• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان تعلقات میں عدم توازن کی بات ایک ’’وہم یا غلط عقیدہ‘‘ (Myth) ہے ۔ یہ بات وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں یوم دفاع و شہداء کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن کا غلط تاثر پیدا کیا گیا ۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے کوئی بڑا تصادم ہو رہا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دونوں متفق ہیں اور دونوں کا مقصد یہ ہے کہ مل کر پاکستان کو ایک بار پھر عظیم ملک بنایا جائے ۔ وزیر اعظم کا یہ بیان خوش آئند اور اطمینان بخش ہے تاہم کچھ حلقے اس بیان پر دوسرے تناظر میں مختلف آرا قائم کر رہے ہیں لیکن میرے خیال میں پاکستان میں موجوہ سول ملٹری تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں سول ملٹری تعلقات پر بہت باتیں کی گئی ہیں۔ اس معاملے پر بے شمار کتابیں ، تحقیقی مقالہ جات اور تحریریں موجود ہیں ۔ اگر اس موضوع پر ’’ گوگل ‘ ‘ کیا جائے تو اتنا مواد مل جاتا ہے ، جو پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے کافی ہے ۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات پر بے شمار ملکی اور غیر ملکی اداروں اور افراد نے تحقیقی کام کیا ہے۔ ان تعلقات کے حوالے سے سوالات تو موجود ہیں اور بوجوہ مختلف حلقوں نے مختلف آرا بھی قائم کر رکھی ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ’’ وہم یا غلط عقیدہ ‘‘ ( Myth ) ہو ۔ مگر یہ موضوع زیر بحث رہا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کے بیان کے بعد اس پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے ۔

گزشتہ 30اگست کو وزیر اعظم عمران خان نے جنرل ہیڈ کوارٹرز ( جی ایچ کیو ) کا تاریخی دورہ کیا ۔ اس دورے میں ان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع پرویز خٹک ، وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی تھے ۔ اس دورے کو اس لیے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے کہ وہاں سویلین قیادت کا عسکری قیادت کے ساتھ 6 گھنٹے سے زائد اجلاس جاری رہا ، جس میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو فوج کی طرف سے مختلف امور پر نہ صرف تفصیلی بریفنگ دی گئی بلکہ مختلف داخلی ، خارجی اور قومی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں شاید پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی منتخب سویلین وزیر اعظم نے عسکری قیادت کے ساتھ وسیع تر معاملات پر تبادلہ خیال میں اتنا وقت گزارا ہو ۔

ماضی میں فوج اور سویلین حکومتوں کے درمیان تعلقات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ ہم سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں اور فوج کے درمیان تعلقات کی نوعیت کو تھوڑا تبدیل دیکھتے ہیں لیکن پاکستان میں سول ملٹری تعلقات پر جس قدر بھی تحقیقی کام ہوا ہے ، اس میں دو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں ۔ تمام محققین ایک تو اس بات پر متفق ہیں کہ سیاسی اور حکومتی امور میں فوج کی مداخلت کے اسباب میں ایک بنیادی سبب سیاست دانوں کی ناکامی ہے ۔ سیاسی حکومتیں ایک تو ’’ گڈ گورننس ‘‘ دینے میں ناکام رہی ہیں ۔ دوسرا سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت نہ صرف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی ہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ عوام کی بجائے طاقت کے مراکز پر انحصار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کو بطور سیاسی ادارہ مضبوط نہیں ہونے دیا ہے ۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہمیشہ فوج کی طرف دیکھا ہے اور بار ہا فوج کو مداخلت کے لیے کہا ہے ۔ جب سیاست دان اپنے معاملات درست نہیں رکھیں گے تو محققین تاریخی تجربات کی روشنی میں ایک جیسی بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ایسے حالات میں کسی ملک کے ایک طاقتور ادارے کے لیے لاتعلق یا الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے لوگوں کو بہت توقعات وابستہ ہیں ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ گڈ گورننس دے سکتے ہیں اور کرپشن کو روک سکتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس وقت بہت منظم اور مضبوط ہے اور اس میں جمہوری کلچر اور روایات کی پاسداری بھی بہت حد تک کی جاتی ہے ۔ لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان سے یہ بھی امید ہے کہ وہ سویلین اداروں کو مضبوط کر سکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہو گیا تو فوج کی مداخلت کے امکانات بہت حد تک از خود کم ہو جائیں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ خصوصاَ فوج کی حمایت حاصل ہے ۔ اگر مخالفین کی یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سول ملٹری تعلقات کے ایک نئے اور خوشگوار دور کے آغاز کا یہ بہترین موقع ہے بشرطیکہ سویلین حکومت بہتر کارکردگی اور اچھی حکمرانی کا مظاہرہ کرے ۔ اس سے آئندہ بھی سول ملٹری تعلقات خوشگوار رہ سکتے ہیں ۔

دوسری اہم بات جس پر محققین متفق ہیں ، وہ یہ ہے کہ کچھ داخلی اور خارجی امور ایسے ہیں ، جن میں سویلین حکومت کا عمل دخل بہت کم ہے ۔ اس پر بھی محققین پھر وہی بات کہہ رہے ہیں کہ سیاست دانوں نے فوج کو یہ امور اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاسی لیڈر کی موجودگی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سویلین حکومت کے ہاتھ میں تھی اور کسی حد تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں بھی یہی صورت حال رہی ہے ۔ بعض داخلی معاملات ایسے ہیں ، جو خارجی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں رہا ، جسے عالمی رہنما کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہو اور جو پاکستان کی خارجی پالیسیوں کا علاقائی یا عالمی سطح پر دفاع کر سکے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ جنرل راحیل شریف کو سفارت کاری کے محاذ پر سرگرم ہونا پڑا ۔ وزیر اعظم عمران خان کی بین الاقوامی شہرت بہت زیادہ ہے اور ان کا احترام بھی ہے ۔ ان کے لیے اپنے آپ کو عالمی لیڈر کے طور پر منوانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ وہ سفارتی محاذ بھی خود سنبھال سکتے ہیں اور بعض اہم فیصلے بھی کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے کہا کہ آئندہ پاکستان کسی اور کی جنگ میں نہیں پڑے گا ۔ وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں ماضی کی تلخیاں ختم کرنے اور خوشگوار تعلقات کے لیے فضا سازگار بنانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن چیلنجز بھی بہت ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین