• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری قومی تاریخ ایسے جرنیلوں کے ذکر سے اٹی پڑی ہے جنہوں نے وردی میں رہتے ہوئے ہر طرح کی آئین شکنی اور سیاسی بے اصولی کا ساتھ دیا مگر ریٹائر ہوتے ہی یہ احباب جمہوریت اور آئین کی فضیلت بیان کرنے لگے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جنہوں نے فوجی دور حکومت میں حسب توفیق کرپشن کرتے ہوئے کہیں واپڈا کو ”تھک“ لگائی، کہیں قومی ایئر لائنز کو لوٹا تو کہیں ریلوے کو بیچ کھایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ جب ٹی وی پر آ کر حب الوطنی جیسے موضوعات پر اپنا بیہودہ بھاشن دیتے ہیں تو ان کی کوئی نہیں سنتا۔ قاری عام طور پر چینل ہی بدل دیتا ہے۔ اصطلاعاً اس کیفیت کو بے برکتی کہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی اکثریت شدید گم نامی اور بے اطمینانی کی حالت میں اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ اخبار میں ایک سطر تک نہیں چھپتی اور لواحقین کو ”مرحوم و مغفور“ کی نہایت محنت سے اکٹھی کی گئی۔ دولت میں سے چند لاکھ نکال کر اخبارات میں اشتہار دینا پڑتا ہے۔ اشتہار کی کاپی ایڈورٹائزنگ ایجنسی والے پیسے لے کر لکھتے ہیں جس میں مرنے والے کو ایک سچا اور کھرا محب وطن پاکستانی ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی و دیگر مقامات کا زور لگایا جاتا ہے۔
ایسے بدنصیب جرنیل ہمارے قومی مجرم ہیں اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ایسے ضمیر فروشوں کے خلاف ہمارا قلم یونہی چلتا رہے گا خواہ کسی کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں جنرل اسلم بیگ کی بدبودار اور متکبرانہ باتیں سن کر اور کچھ ہو نہ ہو، ہمیں اتنا یقین ضرور ہو گیا ہے کہ قدرت اس ریٹائرڈ جرنیل کا مردہ خراب کرنے پر تل چکی ہے۔
بیگ صاحب کی جھلاہٹ بھری گفتگو سے جو جو نتائج ہم اخذ کر سکے ان میں سرفہرست یہ ہے کہ موصوف آج بھی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے ہمالیہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ دوسری اور شاید زیادہ اہم بات یہ تھی کہ فوج میں اس بات پر بے پناہ اضطراب پایا جاتا ہے کہ ہم جرنیلوں کی توہین کی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں عنقریب جو کچھ ہو گا، آپ خود دیکھ لیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی بات کو مکمل کرتے ہوئے جنرل صاحب نے ایک ایسی لرزہ خیز بات بھی کر ڈالی کہ جس سے اور کسی کا نہیں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ماتھا ضرور ٹھنکا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب فوجی انقلاب آنے لگتا ہے تو اس کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ کسی متعلقہ جرنیل کا دل نہ بھی چاہے، تب بھی سب کچھ الٹا دیا جاتا ہے۔ انقلاب جنرل ٹکا خان تو نہیں لائے، مگر کوئی دوسرا جرنیل ضرور لے آیا تھا، اپنی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔
اس بات کا واضح مطلب یہی ہے کہ جنرل کیانی بھلے سے چاہیں یا نہ چاہیں، کوئی اور ضرور چاہتا ہے اور اگر بعض سینئر افسران کے یخ بستہ خون نے جوش نہ مارا تو کوئی نیا چہرہ سامنے آئے گا اور سب کچھ تلپٹ کر ڈالے گا؟ اب بندہ یہ پوچھے کہ بابا جی، ایک تو آپ کی چوری پکڑی گئی ہے اور وہ بھی آپ ہی کے پیٹی بھائی کی گواہی سے مگر آپ ہیں کہ خواہمخواہ سینہ زوری کرتے چلے جا رہے ہیں کس حکیم نے کہا تھا کہ یونس حبیب جیسے بدنام زمانہ شخص سے کروڑوں اینٹھ کر سیاسی حکومتیں گراتے پھرو، ہیں جی؟ ہم اس بات کو بھی ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتے کہ اسلم بیگ اور اسد درانی جیسوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا کہنے والوں نے شاید کبھی آرمی ایکٹ کو دیکھنے اور پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ دفعہ اکتیس۔ اے سے شروع کریں اور کم از کم پانچ دفعات ایسی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر آپ کو مکمل افاقہ ہو جائے گا۔ اسی طرح این ایل سی والے کیس کی بھی سنتے جایئے۔ اس بند فائل کی خوب چھانٹ پھٹک کرنے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کا کیس تو مضبوط ہے اور انہیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے ہی نہیں میرٹ پر بھی بری کیا جا سکتا ہے۔ البتہ دیگر دو عدد جرنیل صاحبان بارے ہم کسی خوش گمانی کا شکار ہرگز نہیں ہیں۔ ریلوے اراضی سکینڈل جس کے تحت ”انہی کے گھر میں ڈانگ“ پھیرتے ہوئے 18 ارب روپے کا مبینہ چونا بیچاری سرکار کو لگایا گیا، کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ قصہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں البتہ لیفٹیننٹ جنرل سعید الظفر کے ایک انتہائی مخولیہ بیان نے ہم جیسے لاتعداد لوگوں کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ آپ بیان صفائی کے لئے تشریف لائے تو آپ کی رعونت دیدنی تھی۔ یاد رہے کہ مشرف کے دورہ کولمبو کے دوران آپ ہی قائم مقام آرمی چیف تھے۔ اس لئے آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دوران جواب طلبی آپ کے ساتھ ایک ملزم کا سا برتاؤ بھی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ باہر آتے ہی آپ نے ٹی وی کیمرے کے سامنے پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”خدا را، الماس بوبی# کو ووٹ دے دینا مگر ان سیاسی جماعتوں کو ووٹ مت دینا!“ ہم جنرل صاحب کے اس احمقانہ مائنڈ سیٹ کا ماتم ہی کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ بھئی تمہیں کون کہہ رہا ہے کہ تم ہی چور ہو۔ مگر تم سے جواب طلبی کا حق تو عوام محفوظ رکھتے ہیں کہ نہیں؟ اور جواب طلبی بھی دس بارہ کروڑ کی نہیں، 18 ارب روپے کی ہم جانتے ہیں کہ آپ کا تعلق انتہائی متوسط اور سفید پوش گھرانے سے ہے اور آپ کا کیریئر خاصا بے داغ ہے مگر یہ بات بھی طے ہے کہ ”چوری “ یا بے ضابطگی تو ہوئی ہے اور ہوئی بھی اس ادارے میں کہ جس کے آپ مدارالمہام تھے۔ اب آپ چوں کریں یا چاں کریں، جواب تو بہرحال دینا ہی پڑے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جسٹس رمدے# نے کیا سوچ کر آپ کے مدعی کو ڈانٹا اور آپ کو بری کر دیا۔ مگر ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کہ اس کیس کو ازسر نو کھنگالنے کی ضرورت ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ الماس بوبی# والا بیان دے کر آپ نے ثابت کر دیا تھا کہ آپ کی ”پاٹی پرانی“ اور پریشان سوچ آج بھی ستر اور اسی کی دہانی میں ہی کہیں اٹکی ہوئی ہے!
تازہ ترین