• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے پھر روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی امن کی خواہش کے تناظر میں مذاکرات کی دعوت کو جنگ کی دھمکیوں بلکہ گیدڑ بھبکیوں کی نذر کردیا ہے، دراصل پاکستان نے دوراندیشی کی عینک استعمال کئے بغیر جلدبازی کی اور بھارتی رویوں کے ٹریک ریکارڈ کو یاد نہیں رکھا تھا لہٰذا اس خلوص کی قیمت تو پھر یہی بنتی تھی۔

جنوبی ایشیائی خطے میں ڈیڑھ ارب آبادی کے دونوں ملک جوہری قوت اور درجنوں خطرناک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، آزادی کے70سال بعد بھی دونوں ہمسایوں کے درمیان امن اور اعتماد کا رشتہ قائم ہونے کی بجائے شدید نفرتوں اور غیرمعمولی تصادم کے حالات ہیں۔ بدقسمتی سے ہر دور میں اس کم ظرف برتائو میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی آرمی چیف امن مذاکرات کی بجائے جنگ کی دھمکیوں پر اترنے سے پہلے، چند ہفتے قبل اپنے ہی دیئے گئے بیان کو بھول گئے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ بھارت کو اس وقت ڈھائی محاذوں کا سامنا ہے، بھارت ان محاذوں پر بیک وقت لڑ سکتا ہے اور نہ ہی تیزی سے خطرناک ہوتی صورت حال کو ہینڈل کرسکتا ہے، انہوں نےڈھائی محاذوں میں ایک محاذ پاکستان، دوسرا چین کو قرار دیا جبکہ بھارت کےاندر برپا نسلی، اقلیتی اور مذہبی شورشوں اور قومیت کی بنیاد پر سرگرم علیحدگی پسند تحریکوں کو آدھا محاذ قرار دیا تھا۔ حقیقت بھی یہی ہےکہ دنیا کی بڑھتی اقتصادی و عسکری طاقت چین سے محض امریکہ سے دوستی کے زعم میں الجھنا بھارت کے بس کی بات نہیں۔ پاکستان جیسے مضبوط ایٹمی قوت کی طرف رخ کرنے سے پہلے اپنے گھر کے آدھے محاذ کی طرف نظر دوڑائیں تو شاید اس سے جان چھڑانے کی بھارت میں صلاحیت نہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت کی دن بدن کمزور اور لاغر ہوتی فوجی افرادی قوت ملک کے اندر کے شور کو دبانے کیلئے پاکستان سے جنگ کی خام خیالی اور بڑھکوں سے اپنے عوام کو لبھانے اور الجھانے میں مصروف ہے۔ ابھی پچھلے چند ماہ میں کم ازکم پانچ بھارتی فوجی جوانوں نے دوران ڈیوٹی اپنے ریکارڈ کردہ بیانات میں بھارتی حکمرانوں اور فورسز کے جرنیلوں کے سفاکانہ و بہیمانہ سلوک کی داستان سنا کر پیشہ ورانہ قیادت کے دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے، ڈیوٹی پر کھڑے بھارتی فوجی کھانے، میڈیکل سہولت، وردی اور چھٹی کی عدم فراہمی کا رونا رو رہے ہیں جبکہ مسلسل ڈیوٹی کے دبائو سے ڈی مورلائیز فوجیوں میں خودکشیوں کا رجحان بھی زور پکڑ رہا ہے۔ دنیا کی بڑی سیاسی و جمہوری ریاست ہونے کا دعویدار ہونے اور دنیا کی عالمی طاقتوں کی بھرپور مدد کے باوجود ہندوستان کا اندرونی سیاسی وسماجی ڈھانچہ ’’وار ہسٹیریا‘‘ کے مرض کےباعث تباہی کی طرف جارہا ہے، ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق آج بھارت ماتا کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکمران ہر وقت بلامقصد ’’وار ایڈونچرز‘‘ میں لگے ہیں اور ریاست میں آدھی آبادی دو وقت کا کھانا اور ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے، ہر سال 45فی صد بچے بنیادی صحت کے مسائل سے دوچار ہوکر قد نہ بڑھنے کی بیماری کا شکار ہورہے ہیں۔ تقریباً 25فی صد آبادی بجلی نامی چیز کی فراہمی تو دور کی بات، نام سے ہی نابلد ہے۔ سماجی، معاشرتی، مذہبی، نسلی عدم مساوات، بچوں و خواتین کو ہراساں و زیادتی کا شکار کرنے سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مسائل الگ ہیں۔ عملی ثبوت اور اقرار یہ ہے کہ ہرسال درجنوں بھارتی فلمیں انہی موضوعات پر بنائی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھا کر 5لاکھ تک پہنچا دی ہے، پیلٹ گنز سے فائرنگ، روزانہ بدترین پرتشدد کارروائیوں اور معصوم شہریوں کے قتل عام کے باوجود کشمیریوں کی آزادی و خودمختاری کی مقامی تحریک کو دبایا جاسکا نہ ہی ختم کیا جاسکا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے اعداد و شمار پر مبنی ایک حالیہ رپورٹ بھارت کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لئے کافی ہے لیکن اس کا رویہ تو بدمست ہاتھی کے مصداق ہے۔ گوسفارتی تجزیہ کار وزیراعظم عمران خان کی امن مذاکرات کی پیشکش قبول کرکے مکر جانے کے پیچھے بھی بھارت کے اندر سیاسی و سلامتی کے بڑھتے اندرونی خلفشار کو قرار دیتے ہیں، بھارتی سیاسی و عسکری قیادت اس صورت حال پر قابو پانے میں ناکامی و نااہلی کو نیا محاذ کھول کر چھپانا اور دبانا چاہتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چائے بیچنے والا وزیراعظم تو بنا لیکن اپنے سوچنے سمجھنے کی استعداد اور سماجی و سیاسی رویوں میں تبدیلی نہ لاسکا اور پہلے دن سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کےہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے، بعض بھارتی تجزیہ کار اندر کی بات کا انکشاف کرتےہیں کہ اس بار بھی ہاں کے فوری بعد ناں کے پیچھے ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے جس نے بنتی بات گھنٹوں میں بگاڑ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ میز پر بیٹھنے سےانکار کی دو بڑی وجوہات سامنے آرہی ہیں۔ ایک بھارت میں چند ماہ بعد ہونیوالے انتخابات اور دوسرا مودی پر فرانس کے ساتھ 8.7ارب ڈالرز کی لڑاکا جیٹس کی بزنس مین انیل امبانی کےذریعے ڈیل میں مبینہ کرپشن کے بدترین الزامات۔ جس پر کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی تو کہہ چکے ہیں کہ قوم جانتی تھی کہ مودی بڑا چور ہےجس نے اپنے گھر پر ڈاکہ ڈالا۔ اب اس ڈیفنس ڈیل میں چند بڑے وردی والے بھی تو ہونگے لہٰذا امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے فوج کے سربراہ کو عین وقت پر خود بیان بازی کیلئے کودنا پڑا اور لمحوں میں محبت کی بات جنگ کی دھمکیوں میں بدل گئی۔ کہا جارہا ہے کہ مودی کو آئندہ انتخابات میں عوامی احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے کہ عوام سوال کر سکتے ہیں کہ پانچ برسوں میں مودی اور ان کی سرکار نے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے کیا اقدامات کئے؟

دوسری طرف زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی عوام اور اس کی بہادر مسلح افواج نےگزشتہ دو دہائیوں سے روایتی اور ففتھ جنریشن وار کامیابی سے لڑی اور اب بھی پوری قوت سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ افغان سرزمین سے بھارتی دہشت گردی اورگمراہ کن سازشوں کے باوجود قیمتی جانوں کی بڑی قربانیاں دے کر ارض پاک سےدہشت گردی کاتقریباً خاتمہ کردیا ہے۔ تقابلی جائزے میں یاد رکھنا چاہئے کہ بھارتی فوج محض کشمیریوں پر تشدد اور سرحدی علاقوں کے نہتے افراد پر بلااشتعال گولیاں برسا کرکے اپنی طاقت کا اظہار کر رہی جبکہ پاکستان کی فوج مسلسل میدان جنگ میں رہنے کی وجہ سے بھرپور جذبے سے سرشار اور دشمن کے ناپاک عزائم تباہ و برباد کرنے کےلئے ہمہ تن تیار ہے،21 کروڑ عوام کے ساتھ پاکستان کی عسکری و تمام سیاسی قیادت ملکی سلامتی کے تحفظ کےمعاملے پر ایک صفحے پر ہیں۔ اس کےباوجود صبر و تحمل اور امن کی بات کی جارہی ہےجس کا مطلب اور مقصد کمزوری نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو لڑائی کے عذاب میں جھونکنے کی بجائے راحت و سکون کی زندگیاں بسر کرنےکےخواب کی تعبیر حاصل کرنا ہے۔

دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان پہل کرچکا اب بھارت کو ہاتھ آگے بڑھانے کا حوصلہ کرنا ہوگا کیونکہ سچ یہی ہے کہ جنگ کا کوئی امکان ہے نہ ہی جنگ کوئی آپشن، دنیا کے تمام تنازعات اور مسائل کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں۔

تازہ ترین