• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام تر خدشات ، افواہوں اور خلائی مخلوق کی دخل اندازی کے الزامات کے باوجود الیکشن 2018ء کا بروقت انعقاد پاکستانی قوم کی جیت ہے، اس کیلئے پوری قوم کیساتھ ساتھ خصوصی طور پر چیف الیکشن کمشنر ، چیف آف دی آرمی م سٹاف ، چیف جسٹس آف پاکستان اور ملک کی سلامتی کے ذمہ دارحساس ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مجموعی طور پر یہ انتخابات پہلے کی نسبت پُرامن ماحول میں زیادہ شفاف طریقے سے ہوئے ،صرف کوئٹہ کا ایک خود کش حملہ 32 انسانی جانیں لے گیا۔یورپی مبصرین اور فافن نے الیکشن کو شفاف قرار دیا ہے۔ اب تک صرف الیکشن کمیشن کو مختلف چھوٹی موٹی بے قاعدگیوں کی 645 شکایات موصول ہوئیں ، جو 85ہزار پولنگ اسٹیشن کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ گو الیکشن سسٹم اور طریقہ کار میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ، جن کا تفصیل سے اظہار پھر کروں گا ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات کے بعد ہمیشہ ہارنیوالی پارٹیاں دھاندلی کا شور مچاتی رہی ہیں۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے تو 25جولائی کی رات ساڑھے گیارہ بجے ہی پریس کانفرنس کر کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا اور دلیل یہ دی کہ نتائج فارم 45کے بجائے سادہ کاغذ پر دیئے گئے اور یہ بھی کہا کہ ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا ۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے تو پھر انہیں جن نشستوں پر بھاری کامیابی ہوئی وہ سادھے کاغذپر کیسے قبول کر لئے ۔ الیکشن کے دو روز بعد مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کی زیرصدارت آل پارٹیز کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد کیا گیا ۔جس میں ایم ایم اے ، اے این پی، ن لیگ، محمود خان اچکزئی نے شرکت کی جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم نے شرکت سے انکار کردیا ، گو ان دونوں جماعتوں نے بھی نتائج کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔
کانفرنس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اعلامیہ جاری کیا کہ سوائے ن لیگ کے اے پی سی میں شامل تمام جماعتیں حلف نہیں اٹھائیں گی جبکہ نئے انتخابات کیلئے تحریک چلائی جائیگی ۔ ماہرین اور عام پاکستانیوں کی رائے ہے کہ ایک تو اب 1977نہیں دوسرا یہ کہ ان سب کو عوام نے مسترد کیا ہے، اسلئے ان مسترد شدہ جماعتوں کے ڈرامے میں پاکستانی قوم نہیں آسکتی۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے فوری طور پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے انتخابات کو سو فیصد شفاف اور فیئر قرار دیا اور کہاکہ اگر کسی کو شکایات ہیں تو وہ بمعہ ثبوت الیکشن کمیشن کے نوٹس میں لائے جس پر فوری ایکشن بھی لیا جائے گا ۔ اب تک 30سے زائد حلقوں میں دوبارہ گنتی ہورہی ہے چونکہ ان حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد جیتنے والے ووٹوں سے بہت زیادہ ہے۔ اسلئے مسترد شدہ ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرانا ضروری ہے ۔ نہیں تو یہ الیکشن دھاندلی زدہ ہونگے۔ جہاں تک فارم 45کا تعلق ہے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد پولنگ ایجنٹس کو اس پر رزلٹ جاری کیا جائیگا جبکہ پریزائیڈنگ آفیسرز آر ٹی ایس کے ذریعے یہ رزلٹ ریٹرننگ آفیسرز کو بھجوائیں گے لیکن نظام میں خرابی کی وجہ سے کوئی ایک نتیجہ بھی بروقت ریٹرننگ آفیسر ز تک نہ پہنچ سکا اور چیف الیکشن کمشنر26جولائی کی صبح چار بجے سرکاری طور پر پہلے نتیجے کا اعلان کر سکے۔ چونکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ یہ سسٹم آزمایا جا رہا تھا ۔ الیکشن سے پہلے اس کا عملی مظاہرہ بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر ماہرین نے ان خدشات کا اظہار بھی کیا کہ سسٹم ہیک ہو سکتا ہے ۔ اسلئے الیکشن کمیشن کو صرف اس سسٹم پر انحصار کرنے کی بجائے روایتی طریقے سے بھی ساتھ ساتھ رزلٹ وصول کرنے کی ہدایت کرنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہ کیا گیا ۔ ریٹرننگ آفیسرز کی جانب سے جو نتائج امیدواروں کو دیئے گئے ہیں اگر تو کوئی امیدوار اور سیاسی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ یہ نتائج دھاندلی سے تیار کئے گئے ہیں تو ثبوتوں کے ساتھ فوری طور پر سامنے لانے چاہئیں کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ دھاندلی کو چھپایا جا سکے اور قوم خاموش ہوجائے۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف قومی اسمبلی میں 115 نشستیں لے کر اس پوزیشن میں ہے کہ حکومت بنائے ۔ کیونکہ ق لیگ بھی تحریک انصاف کی اتحادی ہے جبکہ زیادہ تر آزاد اور دوسری پارٹیوں کے افراد تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں ۔اسی طرح کے پی،بلوچستان اور پنجاب میں بھی تحریک انصاف حکومت بنانے کیلئے سرگرم ہے ۔ الیکشن نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ قوم اب بڑی باشعور ہو چکی ہے وہ ملک میں استحکام اور بہتر تبدیلی چاہتی ہے ۔ بڑے بڑے بُت گر چکے ہیں ۔ شہباز شریف صرف اپنی گھر کی سیٹ بچاسکے ، انہیں سوات، ڈی جی خان اور کراچی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ، بلاول بھٹو اپنی لیاری اور مالاکنڈ کی سیٹ ہار چکے۔ شاہد خاقان اسلام آباد اور مری دونوں سیٹوں سے ہار گئے ، مولانا فضل الرحمٰن ،اکرم درانی ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق ، غلام احمد بلور ، فاروق ستار، یوسف رضا گیلانی ، رانا ثنا ء اللہ ، سعد رفیق ، چوہدری نثار، محمود خان اچکزئی ، ارباب غلام رحیم سابق وزیراعلیٰ اور کئی دوسرے اہم رہنمائوں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ۔ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف کے بیانیے جو دراصل ملک کی سلامتی کے خلاف تھا ،کو یکسر مسترد کر دیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی غلط ثابت کردیا کہ خلائی مخلوق کا عمل دخل تھا کیونکہ چوہدری نثار پر الزامات لگتے رہے کہ وہ خلائی مخلوق کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں مگر اُن کو تین نشستوں پر شکست ہوئی ۔ پاک سرزمین پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک یہی پروپیگنڈہ کیا جاتا رہاکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے مگر اس کو ایک بھی سیٹ نہ مل سکی۔ تحریک لبیک ، اللہ اکبر تحریک اور جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے والوں کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا کہ یہ سب خلائی مخلوق کے چہرے ہیں اور انہیں فتح دلوا کر سنجرانی فارمولے کی طرح کٹھ پتلی حکومت قائم کی جائے گی۔ لیکن ایسا کچھ دکھائی نہ دیا ، اسلئے کہ اب عوام کا ایک بہت بڑا پڑھا لکھا طبقہ خصوصی طور پر اور عام پاکستانی بڑا باشعور ہوچکا ہے۔ وہ واقعتاً اسٹیٹس کو سیاست کو نہ صرف توڑنا چاہتا ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ملک کے اندر بہتر تبدیلی چاہتا ہے اور یہ ٹرینڈ پورے ملک میں نظر آیا ،ووٹرز نے عمران خان کو ہر سیٹ سے جتا کر اُن کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے ۔
انشاء اللہ 15اگست 2018ء تک پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہو نے کے بعد تحریک انصاف کے پہلے سو دنوں کا کائونٹ ڈائون شروع ہو جائے گا۔ گو عمران خان نے نتائج آنے کے بعد پہلی تقریر میں اپنی حکومت کے جو بنیادی اصول دیئے ہیں اس سے ایک عام محب وطن بہت خوش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کو عملی صورت دینے میں کیااقدامات اٹھاتے ہیں ، چونکہ انہیں اسی ٹیم کیساتھ کام کرنا ہے جن کی اکثریت اسٹیٹس کو کی حامی رہی ہے ۔ اسلئے صحیح سمت سفر شروع کرنے کیلئے بہت محتاط انداز اختیار کرنا ہوگا اور ’’ یوٹرن ‘‘ اور غلیظ زبان کی سیاست کا جو تاثر ہے اسے بھی فوری طور پر ختم کر کے ایک ذمہ دار کیپٹن کی طرح عمران خان کو اپنی ٹیم کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے ۔ اُن کیلئے پہلے 100دنوں کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوگا کہ کیا وہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنا سکیں گے ۔ اس مرتبہ انہیں خاموش ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ دیئے ہیں۔ ان خاموش ووٹرز کا اب عمران خان کیلئے یہ پیغام بھی ہے کہ وہ کسی ایسے اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے جو ملکی سلامتی کیخلاف اٹھایا جارہا ہوگا بلکہ اس کے خلاف بلند آواز کیساتھ میدان میں ہونگے ۔ عمران خان کو سب سے طاقتور اُس خاموش آواز پر کان دھرنا ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین