• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا مقام و مرتبہ اپنے دور کے تمام لوگوں سے مختلف، منفرد، اونچا، اعلیٰ اور ممتاز تھا۔ وہ خاندان نبوت سے تعلق رکھتے تھے، انہیں جو خصوصی اعزازات حاصل تھے وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے آقائے دو جہاں علیہ الصلوة السلام کی گود میں آنکھ کھولی تو سب سے پہلے چہرہ مصطفی کا دیدار کیا۔ ان کے منہ میں سب سے پہلے جو خوراک گئی وہ حضور علیہ الصلوة السلام کے مقدس ہاتھ سے چٹایا ہوا شہد تھا اور منہ سے چسائی ہوئی کھجور تھی۔ انہیں بچپن میں کھیلنے کے لئے میرے آقا کریم علیہ السلام کے شانے اور کاندھے میسر آئے تھے، ان کو خصوصی اعزاز حاصل تھا کہ یہ تاجدار انبیاء کی پُشت پر چڑھ جاتے تو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سجدہ طویل فرمادیتے تھے تاکہ کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ یہ اس شان سے مدینے کے بازار میں نمودار ہوتے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے کاندھے پر بٹھائے ہوتے تھے اور وہ حضور کے کاندھے پر بیٹھ کر مدینے کے بازار کا نظارہ کرتے تھے۔ صحابہ کرام آتے جاتے ہوئے انہیں اس حالت میں دیکھ کر ان کو رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک دن ایک صحابی اس شان سے سیدنا حسین کو آقا علیہ الصلوة والسلام کے کاندھے پر بیٹھا ہوا دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھا ”نعم المرکب“ کتنی اچھی سواری میسر آئی ہے۔ میرے آقا نے فوراً ارشاد فرمایا ”ونعم الراکب“ یہ نہیں دیکھتے کہ سوار کتنا اچھا ہے۔ تھے تو وہ حضور سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند لیکن انہیں صحابہ جب بھی مخاطب کرتے یہی کہتے ’یا ابن رسول اللہ‘ اے رسول اللہ کے فرزند، کبھی بھی کسی بھی لمحے سیدنا حسین نے نہ کسی کو ٹوکا نہ روکا کسی سے نہ کہا کہ مجھے میرے والد گرامی کی بجائے میرے نانا جان کے حوالے سے کیوں پکارتے ہو۔ نہیں نہیں، حسین ابن علی کو جب ”یا ابن رسول اللہ“ کہ کر مخاطب کیا جاتا تو وہ اس کو اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔ ان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا تھا، انہیں پتہ تھا کہ صُلب کے اعتبار سے وہ شیر خدا کے بیٹے ہیں لیکن ان کے اندر نور نبوت کی شعاعیں منعکس ہوکر ہر طرف اجالا پھیلا رہی ہیں۔ سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مولا علی المرتضی سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ علی اللہ تعالی نے تیرے صلب میں میرا حسب نسب رکھا ہے جو اولاد تمہاری ہوگی لیکن پہچانی میرے نام سے جائے گی۔ آج دنیا بھر میں جو خاندان اپنے آپ کو ذات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا حسبی اور نسبی تعلق ظاہر کرتے ہیں ان کا تعلق خاندانی طور پر سیدنا حسن سے ہے یا سیدنا حسین سے انہیں علی المرتضی کا خاندان نہیں بلکہ خاندان محمد مصطفی کا فرد کہا جاتا ہے۔ اسد اللہ الغالب سیدنا علی المرتضی شیر خدا کی اولاد جس کا تعلق سیدہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا سے نہیں وہ اپنے آپ کو اولاد علی کے حوالے سے متعارف کراتے ہیں۔ انہیں علوی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسین کے متعلق ارشاد فرمایا تھا، یہ مجھ سے ہے ”الحسین منی“ یعنی اسے مجھ سے معرفت، نور نبوت، شجاعت، عبادت، صداقت، عدالت، امامت اور قیادت کی خوبیاں خاص طور پر عطا ہوئی ہیں۔ یعنی وہ میرا مظہر ہے۔ میرے انوار و تجلیات کا پیکر ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ارشاد فرمایا کہ ”وانا من الحسین“ میں حسین سے ہوں۔ اللہ اللہ کیسی شان حسینیت ہے کہ سرور کائنات ارشاد فرما رہے ہیں کہ میں حسین سے ہوں مطلب یہ ہے کہ نور نبوت کا مظہر بن کر جب وہ اپنی شجاعت ،صداقت، ذوق عبادت اور میدان کربلا کی قیادت کا مظاہرہ کرے گا تو اس سے میری شخصیت کا عکس جھلک رہا ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ بخدا رب کعبہ کی قسم، رب محمد مصطفی کی قسم ایسا ہی ہوا۔ اس دن میدان کربلا میں حسین ابن علی کی شخصیت کے ایک ایک انگ سے، ایک ایک رنگ سے نور نبوت جھلک رہا تھا۔ خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہیں سرور کائنات کا صحابی بننے کا شرف حاصل ہوا اور بلاشبہ قسمت کے دھنی تھے وہ لوگ جنہوں نے سیدنا حسین کی صحبت اختیار کی اور پھر ان کی معیت میں کربلا پہنچے اور پھر اپنے قائد پر اپنی جان نچھاور کر دی۔ یوں تو اس وقت مدینہ منورہ میں میرے آقا کے شہر مقدس میں کئی جلیل القدر صحابہ تھے لیکن سجادہ نشین صرف ایک تھے اور وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تھے، وہ حقیقی معنوں میں مصلائے امامہ اور مدینہ منورہ کی سجادہ نشینی پر فائز ہونے کے حقدار تھے۔ بلاشبہ سیدنا حسین منصب قیادت کے اہل اور امین تھے۔ عبداللہ بن عباس ہوں یا عبداللہ ابن عمر، عبداللہ ابن زبیر ہوں یا انس ابن مالک سب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو وہ عزت و احترام دیتے تھے جس کے وہ مستحق تھے جوان کے شایان شان تھا۔ ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس اور حدیث و فقہ کے امام سیدنا عبداللہ بن عمر سیدنا حسین کا احترام اس لئے کرتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معنوی فرزند ہی نہیں تھے بلکہ شبیہ رسول بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا نظروں میں سما جاتا تھا۔ وہ سیدنا بلال جو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد اذان دینا چھوڑ گئے تھے صرف سیدنا حسین کے کہنے پر ایک بار اذان دینے پر آمادہ ہوئے تھے۔ سیدنا حسین بلا شبہ مدینہ منورہ کے ایسے سجادہ نشین تھے جن کے ہزاروں لاکھوں فیض یافتگان اور عقیدت مند تھے۔ وہ امام الاولیاء سیدنا علی ابی طالب کے صُلبی فرزند ہی نہیں تھے بلکہ روحانی وارث بھی تھے۔ وہ آج کی اصطلاح میں شیخ طریقت اور کربلا میں ان کا ساتھ دینے والے ان پر اپنی جان نچھاور کرنے والے ان کے فیض یافتہ مرید تھے۔ سیدنا حسین مدینہ منورہ کے سجادہ نشین کی حیثیت سے آکر مدینہ منورہ میں تشریف فرما رہتے تو یزید لعین پلید کو بڑی خوشی ہوتی وہ اس بات کو پسند کرتا کہ سیدنا حسین سجادہ نشین بن کر بیٹھے رہیں اور یزید شام کے محلات میں عیاشی کرتا رہے، جیسے آج کل کے سجادہ نشین جنرل ضیاء الحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر دور کے آمر و جابر حکمران کے دربار میں حاضری دیتے اور ان کی طلب کردہ مشائخ کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں اور ان کو دعائیں دے کر اور ان سے لفافے لیکر اور مراعات حاصل کرکے واپس آتے ہیں۔ امام عالی مقام سیدنا حسین مجاہد سجادہ نشین تھے۔ اور باطل کے خلاف جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے۔ انہوں نے صرف سجادہ نشین بننا پسند نہیں کیا بلکہ یزید لعین پلید کے خلاف جہاد کرکے سرخرو ہوئے۔ اقبال نے کہا تھا:
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
تازہ ترین