• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے چھ ستمبر کو جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی سب سے بڑی سالانہ تقریب سے خطاب میں واضح اعلان کیا ہے کہ ان کا قوم سے وعدہ ہے کہ پاکستان اب کبھی کسی دوسرے کی جنگ میں شریک نہیں ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ بڑی قربانیاں دے کر دہشت گردی کی جنگ سے نکالنے پر وہ پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

اس بیان کے بعد گویا پاکستان کا دہشت گردی کی جنگ میں بدترین دبائو کے تحت شامل ہونے کا بیانیہ بالآخر 17سال بعد تبدیل ہوگیا ہے؟ یا یہ نئی امریکی حکومت کے پاکستان مخالف رویوں پر جذباتی ردعمل میں کھرا جواب ہے اس کی وضاحت آنا ابھی باقی ہے تاہم زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ پاکستان نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ’’ڈومور‘‘ کے جواب میں اب ’’نو مور‘‘ ہوگا۔ اس کی اہم وجہ امریکہ کی اپنی بے رخی، عدم اعتماد اور بھارت کی طرف یک طرفہ جھکاؤ کی پالیسی ہے۔17 سالہ افغان جنگ میں امریکہ کو آج نہ صرف خوفناک شکست بلکہ ملک کے اندر اور باہر سخت تنقید اور دبائو کا بھی سامنا ہے۔ امریکہ کے ایک بڑے موقرجریدے کی انکشافی رپورٹ نے امریکی حکومت کے افغان جنگ کےحوالے سے امریکی عوام سے حقائق چھپانے کی قلعی کھول دی ہے، بتایا گیا ہے کہ اس جنگ میں محض 22 سو امریکیوں کی اموات کا بتایا جاتا ہے لیکن اب تک جتنی اموات ہوئی ہیں ان کے اصل اعدادوشمار کو کبھی منظرعام پر نہیں لایا گیا، اس جنگ پر اب تک 840ارب ڈالرز خرچ کئے جا چکے ہیں تاہم اب بھی افغانستان کے 61فی صد علاقے پر 77ہزار سے زائد مسلح افغان طالبان کا قبضہ ہے، بعض ذرائع کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کے لئے امریکی اور اتحادی فورسز نے افغانستان پر سکڈ میزائلز سے لے کر مدر آف آل بمبز برسائے، مسلسل مار کھانے کے بعد تقریباً تمام اتحادی ایک ایک کرکے یہاں سے بھاگ گئےتبھی فتح امریکا کا مقدر نہیں بن سکی۔ اب اس جنگ کا بوجھ اکیلے امریکا کے کندھوں پر ہے اور وہ اس کو اب پھر پاکستان کے نازک بلکہ پرائی جنگ کی تباہیوں سے چور کاندھوں پر منتقل کرنے کے لئے بضد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون حملے میں کوئی پاکستانی ملوث تھا نہ اس کی پلاننگ پاکستان میں کی گئی پھر ’’اسلحے‘‘ کی نوک پر پاکستان کو افغانستان حملے میں ساتھ دینے پر مجبور کیا گیا ہے، پاکستانی قیادت قدرت رکھنے کے باوجود بوجوہ انکار کرنے کی ہمت نہ کرسکی اور یوں پرائی جنگ میں 70ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں 150ہزار پاکستانیوں کی معذوری، کھربوں روپے کی ملکی ڈھانچا جاتی نقصان و تباہی اور عدم تحفظ پاکستان کا مقدر بنادیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے عنان حکومت سنبھالتے ہی پاکستان پر بے سروپا الزامات اور عدم تعاون کے شدید گلے شکووں میں کروڑوں ڈالر کی کولیشن سپورٹ فنڈز کی فراہمی بند کردی گئی جو دراصل امریکہ کےساتھ پہلے سے طے شدہ تعاون کے معاہدے کےتحت پاکستان کی فوجی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادا کی جاتی تھی، گو یہ رقم اس جنگ میں پاکستانی فوج وعوام کی لازوال قربانیوں کاعشر عشیر بھی نہیں لیکن امریکہ اس کی سالانہ ادائیگی کا پابند تھا اور اب بھی ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیائی پالیسی کے جواب میں پاکستان کی کارگر عسکری حکمت عملی اور امریکہ میں متعین قابل نوجوان سفیر علی جہانگیر صدیقی کی موثر سفارتکاری نے ٹرمپ انتظامیہ کو دیگر آپشن سوچنے پر مجبور اور اسٹک اینڈ کیرٹ کی پالیسی چھوڑنے سمیت دھمکیوں کی پالیسی کو بھی ناکام بنادیا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر کا پینٹاگون کا دورہ، وزیر دفاع کا استقبال کرنا اور گارڈ آف آنر دیا جانا پاکستان سے تعلقات کی بحالی کی طرف ازخود اشارہ تھا۔ اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ ایلس ویلز کی یکے بعد دیگرے اسلام آباد یاترا اور عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا ٹیلیفونک رابطہ پھر دورہ بھارت سے پہلے پاکستان آمد، عندیہ تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی ابھی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان نے حالیہ سیاسی، سفارتی وعسکری رابطوں میں واضح کردیا ہے کہ افغان طالبان بہت ماڈریٹ اور ایک مضبوط سیاسی قوت بن چکے ہیں ان کے سفارتی سطح پر رابطوں میں استحکام آچکا ہے وہ افغانستان میں داعش کو لانے اور مسلح کرنے کی خفیہ امریکی حکمت عملی کو بھی جان چکے ہیں اب صرف پاکستان سے نہیں بلکہ خطے سمیت دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ ان کی اچھی سلام دعا ہے، پاکستان یقینی طور پر پہلے بھی دوحا اور مری جیسے مذاکراتی عمل ممکن بناچکا ہے اور اب بھی کوششوں کے لئے تیار ہے، تاہم امریکہ افغان طالبان کو میز پر لانے کے لئے چین سمیت دیگر ممالک کو بھی آن بورڈ لے اور خود اپنے گھر کو بھی ٹھیک کرتے ہوئے وائٹ ہائوس، پینٹاگون اور کیپٹل ہل کو افغان مسئلے کے حل پر ایک صفحے پر لائے۔ پاکستان نے زور دیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کو محض افغانستان کے کانٹیکسٹ کی بجائے وسیع البنیاد ہونا چاہئے جس میں پاک امریکہ تجارتی، معاشی، اقتصادی، دفاعی اور تعلیمی میدان میں رابطوں اور تعاون کو فوری بڑھانے کے اقدامات اٹھانے اشد ضروری ہیں۔ بلاشبہ پاکستان نے خلوص نیت سے اپنی مدد آپ کے تحت دہشت گردی کے عفریت سے بہت حد تک نجات پالی ہے لیکن باہر سے مسلط کردہ عدم برداشت کی پالیسی کے سبب ابھی بھی انتہا پسندانہ سوچ کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ قارئین کے لئے میری معلومات سخت باعث حیرت ہوں گی کہ ہر قسم کی امداد بند ہونے کے باوجود پاکستان سرحد پار سے اسمگلنگ روکنے اور دہشت گردوں کی دوطرفہ نقل و حمل کو روکنے کے لئے پاک افغان سرحد کو محفوظ بنا رہا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت سرحد پر باڑ لگانے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے، باڑ اسٹیل کی بنتی ہے، جو پاکستان ڈالرز دے کر امریکا سے درآمد کر رہا ہے ۔ عدم اعتماد کے مسلسل الزامات سے تنگ آکر بالآخر پاکستان نے بھی امریکہ پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے رابطے اور بات چیت جاری رہے گی لیکن پاکستان نے باضابطہ طور پر اپنا رخ دیرینہ دوست چین اور سابقہ ساتھی روس کی طرف کر دیا ہے جبکہ ایران کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر غیر اعلانیہ طور پر نئے جنوبی ایشیائی اتحادی بلاک کی بنیاد رکھ دی ہے۔ عمران حکومت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اب امریکہ سمیت تمام ممالک کے ساتھ عزت وقار اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں گے پاکستان کی نئی سفارتی حکمت عملی پر قابل اطمینان رسپانس یہ ہے کہ نئی حکومت بنتے ہی امریکہ، ایران، چین، سعودی عرب کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کا پاکستان آنا بہت اہم ڈیویلپمنٹ ہے خاص طور پر اس سے بھارت کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کو پاکستان مذاکراتی راستہ اختیار کرنے کی دعوت پہلے ہی دے چکا ہے تاہم مثبت جواب بھارت نے اب تک نہیں دیا، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کا اعادہ اور تجارت سمیت کئی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق تعلقات کی نئی جہت ہے، چینی وزیرخارجہ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے بارے نئی حکومت کے اعتراضات پر پہلے کئے گئے سی پیک معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے جو تعلقات کو اعتماد کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بڑھانے کے لئے درست سمت میں بڑا فیصلہ ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا اپنی سفارتی حکمت عملی کا آغاز 15 ستمبر کو پہلے دورہ افغانستان سے کرنا اور جملہ حقائق کو میز پر رکھ کر حل تلاش کرنے کا عزم دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے نئے سفر کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے، اس کے بعد ان کا دورہ امریکا افغان مسئلے کے حل کی راہ تلاش کرنا انتہائی اہم ہوگا جس میں افغان مفاہمتی عمل کی ابتدائی حکمت عملی ترتیب دئیے جانے کا قوی امکان ہے۔

پاکستان کی جانب سے نئی خارجہ پالیسی کے خدوخال آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں جو پاکستان کو خود دار ممالک کی صف میں کھڑا کردیں گے، اچھا ہوگا کہ ماضی میں شخصی فیصلوں کی بجائے قومی ترجیحات، مفاد اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر سفارتی قدم اٹھائے جائیں اور فارن پالیسی بنائی جائے۔

تازہ ترین