• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1977ء کا واقعہ ہے۔ میں محکمہ ٔ پولیس میں ملازم تھا۔ اس محکمے میں رات دن نت نئے معاملات سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، مگر یہ واقعہ کچھ انوکھا سا ہے، جسے میں قارئین کی نذر کررہا ہوں۔ اس روز دو حضرات تھانے میں اپنی گاڑی چھن جانے کی رپورٹ درج کروانے آئے۔ اتفاق سے میں اس وقت رپورٹنگ روم میں موجود تھا۔ ان کی شخصیت سے شرافت اور وضع داری ٹپک رہی تھی اور چہرے سے انتہائی پرسکون اور مطمئن نظر آرہے تھے، ورنہ عموماً ایسی واردات پیش آنے پر لوگ بدحواس یا مشتعل موڈ ہی میں رپورٹ درج کروانے آتے ہیں۔ انہوں نے رپورٹ درج کرواتے ہوئے بتایا کہ ’’کچھ دیر پہلے ہم اپنی سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا میں گھر جارہے تھے کہ اچانک دو لڑکے آئے، ایک نے سامنے آکر گاڑی رکوائی اور دوسرے نے پستول دکھا کر ہمیں گاڑی سے اتارا اور کار لے کرفرار ہوگئے، گاڑی کی ڈکی میں ٹائر کے ساتھ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے بھی تھے، جو ہم نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے بینک سے نکلوائے تھے۔‘‘ میں نے رپورٹ درج کرنے کے بعد ان سے کہا ’’آپ فکر مت کریں، اِن شاء اللہ آپ کی کار مل جائے گی۔‘‘ انہوں نے بلند آواز میں ایک ساتھ ’’اِن شاء اللہ‘‘ کہا، پھر ان میں سے ایک نے کہا ’’آپ بھی فکر مت کریں، آپ کو زیادہ پریشانی نہیں ہوگی، اِن شاء اللہ ہماری گاڑی جلد مل جائے گی، ہم یہاں صرف ایف آئی آر کٹوانے آئے تھے، گاڑی اور روپے جلد مل جائیں گے۔ آپ اپنی کارروائی کریں۔ گاڑی مل جائے، تو ہمیں اس فون نمبر پر اطلاع کردیجیے گا۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے اپنا نمبر لکھوایا اور مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

میں نے تفتیش کے لیے ایف آئی آر ایک سینئر انسپکٹر کے حوالے کردی، وہ ان حضرات کی گفتگو سن چکا تھا، اس نے بے دلی سے ایف آئی آر کی کاپی دراز میں ڈال دی۔ وہ دراصل روایتی پولیس والا تھا اور اسے اس کیس سے کچھ ملنے کی امید نہیں تھی۔ مَیں البتہ تجسّس میں تھا کہ کہیں ان بزرگوں نے کوئی چال نہ چلی ہو۔ پولیس کو ایسی واردات میں ہر زوایئے سے سوچنا ہوتا ہے۔ بہرحال، میں نے اپنی معمول کی تفتیش کا آغاز فوری طور پر کردیا اور تھانے کی وائرلیس کنٹرول ٹیم کو گاڑی کا نمبر اور دیگر کوائف بتاتے ہوئے ہدایت کی کہ گاڑی ابھی کراچی ہی میں ہوگی، سب کو مطلع کردیں کہ چوکس ہوکر ٹریفک پر نظر رکھیں۔ دو روز تک جب کہیں سے حوصلہ افزاء خبر نہیں ملی، تو میں نے سوچا کہ شاید گاڑی کراچی سے باہر چلی گئی ہوگی یا پھر وہ کسی کے گیراج میں بند ہوگی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ گاڑی مالکان ہی کے گیراج میں ہو، کیوں کہ رپورٹ درج کروانے کے بعد انہوں نے ہم سے پلٹ کرگاڑی کے بارے میں پوچھا تک نہیں تھا۔ یہ واردات ان لوگوں کی آپس کی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہوسکتی ہے، مگر پھر تیسرے روز پڑوسی تھانے سے کال آئی کہ ’’ایک گاڑی آپ کے تھانے کی حدود میں آنے والی سڑک پر لاوارث کھڑی ہے،آپ وہاں جاکر گاڑی کی شناخت کرکے کارروائی شروع کریں۔‘‘

معمّا حل ہونے کو تھا، میں پرجوش ہوگیا، میں نے تفتیشی افسر کو یہ خبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ فوری طور پر کار کے مالکان کو فون کرکے تھانے میں بلوالے۔ ایک ماتحت اہل کار کہنے لگا ’’سر! کار میں سوا لاکھ کی رقم بھی موجود تھی، کیا پتا کار چھیننے والوں کی نظر اس پر نہ پڑی ہو، اگر آپ مالکان کے یہاں آنے سے پہلے پہنچ جائیں، تو شاید آپ کا بھلا ہوجائے، مالکان کو لے کر ہم آجائیں گے۔‘‘ ہم اس کی بات پر ہنس پڑے، تفتیشی افسر نے منہ بگاڑ کرجواب دیا، ’’بے وقوف، کار، تین روز تک مجرموں کے پاس رہی ہے، اس کے تو پرزے تک انہوں نے نکال کربیچ دیئے ہوں گے، انہوں نے رقم چھوڑ دی ہوگی کیا۔‘‘ اس کی بات بھی درست تھی، کیوں کہ اگر ڈاکوئوں نے بالفرض اس کار کی تلاشی نہ بھی لی تھی، تب بھی جس تھانے سے فون آیا تھا، ممکن ہے، وہاں کے اہل کاروں نے کار کو لاوارث حالت میں پاکر اس کی مکمل تلاشی لے کر رقم غائب کرلی ہو۔ اس صورتِ حال میں ہمارا مالکان کے ساتھ اس جگہ جانا ضروری تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی کے مالکان اپنی دوسری گاڑی میں پہنچ گئے، تو انسپکٹر صاحب ان کی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے، میں تھانے میں ان کا بے تابی سے انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد انسپکٹر صاحب اور گاڑی کے مالکان گاڑی سمیت آئے، تو ہم نے اس گاڑی کو اچھی طرح دیکھا بھالا، ہر چیز چمکتی دمکتی نہایت اچھی حالت میں موجود تھی، نعتوں کے کیسٹس بھی ویسے ہی رکھے تھے، باہر سے بھی اسے صاف ستھرا پاکر میری حیرت دوچند اور شک دگنا ہوگیا کہ ضرور کچھ گڑبڑ ہے، میں نے فوراً سوال داغ دیا کہ ’’رقم تو انہوں نے اڑالی ہوگی، تب ہی گاڑی چھوڑ گئے۔‘‘ انسپکٹر نے بجھے دل سے جواب دیا ’’رقم کا لفافہ اسی جگہ رکھا ہوا مل گیا، اسے تو انہوں نے چھوا تک نہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی گاڑی کے مالکان نے ایک ساتھ ہی ’’الحمدللہ‘‘ کے الفاظ ادا کیے۔ میں سمجھ گیا کہ یقینًا ان لوگوں کے آپس کے کسی جھگڑے وغیرہ کے معاملات ہوں گے اور ان کے کسی بیٹے، بھانجے نے انہیں تنگ کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہوگی، کیوں کہ جس حالت میں وہ گاڑی رقم سمیت ملی، تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ چور نے گاڑی کی تلاشی نہ لی ہو۔ سب انسپکٹر انہیں مزید کارروائی کے لیے اندر لے آیا، کارروائی مکمل کرکے اس نے کہا کہ ’’اس کارروائی میں بڑی محنت کرنی پڑی ہے۔‘‘ وہ سمجھ گئے کہ وہ رشوت کا طلب گار ہے، ایک نے جواب دیا، ’’واقعی آپ نے بڑی محنت کی ہوگی، ورنہ اتنی جلدی چِھنی ہوئی گاڑیاں کہاں ملتی ہیں، مگرہم ان لوگوں میں سے ہیں، جو دینی تعلیمات پر مکمل عمل کرتے ہیں، اپنی زندگی کے ہرقول و فعل میں اتبّاعِ رسول ؐ شامل رکھتے ہیں، لہٰذا ہم نے زندگی میں کبھی رشوت لی اور نہ دی، البتہ انعام کے طور پر یہ رقم رکھ لو، اورتم سب اس کی مٹھائی منگواکر کھالینا۔‘‘ انہوں نے پانچ سو کا نوٹ اسے پکڑا دیا، جو ان کے سچّے اور کھرے لہجے سے مرعوب ہوکر انسپکٹر صاحب نے خاموشی سے قبول کرلیا۔ میں نے کہا ’’جناب! مجھے ایک سوال کا جواب دیتے جائیں، آپ نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا تھا کہ فکر مت کریں، گاڑی جلد ہی مل جائے گی، کہیں یہ آپ کے کسی جاننے والے کی کارروائی تو نہیں تھی؟‘‘

میرے سوال پر ان میں سے ایک نے نہایت متانت سے جواب دیا، ’’ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے بندوں پرسارے حقوق صدقِ دل سے پورا کرتے ہیں، زکوٰۃ، ٹیکس اور دیگر معاملات میں پوری ایمان داری برتتے ہیں، رزقِ حلال کماتے اور کھاتے ہیں، مال اور جان کا صدقہ پورا ادا کرتے ہیں، اس لیے ہماری کسی بھول چوک کی رب کریم کم سزا دیتا ہے، ہمارے مالی نقصانات اور پریشانیوں کا دورانیہ ہمیشہ مختصر ہوتا ہے، اس لیے ہم کسی بھی مصیبت کو ہنسی خوشی جھیل کر اچھی امید کو دل میں جگہ دیتے ہیں کہ شکر اس رب کا، جس نے ہماری کسی غلطی کی سزا ہمیں دنیا ہی میں دے دی۔‘‘

وہ دونوں ہمیں اپنے اطمینان وسکون کا راز بتاکر مسکراتے ہوئے چلے گئے، اگرچہ جس طرح ان کی گاڑی ملی تھی اور پکّی ایف آئی آر کی بجائے میں نے نہ جانے کیوں کچّی ایف آئی آر کاٹ کر تسلّی دی تھی کہ چند روز میں گاڑی نہ ملی، تو پکّی کاٹ دیں گے، انہوں نے کوئی لیت و لعل نہیں کیا تھا، جیسے انہیں یقین تھا کہ چند روز میں گاڑی ضرور مل جائےگی۔ اسی بات سے میرے دل میں شک ہوگیا تھا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ وہ اس طرح عدالتی کارروائی اور دیگر جھنجھٹوں سے بچ گئے تھے، جب وہ چلے گئے، تو ہم نے آپس میں میٹنگ کرکے یہ یقین کرلیا کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے، کیوں کہ جب ہم نے ملزموں کو پکڑوانے کی بات کی تھی، تو انہوں نے جواب دیا ’’ہمارا چوں کہ رتّی بھر نقصان نہیں ہوا ہے، اس لیے یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، ان شاء اللہ وہ جلد اللہ رب العزت کی پکڑ میں آجائیں گے۔‘‘اس بات کا مطلب ہم نے یہ لیا کہ وہ ملزمان کو بچانا چاہتے تھے۔ غالباً فریقین کی آپس میں صلح صفائی ہوگئی ہوگی، اس لیے وہ کسی معمولی نقصان کے بغیر گاڑی سڑک پرچھوڑ گئے، وہ گاڑی ان کے گھر پر نہیں چھوڑ سکتے تھے، کیوں کہ گاڑی چھیننے کی متعلقہ فریق نے تھانے میں ایف آئی آر درج کروادی تھی، اس طرح معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ کسی بھی فریق کے نقصان کے بغیر طے پاگیا تھا، سوائے پانچ سو روپے کی مٹھائی کے، جو انہوں نے انعام کے طور پردے کر مزید کسی جھنجھٹ سے نجات پالی تھی۔ خیر، اب ہم کر بھی کیا سکتے تھے، وہ ہنسی خوشی رخصت ہوچکے تھے۔ اس واقعے کے پندرہ روز بعد شام کے وقت ایس ایچ او صاحب کا مجھے فون آیا کہ ’’آج دو ڈاکوکسی اسٹور سے رقم لوٹتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، دورانِ تفتیش انہوں نے دیگرچوریوں کے ساتھ یہ اقرار بھی کیا کہ ہمارے علاقے سے پندرہ روز قبل انہوں نے ایک ٹویوٹا کرولا چھینی تھی اور واردات کے بعد اسے سڑک پر چھوڑ کر پیدل راہِ فرار اختیار کرلی تھی۔‘‘ ایس ایچ او صاحب نے مجھے اس کی تصدیق کے لیے تھانے طلب کیا تھا، میں پہلے ہی اس کیس میں دل چسپی رکھتا تھا، فوراً تھانے چلاگیا، وہاں دو نوجوان ملزمان کوموجود پایا، جب ان کا انٹرویو کیا، تو یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ دونوں عادی مجرم ہیں، کئی بار جیل میں سزا کاٹ چکے ہیں، ٹویوٹا کرولا کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’اس گاڑی کو چھیننے کے بعد تیسرے دن ہم نے اسے ایک سڑک پر کھڑا کیا اور ایک راہ گیر سے چار ہزار روپے کی رقم چھینی، تو وہ شخص ہمارے پیچھے بھاگا، گاڑی دور کھڑی تھی، اس لیے ہم نے اسے وہیں چھوڑ کر پیدل راہِ فرار اختیارکرلی۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’گاڑی کی ڈکی میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے رکھے تھے، اسے چھوڑ کر تم لوگ چار ہزار کی رقم لوٹنے پرجان پر کھیل رہے تھے، اس کی کیا وجہ تھی، اس رقم کو وہیں کیوں چھوڑ دیا، تین دن تک اس رقم کو چھوا تک نہیں، اس کی وجہ کیا تھی؟‘‘اس سوال کے جواب نے میری حیرت دوچند کردی، کہنے لگے ’’کیسے پیسے جناب، ہم نے تو گاڑی کی پوری تلاشی لی تھی، وہاں تو معمولی رقم بھی نہیں تھی، ایک لاکھ پچیس ہزار روپے اس میں ہوتے، تو کیا ہم چھوڑ دیتے۔‘‘ میں نے بتایا کہ وہ رقم ڈکی میں پہیّے کے اوپر رکھی تھی، جواب ملا کہ ’’انہوں نے سب سے پہلے ڈکی کھول کر اسی کی تلاشی لی تھی، وہاں گاڑی کے اوزاروں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔‘‘ میں نے اس انسپکٹر کو دیکھا، جو اس وقت میرے ساتھ آیا تھا، اسے میں نے اس روز گاڑی کے مالکان کے ساتھ بھیجا تھا، اس نے کہا کہ ڈکی اس نے کھولی تھی اور درمیانی سائز کے خاکی لفافے میں رقم ٹائر کے اوپر رکھی تھی، اس نے خود لفافہ اٹھاکر کھولا تھا اور رقم گنی تھی، پورے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے تھے۔ بہرحال، ملزمان گرفتاری کے بعد جیل بھیج دیے گئے، مگر میں آج تک گاڑی مالکان کی شخصیت کے کرشمے پر حیران ہوں، وہ حق پر تھے، ان کا ایمان اتنا پختہ تھا، جو مجھے کسی اور میں دوبارہ دکھائی نہ دیا۔ ان کا یہ یقین کہ گاڑی جلد مل جائے گی اور ملزمان اللہ کی پکڑ میں تھے، سچ ثابت ہوچکا تھا۔

(خالد، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین