• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمشید ساحل

اس وقت دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ کمپیوٹر کے ایک کلک پر دنیا بھر میں پیش آنے والے حالات و واقعات آپ کے سامنے آجاتے ہیں۔ ایک وہ زمانہ تھا ، جب انسان غاروں میں آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ کر ایسے خاکے بنایا کرتا ، جو اس کی برتری پر دلالت کرتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ، انسان غاروں کے گھپ اندھیروں سے باہر روشنی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ، دن کے اجالوں کو روشنی تصور کرتا اور دن ڈھلتے ہی انسان، جو غاروں میں روشنی کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا ، پتھروں کو آپس میں رگڑنے لگا، وہی پتھر ، جو صدیوں سے برف کی مانند سرد پڑے تھے، اچانک شعلہ پیدا کرنے لگے، وہی آگ کا شعلہ، انسان کی بیداری کا سبب بنا۔ یوں غاروں میں بسنے والا بوڑھا انسان، ایک نئے جذبے سے جی اٹھا۔ وہ دن بھر کی مشقت اور ہمت سے دھیرے دھیرے ارتقاء کی منازل طے کرنے لگا۔

وقت گزرتا رہا، عہد بہ عہد انسان کا سفر جاری رہا۔ وہی انسان ، جو ایک عہد میں اپنے لباس سے ماورا تھا،زندگی کو ایک ڈھنگ اور سلیقے سے گزارنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف انسانوں کے میل جول اور آپس میں رابطوں نے ایک معاشرے کو جنم دیا۔ ان وقتوں میں ہر فرد کو فراغت کے لمحات میسر تھے، سو اس فراغت نے مختلف اور عمدہ روایتوں کی بنیادیں ڈالی ۔ جب مختلف معاشرےپروان چڑھے تو ایک قوم کے خدوخال نمایاں ہونے لگے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ، محبت و پیار اور مل بیٹھنے کی روایتیں پرورش پانے لگیں، ہر چھوٹے بڑے گائوں کے لوگ چوپال لگاکر، مختلف حالات و واقعات اور دن بھر کی اپنی مصروفیات کو ایک دوسرے سے بیان کرتے، یوں بات سے بات چلتی۔ رات ڈھلنےلگتی، ٹمٹماتے ستارے اونگھنے لگتے، بادلوں کے پیچھے چھپا چاند، ہر لمحہ بعد دھرتی پر چاندنی بکھیردیتا ، یوں گائوں میں بنے چوپال ، مختلف تہذیبوں کا استعارہ بنتے چلے گئے اور روایتیں پروان چڑھنے لگیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ، یہ روایتیں ایک گائوں سے ، دوسرے گائوں تک سفرکرنے لگیں، پھر تھوڑے ہی عرصے بعد شہروں میں آن بسیں، ان روایتوں کے امین ، ہر طبقۂ فکر کے لوگ تھے، ہر طبقہ ان روایتوں کی پرورش میں محبت اور خلوص کی مٹھاس ڈال رہا تھا، ایسے میں تاریخ نے دنیا کی بہت بڑی ہجرت دیکھی، جو قیامِ پاکستان کا سبب بنی، ہندوستان سے پاکستان کا سفر محضِ سفر ہی نہیں تھا، بلکہ دکھوں کا ایسا موڑ تھا ، جس سے لمحوں کی ابتدا نے صدیوں کا مزاج بدل ڈالا۔چوپال کی وہ روایتیں بڑے بڑے شہروں میں پروان چڑھنے لگیں، جہاں کراچی کا دبستان ،، ہر طبقۂ فکر کے اذہان کو فکری شعور دے رہا تھا تو وہاں لاہو ر میں ٹی ہائوس ، علم و ادب ، فکر و فن کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ادیب اور شاعر باقاعدگی سے ٹی ہائوس میں جمع ہوتے اور اپنی تخلیقات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے۔ یوں نئے پڑھنے لکھنے والے اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرتے۔ اس طرح نئے اذہان، علم و ادب کی جستجو میں آگے اور آگے سفر کرنے لگے، اس سے یہ سفر آنے والی نسلوں کی راہیں متعین کرتا رہا، یوں روایتیں پروان چڑھتی رہیں۔ بڑے بڑے تخلیق کار ، ان روایتوں کی پرورش میں اپنا حصہ ڈالتے رہے، یوں وقت کا پہیہ اپنی چال چلتا رہا۔ وہ لوگ ، جو گائوں میں چوپال لگائے ہنسی خوشی اپنا وقت گزارتے تھے، انہی لوگوں کی یہ روایتیں شہروں میں ڈیرے ڈالنے لگیں۔ یہ بڑے شہر، جن میں کراچی، لاہور ،کوئٹہ ، پشاور ، حیدرآباد، گوجرانوالہ، اسلام آباد اور ملتان شامل تھے۔ یہی لوگ ،جو ادب کی مختلف اصناف کو اپنے لئے ذریعۂ اظہار بناتے چلے آئے تھے، آپس میں مل بیٹھے، یوں ایک نئی دنیا آباد ہوگئی۔ کوئی غزل کہہ رہا تھا تو کوئی نظم کو اپنا ذریعۂ اظہار بنارہا تھا، اسی طرح نثر کے میدان میں طبع آزمائی نے اصنافِ ادب کو نئی منزلوں کے کئی کارواں دے دیئے۔ جینے اور زندگی بسر کرنے کے اس انداز نے سب کو ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا ، جہاں ایک نئی تہذیب جنم لے رہی تھی۔بڑے شہروں سے پرے، چھوٹے شہر بھی ایسی لازوال تہذیبوں کو پروان چڑھارہے تھے، ان شہروں میں مل بیٹھنے کی روایت کا اپنا انداز تھا۔ دیگر شہروں کی طرح لیہ، جو علمی اور ادبی شخصیات کا مرکز رہا ہے، ہر تخلیق کار کو اس کی تخلیق کے معیار پر پرکھنے لگا۔ پڑھنے لکھنے والے نوجوان سرِشام مختلف ہوٹلوں کے باہر رکھی چارپائیوں پر چوپال لگالیتے اور رات ڈھلے اپنی اپنی تازہ تخلیقات ایک دوسرے کے سامنے پیش کرتے، یوں سمجھتے سمجھاتے، ہنستے مسکراتے برسوں بیت جاتے۔ یوں محسوس ہوتا، جیسے پروان چڑھی یہ روایتیں، بچپن سے لڑکپن کا سفر طے کرتی، جوانی کی سرحدوں پر آن رکی ہوں۔

جوں جوں وقت گزرتا رہا، روزگار کا عفریت نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نگلنے لگا۔ یوں ٹی ہائوس کی جگہ نئی عمارتیں سر اٹھانے لگیں، لیکن ان میںچند نوجوان ایسے بھی تھے، جو ہر عفریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے لمحہ لمہ آگے بڑھ رہے تھے اور مسلسل تخلیق کے نئے امکانات کھوج رہے تھے۔ وہ سفر ، جو تاریکیوں سے شروع ہوا، وہ ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ، اکیسویں صدی نے ہمارا استقبال کیا۔

یہ ایک عجیب اتفاق ہےکہ ہم پڑھنے لکھنے والے لوگ ایسی عمدہ قدروں کی تلاش میں پہاڑ پور کا رخ کرتے ، پہاڑ پور نہر کے کنارے واقع المدینہ ریسٹورنٹ ، علم و ادب سے وابستہ لوگوں کی بہترین بیٹھک ہے، یہ باغات کے بیچوں بیچ سبزہ زاروں کا ایک خوبصورت استعارہ ہے، یہاں پاکستان بھر سے آئے دوستوں کی، اہلِ ادب کی محفلیں جمتی ہیں، جب کہ ان محفلوں کےمیزبان اور روحِ رواں جسارت خیالی ہوتے ہیں۔

تازہ ترین