• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ حکومت ہند نے گزشتہ ہفتے ایک ایڈوائزری جاری کرکے ریاست جموں و کشمیر کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں 29 ستمبر کو ’سرجیکل اسٹرائیک ڈے‘ منانے کا ایک حکمنامہ جاری کیا تھا تاہم زمینی سطح پر خاص طورپروادی کشمیر میں ایسی کسی تقریب کی کوئی اطلاع نہیں ملی- 29 ستمبر کی شام کو میں نے سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن سے کشمیری خبروں کا بلیٹن بڑے غور سے دیکھا مگر اس دن کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تقریب کی کوئی خبر نہیں ملی- چند دن پہلے کشمیری اسکولوں کیلئے جاری سرکاری اعلامیے میں تقریبات کے اہتمام کے علاوہ فوجیوں کی عزت افزائی کیلئے اقدامات کرنے کیلئے بھی کہا گیا تھا- دو سال پہلے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی موجودہ حکومت نے ایک دعوی کیا کہ بھارتی فوج کے کمانڈو دستوں نے پاکستانی سرحد کے اندر گھس کر سات مختلف مقامات پر کشمیری عسکریت پسندوں اور پاکستانی فوج کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے کئی افراد کو مار دیا تھا کیونکہ بقول اسکے وہاں سے بھارتی خطے میں عسکریت پسندوں کو دھکیلنے کی کوشش کی جارہی تھی- اگرچہ پاکستانی فوج نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی تھی اور کئی مقامی اور بین الاقوامی صحافیوں کو بھارتی اعلانات میں شامل وقوعہ کی جگہوں کا معائنہ کراکر ان دعوؤں کی تردید کرنے کی کوشش کی مگر مودی حکومت بضد ہے کہ انکے فوجیوں نے پاکستان کی سرحد روندھ کے کئی میل اندر گھس کر حملہ کیا- مودی حکومت کے دعوؤں کے باوجود پاکستانی حکومت کے انکار نے حالات کو کافی حد تک سنبھالا دیا اور یوں حالات بگڑنے سے بچ گئےتھے- مگر اس سال مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مبینہ واقعے کی دوسری سالگرہ کو قومی سطح پر’’سرجیکل اسٹرائیک ڈے‘‘ کی طور پر بنایا جائے- اس فیصلے کے چند دن بعد ہائر ایجوکیشن کے مرکزی ادارے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے ایک سرکاری اعلامیہ جاری کرکے یونیورسٹیوں اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں پر زور دیا کہ وہ اس دن کو’’سرجیکل اسٹرائیک ڈے‘‘کے طور پر منائے- یو جی سی کے اعلامئیے کے مطابق جس قسم کی تقریبات کی صلاح دے گئی اس سے تو یہی لگتا ہے کہ موجودہ حکومت پورے ملک میں ایک قسم کا جنگی جنون پیدا کرنے کے درپے ہے جس سے پاک بھارت تعلقات پر منفی اثرات کے علاوہ اور کوئی امید نہیں کی جاسکتی- بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے مودی سرکار پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنگی جنون کو بڑھاوا دے کر اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے- مزید برآں حال ہی میں رافائیل نامی فرانسیسی جنگی ہوائی جہازوں کے حوالے سے مودی حکومت پر کرپشن کے بھاری الزامات لگ چکے ہیں جن سے توجہ ہٹانے کیلئے اپوزیشن کے بقول حکومت مختلف حربے استعمال کررہی ہے-

عمران خان کے حکومت سنبھالتے ہی امید بندھ گئی تھی کہ شاید پاک بھارت تعلقات میں کچھ بہتری پیدا ہو- میاں نواز شریف صاحب کی گزشتہ حکومت نے بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی کافی کوشش کی مگر چونکہ وہ اداروں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس لئے انکی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں- اسکے علاوہ میاں صاحب پر بار بار یہ الزام بھی لگا کہ وہ اپنے ذاتی تجارتی مقاصد کیلئے بھارت کیساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں جسکی وجہ سے کئی حلقوں کی جانب سے انکی کوششوں کی مزاحمت کی گئی- خان صاحب نے الیکشن سے قبل اور اپنی کامیابی کے فورا بعد بھارت سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی بھر پور کوشش کی اور حالات بہتری کی طرف بڑھتے بڑھتے اچانک نہ صرف دوبارہ رک گئے بلکہ ایسالگا جیسے جنگ کا بگل بج گیا ہے- بھارتی فوجی چیف جرنل بپن راوت جو سخت بیانات دینے اور غیر سفارتی زبان استعمال کرنے میں مشہور ہیں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان پر ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا وقت آ گیا ہے- اس کے جواب میں اگرچہ پاک فوجی ترجمان کا بیان بہتر تھا مگر اس میں بھی جنگ کے بدلے جنگ کی بات کی گئی اور یوں بیان بازی کا ماحول مزید گرم ہوگیا- پھر بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھارتی فوج کی طرف سے ’’ایک بہت بڑی کارروائی‘‘کا عندیہ دیا جو با الفاظ دیگر ایک اور سرجیکل اسٹرئیک کی طرف اشارہ تھا- یہ الگ بات ہے کہ بھارت میں اسے فی الحال سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا- اس کے ساتھ ہی جنگی بیانات کا وہ لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا کہ الامان و الحفیظ- سب سے زیادہ بیانات تو ان حلقوں کی طرف سے آئے جنہیں شاید ہی کبھی جنگ جیسے حالات کے سامنا ہوا ہو یا وہ ایسے حالات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا فہم رکھتے ہوں- اپنی دانست میں حب الوطنی کا دم بھرنے والے کئی اخبار نویس دوست بھی اپنے کالموں کے ذریعے جنگی حالات کا دم بھرتے نظر آئے جس سے دل کافی رنجیدہ ہوا-میرے لئے ذاتی طور سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے کئی سینئر سیاستدان بھی اس ہسٹیریا کا شکار ہوتے نظر آئے حالانکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی کشیدگی سے پیدا شدہ جنگی حالات سے آزاد کشمیر کے ہزاروں لوگ متاثر ہو ئے ہیں اور بدستور متاثر ہیں- حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف لوگ فوجی کشیدگی سے ہونے والی گولی باری سے متاثر ہوتے ہیں جس میں اب تک سینکڑوں لوگ جابحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے ہیں- ایسے حالات میں ان سیاستدانوں پر لازم ہے کہ وہ سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کریں تاکہ مستقبل میں جب جذبات پر عقل حاوی ہو تب امن کی کوئی سبیل نکالنے میں تھوڑی بہت گنجائش رہ پائے- اس گمبھیر صورتحال میں بھارتی کنٹرول والے جموں و کشمیر کے بھارت نواز سیاستدان فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا طرز عمل قابل تعریف ہے کہ انہوں نے کئی بار پاک بھارت مزاکرات جاری کرنےکےپر زور دے کر امن برقرار رکھنے کی بات کی-

عمران خان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ایک مدت بعد پاکستان کے عوام کو ایک ایسا رہنما میسر ہوا ہے جو اپنی ذات کے حوالے سے کسی غرورمیں مبتلا نظر نہیں آتا اور جس کے تعلقات تمام اداروں سے نہایت خوشگوار ہیں جس کی وجہ سے وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں- اسکے علاوہ خان صاحب کی سوچ لوکل سطح کے برعکس علاقائی اور بین الاقوامی سطح کا احاطہ کر سکتی ہے-بھارتی لیڈروں کی کسی بھی جنگی زبان یا طرز عمل کے جواب میں اگر حکمت اور تدبر سے کام لیا جائے تو مستقبل میں پورے خطے کیلئے خیر کی کوئی امیدکی جاسکتی ہے-

تازہ ترین