• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی نہ ختم ہونےوالی مشکلات اور ہمارا قومی نقطہ نظر

کافی عرصےسے ہم مختلف غیرملکی دشمن طاقتوں کی جانب سے نہ ختم ہونے والی مداخلت دیکھ رہے ہیں اس کا مقصدہمیشہ پاکستان کا منفی تاثر برقرار رکھنا ہے اور یہ سب ان کے علاقائی سیاسی مقاصدکیلئےہے۔ ہماری لیڈرشپ اس خفیہ ایجنڈے کو دیکھ سکتی تھی اور اس کا شکار ہونے سے بچ سکتی اور قوم کو مشکلات سے بچا سکتی تھی۔ ہم ان مشکلات میں اس لیے پھنسے ہیں کیونکہ ہر آنےوالی حکومت قوم کیلئے طویل المدتی پالیسیاں بنانے میں ناکام رہیں۔ ہم واشنگٹن کی جانب ایسے دیکھتےرہے جیسے یہ ہمارا آقاہے ۔ لہذا واشنگٹن اب ہمیں کمتر ملک سمجھتا ہے۔ امریکا نے ہمارے خلاف مہم چلائی جو ایف اے ٹی ایف میں ہمارے خلاف امریکا کے رویّے سے واضح ہوئی۔ میں 14سال کا تھاجب بھارت نے 1965ء میں پاکستان پر حملہ کیا اور ہم اس حملے سے براہ راست متاثر ہوئے کیونکہ ہمارا گائوں سرحد کے بالکل قریب تھا۔ میرے خاندان کو دیگر کئی خاندانوں کے ساتھ فوج کی ہدایات کے مطابق گھربارچھوڑنا پڑا ۔ اس کی وجہ بھارتی ائیرفورس اور بری فوج کی جانب سے بھاری شیلنگ تھی۔ میں ایک بچہ ہونےکےباعث حملے کو سمجھنے سے قاصر تھااور گائوں کے بڑے بھی مجھے سمجھانے سے قاصر تھےلیکن یہ سوال خاموش ہوگیا جو بعد میں مجھے سمجھ آیا۔ ہم جنگ ستمبر جیت گئے لیکن بحیثیت قوم استحکام حاصل کر سکے نا ہی ملک میں اتحاد اور رواداری کو پروان چڑھا سکے۔ 71 ء میں ہم نے پاکستان کی خودمختاری پر ایک اور حملہ دیکھا جس میں آدھا ملک رہ گیا ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ہمیں مزید کمزور کردیا۔میں اس وقت گریجویشن میں تھا اور سمجھ سکتا تھا کہ بھارت ہمیں ختم کرنا چاہتا ہے ، ہم اس صدمے کو سہہ گئے لیکن اس کی وجہ سے قوم پر دبائو بڑھ گیا اور قیادت میں اعتماد کم ہوگیا ۔ سب سے بڑا جھٹکا ملک کی بدترین معاشی صورتحال تھی ، ہم پائیدار اور مستحکم معیشت کھڑی کرنے کےبجائے قرضوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ انہی قرضوں کے نتیجے میںآج ہم 200ارب ڈالرکے مقروض ہیں اور اس کی وجہ سے ہی ہمارے معاشی اور انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بڑھتی مہنگائی،کم ہوتی شرح نمو اور مزید مقامی اور بیرونی قرضوں کی وجہ سے روپے کی قدر مستحکم نہیں ہو رہی ۔ اسی کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور عام آدمی متاثر ہو رہا ہے۔حکومتوں اور معاشی مشیروں کی کارکردگی ہمیشہ قابل رحم رہی۔انہوں نے ہمیشہ پہلے سے موجود قرضوں کی دائیگی کا حل مزید قرضے حاصل کرنے سے نکالا لیکن یہ نہ سوچا کہ قرضوں کی دلدل سے ہمیشہ کیلئے نکلا جائے۔عالمی مالیاتی ادارے بشمول آئی ایم ایف عالمی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں اور ان کے خفیہ ایجنڈوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مقروض ممالک کے مالیاتی معاملات کا بالواسطہ کنٹرو ل حاصل کر لیا جائے اور وہاں اپنی مرضی سے ٹیکس نافذ کیے جائیں۔ ہمارے قومی اثاثے پہلے ہی ان اداروں کے پاس گروی ہیں۔قرضوں کے عوض ہمارے اہم قومی ادارے جناح ائرپورٹ کراچی، فیصل آباد پنڈی بھٹیاںموٹر وے، اسلام آباد پشاور موٹروے ، اسلام آباد لاہور موٹر وے، پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور ریڈیو پاکستان عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں۔ جن کامقصد ملک کو عدم استحکام سے دو چار کرنا ہے اور اب مغرب کی نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہیں۔ القاعدہ، طالبان اور داعش کا وجود اسی بڑے منصوبے کا حصہ تھا اور بھارت کو اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا۔ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس بھی بھارتی ایجنسی’’را‘‘ کے ساتھ ہاتھ ملا چکی ہے۔ حالیہ سراٹھاتی ہوئی دہشتگردی کی لہر بھی اسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہے۔ نائن الیون کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا اور یہ نقصان ابھی تک ہم اٹھا رہے ہیں گو کہ کوئی بھی پاکستانی اس حملے میں ملوث نہیں تھا۔ تحقیقات میں پتا چلا تھا کہ 15لڑکے مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتے تھے جو اس حملے میں ملوث تھے، پھر بھی امریکا کے ان ممالک کے ساتھ پاکستان کی نسبت بہتر تعلقات ہیں۔ یہ معاندانہ اور انتقامی ذہنیت ہے جو پاکستان کو نشانہ بنانے پر تلی ہے۔ ایک دوسرا واقعہ دیکھیے، 22دسمبر2001ء کو ایک القاعدہ دہشتگرد رچرڈ ریڈ یو کے سے امریکا گیا ، اس نے اپنے جوتوں میں دھماکا خیز مواد چھپا رکھا تھا،جب وہ جہاز میں دھماکا نہ کر سکا تومسافروں نے اسے پکڑلیا اور بعد ازاں اسے تین دفعہ عمر قید اور 110سال کی سزا ہوئی، و ہ شخص بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ اورسی آئی اے کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھتا تھا۔ امریکا اس کےپاکستان کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کو ثابت نہ کرسکا۔65ء میں جب بھارت کی دوسری تمام ایجنسیاں ناکام ہوگئیں تو ’’را‘‘ کی تخلیق کے پیچھے انڈیا کا صرف اور صرف یہی ایجنڈا رہا کہ کسی طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچارکیا جائے۔ یہ تنظیم 250افراد اور4لاکھ ڈالر کے سرمائے سے شروع ہوئی اوراب اس میں ہزاروں اہلکار کام کرتے ہیں اور بجٹ خفیہ رکھا جاتا ہے۔ یہ بات اب پوشیدہ نہیں رہی کہ’’را‘‘ کی تخلیق میں سی آئی اے نے مدد دی اور یہ اب بھی پاکستان میں دہشت گردی کرنے میں اس کی مدد کرتی ہے۔’’را‘‘ نے بلوچستان میں انتشار پیدا کرنے کیلئے بجٹ مختص کر رکھا ہے۔تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جائے۔’’را‘‘ نے بنگلہ دیش کی تخلیق میں مرکزی کردارادا کیا۔ اس نے علیحدگی پسند بنگالیوں کو ٹریننگ اور اسلحہ دیا اور مکتی باہنی بنا کر پاکستانی فوج کے خلاف لڑایا۔ یہ تنظیم پروکیسز اوردہشت گرد گروپوں کے ذریعے پاکستان میں خفیہ آپریشن کرتی ہے۔ اب یہ امریکا کو استعمال کرتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستانی معیشت کو مزید نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔’’را‘‘ نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالنے کیلئے لابی کی، 31جنوری کو بھارت کا سیکرٹری سطح کا ایک وفد ماسکو پہنچا جس نے روس کو ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی حمایت کرنے سے روکا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بذات خود کئی خلیجی ممالک کو ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی حمایت نہ کرنے کا کہا۔ ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے مطابق کسی مسئلے پر کم از کم 3ووٹ خلاف پڑیں تو اسے زیربحث نہیں لایا جا سکتا جبکہ پاکستان کے معاملے میں امریکا نے سعودی عرب اور ترکی پر کافی محنت کی اور بھارت نے چین کے ساتھ بات چیت کی۔ بالآخر بھارت نے چین کے ساتھ یہ ڈیل کرلی کہ مستقبل میں ایف اے ٹی ایف کی رکنیت کے لئے اس کی مدد کی جائے گی۔ اس طرح ان تینوں ممالک کے اعتراضات ختم ہوگئے اور پاکستان کے خلاف پرپوزل کامیاب ہوگیا۔ سادہ الفاظ میں یہ ہماری ناکامی تھی ۔دوست ممالک بھی مدد نہ کرسکے۔ اسی طرح کل بھوشن کے معاملے میں ہم ناکام ہوئے اور نریندر مودی کو جنگی مجرم کے طور پر عالمی عدالت انصاف میں کھڑا نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے ہم نے دفاعی پالیسی اختیار کی۔بھارتی رہنمائوں نے بھی منافقت کا کھیل کھیلا اور ’’را‘‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ بھارت کی پالیسی مغرب کے وار آن ٹیرر نامی پروپیگنڈے کے ساتھ ملی اور نتیجے کے طور پر پاکستان میں عدم استحکام اور دہشتگردی سے سرمایہ کار ملک سے بھاگ گئے جس سے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہمیں سیاسی ، معاشی اور عالمی سطح پر مشکلات صرف اور صرف ایک قومی نقطہ نظر پر نہ ہونے کی وجہ سے درپیش ہیں۔ ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے علاوہ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہم 120ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں اور گزشتہ 15سالوں میں 74ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر پاکستان 126 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت پر بوجھ پڑا وہاں سکیورٹی کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔اپنے قیام سے لیکر پاکستان مسلسل مشکلات کا شکار رہا ہے اوربھارت نے ہمیں آج تک تسلیم ہی نہیں کیااور ہمیشہ نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ بحیثیت قوم ہم نے قرضے لئے ، دنیا سے علیحدہ رہے ، سوویت یونین کے خلاف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنے اور امریکی سی آئی اے کے تیار کردہ دہشت گردو ں کی وجہ سے شدید نقصان اٹھا چکے ہیں۔کیا یہ ختم ہونیوالی مشکلات کبھی ختم ہوجائیں گی؟یا ہر نئی حکومت کے پاس سوائے کشکول لیکر بیرونی قرضے مانگنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔26جون 2018ء کو میں نے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ یہ الیکشن آزاد امیدواروں کا ہو گا اور وہی وزیر اعظم کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کریں گےاور اب وہی صورتحال درپیش ہے کہ واضح مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی مدد درکار ہے۔اس حکومت کو بھی معمول کی مشکلات کے ساتھ آغاز کرنا پڑ رہا ہے اور یہ بھی مسائل کا شکار رہے گی کیونکہ مالیاتی معاملات سے متعلق پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں میں رہیں گی ۔ دیکھئے نئی حکومت کیا تبدیلی لاتی ہے۔

تازہ ترین