• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام فاریو کے Islam for UKکے ترجمان انجم چوہدری جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے برطانیہ میں شریعت کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں۔ 30نومبر یعنی آئندہ جمعہ کے روز اسلام کی روشنی پھیلانے لال مسجد اسلام آباد میں شریعت فار پاکستان کانفرنس میں شرکت کرینگے۔ اس بات کا انکشاف مجھے ایک موصول ہونے والے پوسٹر سے ہوا جس کی تفصیلات کی تصدیق میں نے اس کانفرنس کے میڈیا کنٹرول سیل پر فون کر کے کرلی۔ مشہور زمانہ لال مسجد اسلام آباد میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس پانچ نکات پر اپنے علم افروز خطابات سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غیر اسلامی ہونے کی قلعی کھولے گی جس میں دنیا بھر سے زیر نگرانی علماء پریزیڈنسی کی طرف لال مسجد کے لاوٴڈ سپیکروں کا منہ کرکے پورے زور و شور سے اپنے نکات کی تشریح کرینگے۔ Five Points of Conference
1. The KUFR (Non Islamic) Constitution of Pakistan
2. Declaration of Fatwa on Malala Yousfzai
3. Mohammad Ali Jinnah : The Traitor of Islam
4. The Apostasy of Asif Zardari
5. The Transformation of Pakistan Under the Shariah
برطانیہ اور دوسرے ممالک سے اس کانفرنس کو شرف خطابت بخشنے کے لئے جانے والی اہم شخصیات میں انجم چوہدری (ترجمان اسلام فار یو کے)، عمر بکری (امیر المہاجرون) ابو والہ (ڈائریکٹر ٹروتھ کمشین) ابوبرا )ماہر اسلامک جیو رسپروڈنس) ابورمیس (چیئرمین نیو مسلم سوسائٹی) شامل ہیں۔ کانفرنس کی روح اور مقصد تو اس کے نکات سے نمایاں طور پر ظاہر ہو رہا ہے جبکہ اس پوسٹر کی تصویری Themeبڑی ذومعنی ہے جس میں قائد اعظم، آصف زرداری اور ملالہ آگ میں گھرے ہوئے ہیں۔ جبکہ مزار قائد گولی باز کے نشانے پر واقع ہے۔ کانفرنس میں شرکت کے لئے بیرون ممالک سے جانے والے تمام مہمان وہ لوگ ہیں جن کی یا تو اپنے پرتشدد نظریات کی وجہ سے کئی ممالک میں داخلے پر پابندی ہے یا انٹیلی جنس ایجنسیاں انہیں اپنی Observation میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں مسئلہ ان کے نظریات کا نہیں ہر شخص کا کسی بھی شخصیت یا نظریئے کے حوالے سے نقطہ نظر اور تقدس ہو سکتا ہے وہ جناح، زرداری یا ملالہ کو جو بھی سمجھیں ان کا حق ہے۔ وہ پاکستان کے آئین کو گھر کا آئین کہتے رہیں۔ یا ان تمام نکات کو اپنے ایمان کا حصہ بنا کے رکھیں۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن جب کوئی فرد یا جماعت ایسے نظریات کو معاشرے پر زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہوں تو عوام اور ریاست کا حق بنتا ہے کہ ایسے نظریات رکھنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ یہ تو ہے مہذب معاشروں کی بات، ایسے نظریات رکھنے والوں کو ہم گزشتہ دو دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے پوری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ 11ستمبر کے بعد یہ قوتیں زیادہ بے لگام ہو چکی ہیں۔ اور اب پوسٹر میں دکھایا جانے والا مزار جناح ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ان کے نشانے پر ہے۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے تقریباً تمام مقررین اس بات پر متفق ہیں کہ جناح برٹش ایجنٹ تھا اس لئے اسے دوسری جنگ عظیم سے تھوڑا عرصہ پہلے انڈین سیاست میں واپس بلایا گیا تھا۔ مسلمانوں کا بہت بڑا فکری مغالطہ ہے کہ جناح پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون نہ بناتا۔ قادیانی کو پہلا وزیر خارجہ نہ بناتا۔ جنرل فرینک مسروی کو پہلا آرمی چیف نہ بناتا۔ اب آصف زرداری بھی جناح کی تقلید میں وہی کچھ کر رہا ہے جو جناح کا طرز عمل تھا۔ یہ ہے نقطہ نظر شریعت فار پاکستان کے محرکین کا۔ جو انہی وجوہات کی بنیاد پر آئین پاکستان کو بھی کفر کا آئین سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں جمہوریتاور آزادیوں کی جو بات کی گئی ہے وہ خلاف شریعت ہے۔ ملالہ کا لڑکیوں کی تعلیم کے لئے علم اٹھانا بھی خلاف شریعت عمل ہے۔ اسلئے اسکے خلاف بھی فتوی صادر کرنا فرائض اسلام میں شامل ہے۔ یہ کانفرنس اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر سے چند قدم کے فاصلے پر لال مسجد میں منعقد ہوگی۔ لال مسجد کوئی معمولی جگہ نہیں ہے۔ اس مسجد سے پوری دنیا واقف ہے جہاں اسلامی تعلیم حاصل کرنے والی برقعہ پوش خواتین نے اسلام آباد کے کئی کاروبار اور دکانیں اسلئے بند کروا دی تھیں اور بہت سارے دکانداروں کو اغوا کرکے بھی لال مسجد میں لے گئی تھیں کیونکہ وہ ان کے کاروبار کو غیر شرعی سمجھتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اسلام آباد کے وسط میں یہ مسجد اسلئے تعمیر کی گئی تھی کہ وہ ملک بھر میں بنائے جانے والے مجاہدین کے نیٹ ورک کو کنٹرول کرے۔ یہ نیٹ ورک جو کہ جہادی عناصر پیدا کرنے کی فیکٹریاں تھیں جنہیں مدارس کہا جاتا ہے۔ ان مدارس نے بڑی کامیابی سے ایسے جہادیوں کا فلڈ Floodکر دیا۔ جنہیں مذہب کے نام کی چابی لگا کے جو چاہے استعمال کرے۔ وہ اسے فرمان الہی سمجھ کے قربان ہونے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مذہبی جذبے کے استعمال میں قربان ہوجانے کی مثال 1977ء کی نظام مصطفی کی قومی اتحاد کی تحریک تھی۔ جس میں قومی اتحاد نے اپنے اقتدار کے لئے سیکڑوں لوگوں کو نظام مصطفی کے نام پر قربان کیا۔ اب گزشتہ بارہ برس سے انتہا پسند تنظیموں کے تیار کردہ نوجوان بچے شریعت کے نفاذ کے نام پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف خودکش بمبار بنا کے بھیجے جاتے ہیں۔ جو اپنے ہی ہم وطنوں کے قتل کے بدلے جنت لے رہے ہیں۔ جس شریعت فار پاکستان کانفرنس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اسکے تمام فکری محافظ پوری دنیا میں نظام خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ خود کے سوا ساری دنیا کو کافر سمجھتے ہیں۔ اور ان کافروں کے خلاف مسلح جہاد فریضہ دین ہے۔ شریعت فار پاکستان کے اولین اصول کے مطابق دراصل آئین پاکستان کفر ہے۔ اسلئے اس آئین کفر کے تحت چلنے والی ریاست بھی کافر ریاست ہے۔ یہی صورتحال پھر ریاست کے تمام اداروں کی بھی ہے۔ ان کے بلوگ Blogمیں بڑا واضح لکھا ہے کہ وہ جناح کو غدار اسلام سمجھتے ہیں اسلئے مزار قائد کو تباہ کرنا ان کا پہلا مقصد ہے۔ کیونکہ آئین، ملک اور بانی ملک سب کفر پر کھڑے ہیں۔ اسی لئے عوام بھی اسی صف کفر میں کھڑے ہیں۔ لہذا اگر کوئی خودکش بمبار عام عوام کو نشانہ بناتا ہے تو یہ اچنبہ کی بات نہیں ہے۔ اسلئے کہ ان کا یہ عمل ان شریعت والوں کے بنیادی پروگرام سے متصادم نہیں ہے۔ اتنے تضادات کے بعد جب ملالہ کا ذکر ہوگا تو اسکا بھی شرعی عدالت میں ٹرائل تجویز کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی شریعت کی روشنی میں ملالہ کے آنسو مگرمچھ کے آنسو ہیں۔ پریزیڈنسی اور وزیر اعظم ہاوٴس بھی کیونکہ اسلام سے متصادم تعلیمات پر چل رہے ہیں اسلئے انہیں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا۔ جب شریعت کے نفاذ کے مراحل پر انجم چوہدری اور عمر بکری بات کریں گے تو یہ کانفرنس ایک اعلان جنگ کا منظر بنائے گی۔ یہاں غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اسطرح کے نفرت بھرے نظریات کے پرچار کی اجازت کون دیتا ہے۔ اتنے سارے لوگ جو بیرون ممالک سے پاکستان جائیں گے انہیں کونسی اتھارٹی ویزا جاری کریگی۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ لال مسجد کا نظم و نسق کس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ حکومتیں کب تک مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کی تعلیمات کو عام پھیلانے کی اجازت دیتی رہیں گی۔ ان لوگوں کی عوام کے اندر کیا نمائندہ حیثیت ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ کس طرح حکمرانوں اور میڈیا کو بلیک میل کر لیتے ہیں۔ میڈیا میں ان کے ایجنٹ بیٹھے ہیں۔ جو انہیں پروجیکٹ کرتے ہیں۔ عام ٹی وی شوز میں دیکھا جاتا ہے کہ عموماً سیاسی پس منظر کے جو لوگ بلائے جاتے ہیں ان کی عوام میں کوئی منتخب حیثیت ہوتی ہے۔ جبکہ بے شمار مذہبی عناصر کو اہم اور حساس قومی امور پر رائے زنی کے لئے بلایا جاتا ہے۔ جن کی نہ تو کوئی مقبولیت ہوتی ہے نہ ہی کوئی منتخب حیثیت، انہیں دیگر وجوہات کے علاوہ اسلئے بھی بلایا جاتا ہے کہ میڈیا والے ان کی نقصان پہنچانے کی طاقت اور صلاحیت سے ڈرتے ہیں۔ آج اس بارہ سالہ طویل دہشت گردی کی جنگ سے اگر ہمارے حکمران اور عوام یہ سبق نہ سیکھیں کہ کن عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور کونسے عناصر کو لائم لائٹ میں لانا چاہئے۔ تو اب واپسی کے تقریباً تمام راستے بند ہونے والے ہیں۔ لال مسجد اگر ایسے ہی عناصر کی آما جگاہ بن رہی ہے۔ تو پھر وہاں سے نفرت کا لاوا ہی ابلے گا۔ اور ہم مذہب کے نام پر دھوکہ کھاتے رہیں گے۔ دھوکہ کھانا اور اس پر خوش ہونا خود فریبی ہے کوئی دانشمندی نہیں۔
تازہ ترین