• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1988ء کی طرح 2018ء میں بھی پاکستان دشمن طاقتیں پاکستان میں الیکشن کا انعقاد نہیں چاہتی تھیں مگر وہ ناکام ہوئیں اور پاکستان انتخابات کرانے میں کامیاب ہوگیا، اگرچہ کوئٹہ میں الیکشن کے دن بھی راکٹ سے حملہ کیا گیا، جس میں تین سیکورٹی اہلکار اور ایک شہری شہید ہوگئے جبکہ 13زخمی ہوئے مگر کچھ گھنٹوں بعد پولنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو پاکستانی قوم کے عزم و ہمت کا مظہر ہے۔ پاکستان دشمن عناصر یہ کیوں چاہتے تھے کہ پاکستان میں الیکشن نہ ہوں اسکا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ وہ ملک کو عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت میں رکھنے کے خواہشمند تھےمگر الیکشن کے بعد یہ بے یقینی کی کیفیت ختم ہوگئی۔ ان انتخابات میں بڑے بڑے لیڈر ہار گئے سوائے عمران خان کے جو تین صوبوں میں پانچ سیٹوں پر لڑ رہے تھے وہ پانچوں نشستوں پر کامیاب ہوگئے جبکہ ہارنے والوں میں چوہدری نثار علی خان، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر طارق فضل چوہدری، رانا ثنا اللہ، عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق، ، امیر مقام، اسفندیار ولی، ذوالفقار مرزا، ناہید خان، اعجاز الحق اور دیگر کئی اہم شخصیات شامل ہیں۔ عمران خان کراچی سے خود بھی جیتے اور 14مزید نشستیں بھی اُن کو مل گئیں، اس طرح کراچی کی 21 نشستوں میں سے عمران خان کو اتنی نشستیں ملنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کا شہر اب ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا شہر بن گیا ہے، بلاول بھٹو صاحب لیاری سے ناکام ہوگئے، لیاری بھی اب بھٹو کے قبضے سے نکل گیاجبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکز لاہور میں بھی پی ٹی آئی در آئی ہے، اس کے علاوہ عمران خان کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیابی نصیب ہوئی اور پنجاب اسمبلی میں بھی اُس کی کامیابی قابل رشک ہے ،امکان ہے کہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کو 74 نشستوں کے ملنے کے بعد پی پی پی سندھ میں بلاشرکت غیر ےحکومت بنا سکے گی۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نے 11نشستیں حاصل کرکے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے اور وہاں مخلوط حکومت بن جائے گی اور وزیراعلیٰ عوامی پارٹی کا ہی ہوگا تاہم پنجاب میں اگرچہ پی ٹی آئی حکومت بناسکتی ہے مگر وہاں مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے حکومت پر دبائو بڑھانے کی کوشش کرے گی اور حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا، اسی طرح سندھ اسمبلی میں کراچی سے پی ٹی آئی نے 21 اور متحدہ نے 10 نشستیں حاصل کرلی ہیں، یوں یہاں پی پی کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کو بھی سخت اپوزیشن کا سامنا رہے گا۔ عمران خان نے اپنی جیت پر قوم سے خطاب کیا، جس کو عالمی میڈیا نے بروقت اور لائیو دکھایا۔ انہوںنےکہا کہ اُن کی حکومت کی اولین ترجیحات میں چین سے تعلقات کو مذید مضبوط کرنا، افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا، انہوں نے کہا کہ وہ ایران سے تعلقات کو فروغ دیں گے، سعودی عرب سے اپنے تعلقات بڑھائیں گے۔ پاک بھارت تجارت میں اضافہ اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم اُن کے لیڈر ہیں، وہ نئے پاکستان کا خواب پورا کریں گے، قانون کی بالادستی قائم کی جائے گی اور کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ٹیکس کلچر کو اچھا، اینٹی کرپشن اور ایف بی آئی اور نیب کو مضبوط کریں گے، ٹیکس کے پیسوں پر عیاشی کی روایت کو توڑ دیں گے، وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا، جہاں انہوں نے انتخابات کو شفاف قرار دیا وہاں نواز شریف نے کہا کہ الیکشن چوری کرلئے گئے، اگرچہ عمران خان نے کہا کہ مخالفین جو حلقے بھی کہیں گے اُن پر دوبارہ گنتی کرا دیں گے۔ متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن نے اس الیکشن کیخلاف پی این اے کی طرح تحریک چلانے کا اعلان کیا، میرے خیال میں ایسا نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ اس سطح کی شخصیت نہیں ہیں کہ عوام کو قابل قبول ہوں، اگرچہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں کچھ بے چینی کے آثار اس لئے نظر آرہے ہیں کہ انتخابات کے نتائج بہت دیر سے آئے، کچھ حلقوں میں پولنگ اسٹیشن میں رزلٹ کا فارم نتیجہ نہیں دیا۔ کچھ حلقوں میں سے یہ شکایات آئی ہیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا، پھر الیکشن کمیشن کا کمپیوٹر نظام بیٹھ گیا، اس پر یہ خیال ہے کہ کہیں یہ سائبر حملہ نہ ہواہو، اس کا امکان موجود تھا اور ہم نے برملا اس کا اظہار کیا تھا، کچھ حلقے اس کا الزام پنجاب کی سابقہ حکومت پر ڈال رہے ہیں کہ انہوں نے کمپیوٹر نظام فراہم کیا تھا اسلئے اُن کے کارندوں نے اسے معذور کردیا۔اُن کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے بیان دیاہے ان کہنا تھا کہ 22سال کی جدوجہد اور عزم کے بعد میرے بیٹوں کے والد پاکستان کے وزیراعظم ہونگے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کیوں سیاست میں آئے تھے، یہ ایک دلچسپ یاد دہانی ہے کہ اس پر سوال ہوگا کہ کس وجہ سے سیاست میں آئے تھے، اگر وہ خود اس کی وضاحت کر دیتیں تو اچھا تھا، ورنہ اس بیان کی مختلف توجیہات پیش کی جائیں گی، ایک بات ضرور اہم ہے کہ پاکستان اس وقت کرپشن سے لتھڑا ہوا ہے اسکو عمران خان کس طرح صاف کرتے ہیںوہ دیکھنے کی بات ہوگی، اگر وہ کرپشن پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوجائیگا۔ اگرچہ عمران خان کی جدوجہد کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ جس بات کی ٹھان لیتے ہیں کر دکھاتے ہیں، اگر ایسا انہوں نے کرلیا تو واقعی ایک بڑا معرکہ سر کرنے کے مترادف ہوگا ۔ اُنکو حکومت کی تشکیل کیلئے اتحادی درکار نہیں ہونگا کیونکہ خواتین کی 29مخصوص نشستوں اور اقلیتوں کی 5نشستیں ملنے پر اُنکی عددی قوت 168 ہو جائیگی، اسکے بعد انہیں 4ارکان کی ضرورت پڑے گی اور وہ آزاد امیدواروں کے ذریعے پورا کرسکتے ہیں یعنی وہ کسی کی بلیک میلنگ یا دبائو سے بچ جائینگے تاہم پھر بھی اُن کی عددی قوت اتنی نہیں ہوگی کہ اُن کی حکومت کو مضبوط قرار دیا جائے، حکمرانی اور اپوزیشن میں بڑا فرق ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قدر صلاحیتوں کے مالک ہیں اور کس قدر قوت فیصلہ اُن میں موجود ہے کہ وہ بڑی بڑی طاقتور شخصیات کو زیر کرلیں اور غیرملکی دبائو کو برداشت کرلیں کیونکہ امریکہ کی حمایت کے بغیر چین اور روس کیساتھ ملکر عالمی سیاست میں پاکستان کی جگہ بنا لینا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اُنکے پاس ایک اچھی ٹیم موجود ہے، معیشت اور خارجہ امور پر کس قدر کامیابی حاصل کرینگے یہ وقت بتائے گا اور یہ کہ اُنکی صلاحیتوں کا اظہار بھی ہوگا تاہم یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہوگئے ہیں اور عالمی قوتیں ان کو ملتوی کرانے میں ناکام ہوگئیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین