• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترقی پذیر جمہوری ممالک جیسے پاکستان میں حامل اقتدار حکومتوں میں اپنی سماجی،معاشی ناکامیوں کو آئندہ انتخابات کی تیاریوں کے دوران عوام کو فریب دینے کے لئے مصنوعی خوش فہمیوں کے ذریعے چھپانے کا رجحان ہوتا ہے۔ سیاسی حیلوں پر انحصار کرتے ہوئے ایسی حکومت اپنی نا کامیوں کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈالتی ہے، اپنی کامیابی کی تشہیر کے لئے ایک یا دو معاشی اشاریوں کا انتخاب کرتی ہے اور لاچار رائے دہندگان سے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم اور اس کی سیاسی قیادت فی الوقت اسی کام میں منہمک ہے۔ درج ذیل عناصر خودساختہ خوش فہمی کی بنیاد کا کام کر رہے ہیں: (1) کہ اس حکومت کو ایک تباہ حال معیشت ورثے میں ملی (2) سابقہ حکومت نے ایک عارضی معیشت تخلیق کی تھی (3) رواں حکومت کے دور میں ٹیکس محصولات دو گنا سے زائد ہو چکے ہیں (4) بہترین مالی و مالیاتی پالیسیوں کی بدولت افراط زر کو25فی صد جیسی اونچی شرح سے8.0فی صد کی سطح پر لایا جا چکا ہے (5) ایک نیا ’این ایف سی‘ ایوارڈ پیش کیا گیا ہے اور (6) سماجی تحفظ کے دائروں(Nets)کے لئے ’بی آئی ایس پی‘ ایک کامیاب پروگرام ہے۔ ان جھوٹی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے میں ذیل میں ان تمام عناصر کا مفصل تجزیہ پیش کر رہا ہوں۔ جہاں تک ورثے میں ملنے والی تباہ حال معیشت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے موجودہ حکومت کے بارے میں جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ میں معاشی ٹیم، اس کی سیاسی قیادت اور حامیوں پر زور دوں گا کہ وہ قوم کو سچ بتائیں اور عالمی مالیاتی ادارے سے23ماہ کے اسٹینڈ بائی پروگرام پر مذاکرات کے دوران20نومبر2008ء کو (اسے) پیش کردہ ’لیٹر آف انٹینٹ‘ کے مندرجات سے آگاہ کریں۔ حکومت نے2000ء تا2008ء کے دوران سابقہ حکومت کے معاشی انتظام کے بارے میں تعریفوں کے پل باندھے ہیں۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس عرصے کے دوران ڈالر کے حساب سے قومی مجموعی پیداوار اور فی کس آمدنی دگنی ہوئی، بین الاقوامی تجارت میں تین گنا اضافہ ہوا، اس عرصے میں زیادہ تر حقیقی قومی مجموعی پیداوار نے اوسطاً 7فی صد سے زائد شرح کے ساتھ نمو پائی، سابقہ عشرے کے وسط میں بہترین میکرو اکنامک کارکردگی نے پاکستان کو دوبارہ عالمی سرمایہ مارکیٹ میں قدم رکھنے کے قابل بنایا، جاندار پیداواری نمو، کم افراط زر اور حکومت کی سماجی پالیسیوں نے غربت میں کمی اور متعدد سماجی اشاریوں میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گو کہ حکومت عالمی مالیاتی ادارے سے حقائق نہیں چھپا سکی مگر وہ عوام کو جان بوجھ کر دھوکا دینے کے لئے ان کے سامنے معیشت کی ایک بالکل مسخ تصویر پیش کر رہی ہے۔ جہاں تک بلبلے کی طرح عارضی معیشت کا تعلق ہے تو حکومت کا درج بالا اعتراف خود ہی اس دعوے کی تردید کے لئے کافی ہے۔ ایک بلبلے کی طرح عارضی معیشت آخر کس طرح آٹھ سال(2000-2008) تک چل سکتی ہے؟ درحقیقت بات یہ ہے کہ معیشت کبھی بھی موجودہ حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ معیشت کو بلبلے سے تشبیہ دینے کے بجائے حکومت کو لازماً اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا ہو گا۔ اقتدار کے پانچ سالوں بعد بھی اپنی رواں معیشت کے امراض کا الزام سابقہ حکومت کے سر ڈالنا سوائے اپنی ناکامی کے اعتراف کے کچھ اور نہیں۔ ٹیکس محصولات کے دگنے ہونے کے دعوے کے تناظر میں معاشی ٹیم کو واقف ہونا چاہئے تھا کہ ٹیکس کی بنیاد یعنی نام نہاد(nominal) قومی مجموعی پیداوار بھی اسی عرصے کے دوران لگاتار بلند دو ہندسی افراط زر کے باعث دگنے سے زائد ہو چکی ہے۔ اگر ایف بی آر کے ٹیکس محصولات میں87فی صد کی شرح کے ساتھ اضافہ ہوا ہے تو نومینل قومی مجموعی پیداوار بھی 2008-12ء کے دوران 102فی صد کی شرح کے ساتھ بڑھ چکی ہے اور اس بات کی عکاس ہے کہ ایف بی آر کی ٹیکس تا جی ڈی پی شرح میں درحقیقت کمی ہوئی ہے۔ معاشی ٹیم کو ’دگنے‘ ٹیکس محصولات کا سہرا اپنے سر لینے سے پہلے اس بات کا بھی پتہ چلانا چاہئے کہ زرمبادلہ کی شرح میں کمی اور پٹرولیم سیکٹر کا ٹیکس جمع کئے جانے میں کتنا حصہ رہا ہے۔ جہاں تک افراط زر کو25فی صد سے8فی صد تک لانے کی بات ہے تو معاشی ٹیم کو واقف ہونا چاہئے کہ وہ بہت دور کی کوڑی لائی ہے۔ پچیس فی صد کی شرح افراط زر کا سال2000-1ء میں بنیادی سال کی حیثیت سے تخمینہ لگایا جاتا ہے جہاں اشیائے خورد و نوش کا وزن40فی صد سے زائد شمار کیا گیا ہے۔ آٹھ فی صد کی شرح افراط زر کا سال2007-8ء میں بنیادی سال کی حیثیت سے تخمینہ لگایا جاتا ہے جہاں اشیائے خورد ونوش کا وزن 34فی صد ہے۔ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑے پیمانے پر افراط زر کو مہمیز کرتی ہیں۔
اصولی طور پر ان کے وزن میں کمی سے اشیائے خورد و نوش سے وابستہ افراط زر میں کمی ہو گی اور اس کے بعد مجموعی افراط زر میں کمی دیکھی جائے گی۔ جولائی2012ء سے افراط زر کے تخمینے میں ہیر پھیر کی جا رہی ہے۔ اوگرا نے گیس کی پرائس سلیب کو کم کر کے چار سے تین کر دیا ہے جس کے ’واضح‘ اثر کو گیس کی قیمتوں میں42فی صد سے زائد کمی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سی پی آئی میں اپنے تقریباً1.6فی صد وزن کے ساتھ اس نے افراط زر کی شرح کو کم کیا ہے۔ گزشتہ چار مہینوں کے دوران افراط زر کی شرح میں کم و بیش4فی صد پوائنٹ تک کمی ہوئی ہے۔ کیا کوئی بھی ہوشمند ماہر اقتصادیات یقین کر سکتا ہے کہ غیر معمولی مالیاتی نرمی(easing)…رقم کی فراہمی میں 17.5فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے، داخلی کریڈٹ میں22.5فی صد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ200بی پی ایس کے ساتھ کم ہے…اور بدترین مالی بے قاعدگی کی موجودگی میں افراط زر کی شرح اتنی تیزی سے کم ہوئی ہے؟ نئے این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں فنانس منسٹر بالآخر31/اکتوبر کو کابینہ کی میٹنگ میں اپنے اوپر تنقید کئے جانے کے بعد سچ بول چکے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف این ایف سی ایوارڈ بلکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی تنقید کی۔ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم عوام سے درج ذیل حقائق چھپانے کی کوشش کرے گی:
(1) معاشی نمو اوسطاً3.0فی صد سالانہ کی شرح سے کم ہو چکی ہے۔
(2) صنعتی نمو0.7فی صد پر جمود کا شکار رہی۔
(3) زرعی شعبے میں جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں2.2فی صد کی شرح سے اضافہ ہوا جو ملکی آبادی میں اضافے کی شرح کے قریب ہے، (4) شعبہ تعمیر جسے عام طور پر تمام صنعتوں کی ماں تصور کیا جاتا ہے0.2فی صد سالانہ کے حساب سے سکڑ گیا، (5) موجودہ حکومت کے دور میں عوامی قرضہ دگنے سے زائد ہو گیا، (6) بیرونی شعبے میں20بلین ڈالر سے زائد جمع کئے گئے، (7) بیرونی سرمایہ کاری نے دم توڑ دیا جو2008ء کی شرح کا صرف1/10رہ گئی، (8) ملک اس وقت قرضوں کی ادائیگوں کے گمبھیر ترین بحران میں داخل ہو چکا ہے (9) زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں (10) روپے کی قدر میں بلا کسی روک ٹوک کے تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور مرکزی بنک اسے روکنے کے لئے اس بات کا خیال کئے بغیر مارکیٹ میں جارحانہ طور پر ڈالر داخل کر رہا ہے کہ اس طرح معیشت کے بنیادی اصولوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، (11) پی ایس ایز کی رگوں سے مسلسل خون جاری ہے (12) غربت اور بے روز گاری آسمان کو چھو رہی ہیں اور (13) ملک کا نظم و نسق ’نظم و ترتیب‘ کے ساتھ تباہ و برباد کیا جا چکا ہے۔ ان سب واقعات کے تناظر میں کسی کو بھی ملکی معیشت کو بچانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ پارلیمان، قائمہ کمیٹیاں، پرنٹ اینڈ الیکٹرونک میڈیا، حزب اختلاف اور سول سوسائٹی خاموش تماشائی بن کر ڈھالیں تک پھینک چکے ہیں۔ خدا پاکستان کی حفاظت کرے!
تازہ ترین