• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بات تو پوری طرح واضح ہے اور اس بات کے شواہد ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی اور ایک طرح سے یہ ایک اچھی مثال ہو گی کہ ایک جمہوری حکومت پہلی بار اپنا ٹرم پورا کرے گی۔ اس سے پہلے بھی حالانکہ جو حکومت تھی اس نے اپنی معیاد پوری کی تھی لیکن اس کو سیاسی پارٹیاں غیر جمہوری سیٹ اپ تصور کرتی ہیں اس لئے کہ اس کی سربراہی ایک فوجی جنرل کر رہا تھا۔ اب الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے اور فضا میں کشیدگی بڑھ رہی ہے ماضی میں بھی جب الیکشن کا وقت قریب آتا تھا تو حزب اختلاف کی پارٹیاں یہ الزام لگاتی تھیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی انہیں انتخاب میں دھاندلی ہوتی نظر آنے لگتی ہے جس کو وہ انتخابات سے پہلے کی دھاندلی کا نام دیتے ہیں۔ اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی منظر ہے حالانکہ الیکشن کمیشن کا سربراہ ایسا شخص ہے جس کی ایمانداری اور دیانت داری پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے پھر بھی کبھی ووٹر لسٹوں کے حوالے سے اعتراضات ہو رہے ہیں اور کبھی حلقہ بندیوں کے حوالے سے اور یہ اس لئے کیاجا رہا ہے تاکہ انتخابی عمل سے عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے اور ایسا وہ سیاسی پارٹیاں اکثر کرتی ہیں جن کا ووٹ بینک ایسا نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں رہا الیکشن میں دھاندلی کا مسئلہ تو یہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتی ہے جس کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی ہے امریکا میں جب سابق صدر بش جونیئر نے الیکشن جیتا تو اس میں ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی ہوئی تھی لیکن پاکستان میں اس کی نوعیت بالکل مختلف ہے جب بھی الیکشن ہوتا ہے یہ کہا جانے لگتا ہے کہ دھاندلی ہو گی اور جب انتخابات ہو جاتے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ الیکشن انجینئرڈ تھے۔ اس دفعہ ایک اور صورت حال سامنے آئی ہے سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی ہے کہ پنجابیوں، پختونوں اور سندھیوں کے ووٹ ان کے آبائی حلقوں میں تبدیل کر دیئے گئے ہیں ایسے ووٹرز کی تعداد تیس لاکھ بتائی گئی ہے اب اس کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گا کہ اس دعوے میں کہاں تک صداقت ہے ایک ووٹر ایک حلقے میں رجسٹرڈ ووٹر ہو سکتا ہے کئی حلقوں میں یا دو حلقوں میں وہ ووٹر نہیں ہو سکتا۔
ماضی کی طرح یہ بھی ہوتا ہے کہ اس چیز کو اچھالا جائے گا کہ ووٹر لسٹوں میں اتنے لاکھ ووٹوں کا اندراج نہیں ہے اس لئے پہلے ان کو رجسٹرڈ کیا جائے ورنہ ایک بڑی اکثریت حق رائے دہی سے محروم رہ جائے گی یہ ایک ایشو بنا دیا جائے گا کہ الیکشن کمیشن دباؤ میں آجائے پھر بعض سیاسی لوگ یہ کہیں گے کہ لاکھوں لوگوں کے پاس نادرا کے بنائے ہوئے نئے کارڈ نہیں ہیں اس لئے انہیں پرانے شناختی کارڈوں پر ووٹ ڈالنے دیئے جائیں الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھایا جائے گا میڈیا میں اسے خوب اچھالا جائے گا لیکن موجودہ الیکشن کمشنر اس صورت حال کو جس کا راستہ دھاندلی کی طرف جاتا ہے یا پھر الیکشن کو ملتوی کرانے کی طرف کبھی قبول نہیں کرے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم کو کون نہیں جانتا کہ یہ وہ شخص ہے جو اصولوں کی خاطر استعفیٰ دے سکتا ہے جھک نہیں سکتا۔ جب وہ سندھ کے گورنر تھے جب بھی ایسا ہی ہوا اور جب معراج خالد کی عبوری حکومت میں وزیر قانون تھے تب بھی ایسا ہی ہوا۔
اب جب الیکشن سر پرآگیا ہے تو اصغر خان کے کیس کا فیصلہ آگیا۔ اس فیصلے نے ماضی کی دھاندلی کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا سیاستدانوں کی بھی پول کھل گئی عمران خان کا یہ کہنا اور مطالبہ اپنی جگہ وزن رکھتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے آئی ایس آئی سے قیمتیں وصول کی ہی انہیں انتخاب میں حصہ نہیں لینا چاہیئے اس لئے کہ ان کی شہرت اور اخلاقی حیثیت داغدار ہو گئی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان ایک نڈر کھلے ذہن کا اور سچا شخص ہے اس نے جو کہا ہے وہ کیا ہے، یہ بات اب بالکل واضح ہو رہی ہے کہ جن لوگوں کے ووٹ کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں ان کا جھکاؤ تیزی سے عمران خان کی جانب بڑھ رہا ہے اس دفعہ بڑا اپ سیٹ پنجاب میں ہوگا اور اس کا بڑا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہو گا ویسے تو پنجاب میں ووٹروں کی نفسیات اور مجبوریاں ایسی ہیں کہ وہ برادریوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں اگر عمران خان کی پارٹی میڈیا اور سیاسی عزم کی بدولت نوجوانوں کو اپنی طرف کر سکے اور نوجوان ان کے پیچھے آگئے تو پنجاب میں کوئی دوسری پارٹی ان سے ملے بغیر حکومت نہیں بنا سکے گی۔
ابھی ایک نعرہ اور لگایا جائے گا جب غیر جانبدار حکومت اقتدار سنبھالے گی کہ الیکشن بعد میں ہوں پہلے سیاست دانوں کا اور اقتدار میں رہنے والوں کا محاسبہ کیا جائے یہ اس وقت بھی ہوا تھا جب معراج خالد کو عبوری دور کے لئے وزیراعظم بنایا گیا تھا کہ پہلے احتساب کیا جائے، معراج خالد اس سوچ کے حامی تھے لیکن اس وقت کے صدر نے انہیں اس سے باز رکھا۔
سیاست کی نیرنگی تو دیکھئے کہ آج تک نہ ان سو (100) سیاستدانوں کا پتہ چلا جن کے متعلق اصغر خان نے سپریم کورٹ کو سو کرپٹ سیاستدانوں کے ناموں سے آگاہ کیا تھا انہوں نے 1996 میں سپریم کورٹ میں ایک رٹ دائر کی تھی جس میں انہوں نے 1985 کے بعد کرپشن میں ملوث سیاستدانوں کے بارے میں ثبوت فراہم کئے تھے اس حوالے سے خبر 12 اگست کے جنگ میں شائع ہوئی تھی اور میں نے اس پر کالم بھی لکھا تھا جو 8ستمبر 2003 کے جنگ میں شائع ہوا تھا کیا اچھا ہوتا اگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اصغر خان کی اس رٹ کو بھی اصغر خان کے موجودہ کیس کے ساتھ فیصلے کے لئے شامل کر لیتے تو کم از کم لوگوں کو یہ تو معلوم ہو جاتا کہ وہ سو کرپٹ سیاستدان کون تھے۔ اصغر خان اگر اس پٹیشن کی ایک نقل میڈیا کو دے دیں تو یہ ان کا قوم پر اور پاکستان پر بڑا احسان ہو گا۔
تازہ ترین