۔ اس ایکٹ کے تحت الیکشن شیڈول کے جاری ہونے کے بعد تمام ادارے الیکشن کمیشن کے احکامات پر عملد رآمد کے پابند ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق ملک بھر کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کر وائے ہیں۔ا سکروٹنی کے بعد الیکشن کمیشن نے جو حتمی فہرستیں جاری کیں اُنکے مطابق ساڑھے 12ہزار امیدوار الیکشن میدان میں ہیں۔ ن لیگ نے قومی اسمبلی کیلئے 200امیدواروں کو، پی ٹی آئی نے 246 ، پی پی نے 228، متحدہ مجلس عمل نے ایک سو ، تحریک لبیک نے 165، ایم کیو ایم نے 22،اللہ اکبر تحریک 70سے زائد جبکہ اتنی ہی تعداد میں دیگر پارٹیوں نےامیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے ہیں ، گو اب تک ان میں سے کچھ نے ٹکٹ واپس کر دیئے، کچھ آزاد امیدواروں میں شامل ہو گئے اور کچھ کسی دوسرے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوچکے ہیں ۔ چند ایک نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کی وجہ سے پولنگ بعد میں ہوگی ۔
الیکشن مہم اپنے عروج پر ہے جو آج رات 12بجے اختتام پذیر ہوگی، ہر سیاسی جماعت نے الیکشن کی رسم پوری کرتے ہوئے منشور جاری کئے ،نام نہاد وعدوں ، نعروں اور غلیظ زبان سے مزّین اشتہارات کے ذریعے مخالفین پر حملے کئےجا تے رہے ، ہر کوئی اپنے آپکو دیانتدار ، کرپشن سے پاک اور دوسروں کو مجرم اور چو ر ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ میڈیا لوگوں کی ملک کو درپیش مسائل اور ووٹرز کی ذمہ داریوں کے حوالے سے رہنمائی نہیں کر رہا ۔ اس سے نہ صرف الیکشن ڈے پر حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں بلکہ دہشتگردوں اور اخلاقیات کو توڑنے والوں کودندنانے کا موقع ملے گا۔ جب سے الیکشن کا عمل شروع ہوا ہے۔ بنوں، پشاور ، مستونگ میں دہشتگردی بم دھماکوں سمیت دیگر انتخابی جھگڑوں کے دوران 175افراد اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں ،الیکشن کمیشن نے 85ہزار میں سے 17ہزار پولنگ اسٹیشن حساس ترین قرار دیئے ہیں ، گو امن وامان قائم رکھنے اور منصفانہ انتخابات کیلئے تین لاکھ 71ہزارفوج کے جوان ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات ہونگے ۔ لیکن ایک اپنی سوچ رکھنے والے حقوق انسانی کمیشن نے اس پر اعتراضات اٹھادیئے اور انہیں الیکشن میں مداخلت کے مترادف قرار دیا ہے,اسی طرح دیگر تحفظات کا اظہار کیا ہے ،لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ہم غیر جانبدارانہ طور پرتما م مسائل کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ شکایات ملنے پر ایکشن بھی لے رہے ہیں ۔ امیدواروں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر مختلف امیدواروں ، سیاسی جماعتوں کو نہ صرف نوٹسز جاری کئے ، گیارہ ہزار واقعات پر مقدمات بھی درج کروائے بلکہ جرمانے بھی کئے اور ہمارا مقصد صرف اور صرف منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں الیکشن کمیشن کی طرف سے بڑے اچھے انتظامات کئےگئے ہیں ، جس حد تک ممکن تھا اس کیلئے ٹیکنالوجی کااستعمال بھی کیا جارہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے عملے کو بڑی سخت ہدایت کا پابند بنایا گیا ہے۔ مگر آر اوز کی بڑی شکایات سامنے آرہی ہیں، لیکن پھر بھی چند ایک سوالات کے حوالے سے اگر واضح انداز میں اقدامات نہیں کئے جاتے تو ہمیشہ کی طرح دھاندلی کی آواز یں اٹھیں گی۔ گو یہ ابھی سے اٹھنی شروع ہوگئی ہیں اور پولنگ کے بعد ہارنے والوں کی طرف سے اس میں شدت آئے گی، اسوقت الیکشن میں لاکھوں افراد اپنا حق رائے دہی صرف الیکشن کمیشن کی بد انتظامی کی وجہ سے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ تقریباً ساڑھے تین لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین الیکشن ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں ، پونے چار لاکھ فوج کے نوجوان اور چار لاکھ پولیس فورس الیکشن ڈیوٹی پر مامور ہوگی۔ چالیس ہزار پاکستانی فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے جا چکے ہیں جبکہ 80ہزار قیدی جیلوں میں قید ہیں۔ انکی اکثریت کو ووٹ ڈالنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ گو الیکشن کمیشن کے مطابق 18لاکھ پوسٹل بیلٹ پیپر چھاپے گئے ہیںچونکہ پوسٹل بیلٹ حاصل کرنے کی آخری تاریخ 10جولائی تھی جبکہ زیادہ تر عملے کی ڈیوٹیاں اس تاریخ کے بعد لگائی گئیں، پھر پوسٹل بیلٹ حاصل کرنیکا طریقہ اتنا پیچیدہ اورطویل ہے کہ الیکشن ڈیوٹی کرنیوالے عملے کی اکثریت اس سے استفادہ نہیں کر سکے گی ۔ اس طرح وہ اپنے قیمتی ووٹ کو اس ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے استعمال میں نہیں لا سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کو پولنگ ڈے سے پہلے یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ 18لاکھ میں سے کتنے پوسٹل بیلٹ استعمال میں لائے گئے ہیں۔ اسکی تفصیلات کیا ہیں۔ اسی طرح ایک کروڑ سے زائد پاکستانی تارکین وطن میں 58لاکھ اہل ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کیلئے زبانی جمع خرچ سے آگے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ آخری بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی غیر جابنداری قائم رکھنا چاہتا ہے توفوری طور پر جب انتخابی عملہ میں الیکشن سامان تقسیم کرے، اُس کیساتھ الیکشن ڈیوٹی دینے والے ہر شخص کو پوسٹل بیلٹ بھی جاری کرے اور انہیں اجازت دی جائے کہ وہ باقی رزلٹ جمع کرانے کیساتھ ساتھ پوسٹل بیلٹ کیلئے مخصوص لفافے میں اپنے پولنگ اسٹیشن کے عملے کے ووٹ بھی جمع کرائیں ۔ شاید یہی ایک طریقہ ہے جس سے الیکشن کمیشن اپنی بد انتظامی اور غلطی کی تلافی کر سکتا ہے ۔ نہیں تو 25جولائی کے بعد اس کو بھی دھاندلی کے طریقے سے منسوب کیا جائےگا اور یہ سوالات بھی اٹھائیں جائینگے کہ وہ خاموش ووٹر جو کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا اس کیلئے بیلٹ پیپر میں خانہ کیو ں نہیں رکھا گیا حالانکہ تمام امیدواروں کو رد کرنے کا یہ آپشن بنگلہ دیش جیسے ملک میں بھی موجود ہے ، یہ ہے 2018ء کے عام انتخابات کا خلاصہ۔ بس ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کن حالات میں اور کس کو ووٹ دینے جا رہے ہیں ، کیا یہ ووٹ ہم اپنے ضمیر کی آواز پر دے رہے ہیں اور اس سے ملک میں بہتری آسکتی ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین