• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آج سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے شہر ایتھنز کا ایک منظر ہے، شہر کے معززین کے روبرو ایک 71سالہ بوڑھے سنگتراش کا مقدمہ پیش ہے، سقراط نامی اس بوڑھے آدمی کے خلاف الزام ہے کہ وہ اپنے گمراہ کن فلسفیانہ نظریات سے نوجوان نسل کو ورغلاتا ہے، بوڑھے فلسفی کو کلمہ حق بلند کرنے کی پاداش میں بطور سزا خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے کو دیا جاتا ہے جسے وہ بخوشی پی کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوجاتا ہے۔ سقراط کو دنیائے فلسفہ کا سب سے عظیم ، جلیل المرتبت اور قدیمی معلم مانا جاناہے جو فطرتاً نہایت اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا مالک ، منصف مزاج، انکساری کا پیکر اور حق پرست انسان تھا۔ کیا یہ حیران کُن امر نہیں کہ آج ہزاروں سال بیت جانے کے باوجود سقراط کا نام زندہ ہے جبکہ اسے موت کی سزا سنانے والے تاریخ کے اندھیرے میں گُم ہوچکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سقراط کو ابدی حیات بخشنےمیں اسکے قابل ترین شاگرد افلاطون کا کلیدی کردار ہے جس نے اپنے قلم سے سقراط کے خیالات کورہتی دنیا تک کیلئے عام کردیا۔اسی طرح یہ قلم کی بدولت ہی ممکن ہوسکا کہ تمام مذاہب کی مقدس تعلیمات کتابی صورت میں انسانوں کو خدا کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہنے کیلئے گائیڈلائن فراہم کرتی ہیں، عالمی تاریخ کا سب سے موثر معاہدہ امن میثاق ِ مدینہ بھی تمام فریقین کے مابین تحریری حالت میں قلمبند ہوا۔اگر آج سینکڑوں سال بیت جانے کے باوجودسقراط،بقراط، افلاطون، کنفیوشس، چانکیہ جی جیسے فلسفیوں کے نام زندہ ہیں تو اسکی بنیادی وجہ انکی تعلیمات کا کتابی شکل میں ہونا ہے، شیکسپیئرکو اس کے قلم نے دنیا کے عظیم ترین ڈرامہ نگار اور مصنف کا درجہ دلوایا،دنیا بھر کے لکھاریوں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں، ادیبوں، نقادوں اور مزاح نگاروں کو قلم کے بل بوتے پر دوام عطا ہوا۔اگر آج نیوٹن، آئن سٹائن اور ڈارون کو لوگ یاد کرتے ہیں تو یہ سب قلم ہی کی مرہون منت ہے ۔یہ ایک فطری امر ہے کہ ہر انسان اپنے خیالات سے دوسروں کو روشناس کرانا چاہتا ہے، اسکی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے جذبات و احساسات کی قدر کریں ۔ قدیم دور میں لوگوں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کیلئے تلوار کا استعمال کیا گیا، آج بھی مختلف ممالک کے مابین مہلک ہتھیاروں کی دوڑ جسکی لاٹھی اسکی بھینس کی روایتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے لیکن ناقابلِ فراموش حقیقت یہ ہے کہ طاقت کے زور پر کسی کی مجبوری کا وقتی فائدہ تو اٹھایاجاسکتا ہے یا کسی کمزور ملک کو دبا ؤ میں لاکر اپنی بات تو منوا ئی جاسکتی ہے لیکن اخلاقی حمایت کی عدم موجودگی میں ایک نہ ایک دن شان و شوکت قصہ ماضی بن جاتی ہے۔ ہمارے سامنے دنیا کے ایسے بے شمار ظالم اور طاقتور حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں جنکی تلوار کے آگے ایک دنیا سرنگوں تھی لیکن آج انکا کوئی نام لیوا موجود نہیں،آج انکی اپنی حقیقی اولاد اپنے آباؤ اجداد کے منفی کارناموں کیوجہ سے اپنا شجرہ نصب جوڑنا پسند نہیں کرتی۔ انسانی فطرت پر جتنا زیادہ محبت بھرے الفاظ کا اثر ہوتا ہے، شاید ہی دنیا میں کسی اوربا ت یا دوا کا اتنا اثر ہوتا ہو،یہی وجہ ہے کہ خطہ مشرق ہو یا مغرب، دنیا بھر کے مصلحین نے اپنا پیغام پھیلانے کیلئے نرم مزاجی، برداشت اور رواداری سے کام لیا، ہر دور میںاہل علم اورفلسفیوں نے قلم کا سہارا لیتے ہوئے ثابت کیا کہ قلم سے معاشرتی اصلاح نہایت احسن انداز میں کی جا سکتی ہے بشرطیکہ وہ حق اور سچ بیان کرے۔ظالم سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو قلم کا موثر استعمال کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا رہا ہے، جنگ کی تباہ کاریوں کے خلاف انسانیت کا درد رکھنے والے شعراء کرام، ادیب اور لکھاری اپنے قلم سے لوگوں کاخون گرماتے رہے ہیں اور مظلوم اقوام کیلئے امید کی کرن ثابت ہوئے۔ انگریز سامراج نے برصغیر پاک و ہند پر اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھنے کی خاطر ظالمانہ قوانین متعارف کروائے لیکن وہ بھی آخرکار قلم کے سامنے ڈھیر ہوگئے، ریشمی رومال تحریک واضح کرتی ہے کہ انگریز قلم کی طاقت سے کتنا زیادہ خائف تھا، تحریک آزادی کو تقویت فراہم کرنے میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا اہم کردار ہے جنکی لازوال شاعری نے لوگوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کیا، اسی طرح بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، حسرت موہانی،بھگت سنگھ جیسے اعلیٰ اکابرین کی خدمات کوکسی صورت نظراندازنہیں کیا جاسکتا جنہوں نے اپنے قلم سے شمعِ آزادی روشن رکھی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو دورہ کوئٹہ کے دوران مسلم لیگ کے منعقدہ اجلاس بتاریخ 3جولائی 1943ء کو مقامی رہنماؤں کی طرف سے تلوارکا روایتی تحفہ پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ تلوار جو آپ نے مجھے عنایت کی ہے، صرف حفاظت کے لئے اْٹھے گی لیکن فی الحال جو سب سے اہم امر ہے، وہ تعلیم ہے۔ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جائیے اور علم حاصل کیجئے۔ قائداعظم کا ماننا تھا کہ دورِ جدید کی مہذب اور تعلیم یافتہ قوموں کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے جس سے نہ صرف اپنا موقف منوایا جاسکتا ہے بلکہ قوموں کا مستقبل بھی یقینی طور پر روشن کیا جاسکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ زبان سے ادا کئے گئے الفاظ ہوائوں میں تحلیل ہو سکتے ہیں، ان کی مدت بھی کم ہوتی ہے اور لوگ بھول بھی سکتے ہیںلیکن اس کے مقابلے میں قلم کار کا ایک ایک لفظ بے پناہ سوچ اور تدبر کے بعد قلمبند ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنا انتخابی منشور تحریری حالت میں عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ بطور سینئر پارلیمنٹرین میں نے اپنی پارلیمانی جدوجہد میں خود مشاہدہ کیا ہے کہ اسمبلی کے فلور پر بہت سے معاملات زیربحث آتے ہیں لیکن پریس گیلری میں موجود صحافی دوست جس ایشو کو اپنے قلم سے رپورٹ کرتے ہیں ، وہ وسیع پیمانے پر اہمیت اور توجہ حاصل کرلیتا ہے، اسی طرح ایک اخبار میں شائع کردہ خبرنہایت موثر اندازمیں عوامی مسائل کا احاطہ کرتی ہے ۔ ایک سادہ کاغذ پر قلم سے لکھی درخواست انصاف کا حصول یقینی بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اگر تاریخ میں سقراط، افلاطون اور دیگر اعلیٰ شخصیات کے نام باقی ہیں تو اسکے پس پردہ عوامل میں قلم کی موجودگی ہے۔ ہمارے لئے اپنی ثقافت، مذہبی تعلیمات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور قومی ہیروزکی خدمات کواگلی نسل تک پہنچانا قلم کے سہارے کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہوسکتا۔اسی طرح پاناما ایشو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ کیسے صحافیوں کی عالمی تنظیم نے قلم کے ذریعے کرپشن میں ملوث دنیا بھر کی عالمی شخصیات کو بے نقاب کیا اور پھر دو تہائی اکثریت رکھنے والا پاکستان کا طاقتور ترین وزیراعظم قلم سے تحریر کردہ عدالتی فیصلے کی بدولت حکومت سے بے دخل ہوا۔ یہ سب بلا شبہ قلم کی طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے،اسی طرح قلم کا غلط استعمال معاشرے میں وسیع پیمانے پر بگاڑ کا باعث بھی بن سکتا ہے،اب جبکہ پاکستان میں عمران خان کی زیرقیادت تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے تومیری نظر میں حکومتی ترجیحات میں سرفہرست قلم کا صحیح استعمال، قلم کار صحافیوں کا تحفظ اور علم کا فروغ ہونا چاہئے، مجھے یقین ہے کہ آئندہ منتخب حکومت اگر عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگئی تو مورخ اپنے قلم سے تحریک انصاف کا نام سنہری حروف سے لکھے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر پاکستان میں بسنے والا ہر شہری لڑائی جھگڑوں سمیت دیگر فضولیات سے ترک تعلق کرکے قلم سے ناطہ جوڑ لے تو پاکستان کو دنیا کا عظیم ترین ملک بننے سے کوئی دنیاوی طاقت نہیں روک سکتی۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین