• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی یونیورسٹیوں میں پاکستانی طلباء و طالبات سے ملاقات.

روئے زمین پر اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں برطانیہ کی دویونیورسٹیاں آکسفورڈ اورکیمبرج آج بھی سرفہرست ہیں۔ آکسفورڈ سوشل سائنسزمیں اورکیمبرج نیچرل سائنسز کے میدان میں ممتاز ہے۔ انگلستان میں چرچ کے بے پناہ اثر ورسوخ کے باعث کوئی تعلیمی ادارہ اس کی اجازت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا تھا ان دونوں یونیورسٹیوں کی بنیادبھی چرچ کی خواہش اوراجازت سے رکھی گئی اوریہ دونوں عظیم درسگاہیں آغازمیں مذہبی مدارس کی طرزپرقائم کی گئیں ۔ہرکالج کے وسط میں گرجا گھر ہے جہاں ہراتوارکو عبادت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے قائم ہے مگر نئی نسل میں اب چرچ جانے کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں جو پورے شہرمیں پھیلے ہوئے38 کالجوں ( جن کی مرمت تو ہوتی ہے مگر پرانے طرز تعمیر کو جوں کا توں رکھا گیا ہے )پرمشتمل ہے۔ ساڑھے اکیس ہزارطلباء وطالبات زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی میں تدریس کا سلسلہ 1096ء سے شروع ہوا، کیمبر ج یونیورسٹی 1209میں قائم ہوئی۔ کیمبرج یونیورسٹی میں، جو 31 کالجوں پر مشتمل ہے، ساڑھے اٹھارہ ہزار افراد زیرتعلیم ہیں۔ اس یونیورسٹی کے طلباء واساتذہ میں سے 65 افرادنوبل انعام جیت چکے ہیں جن میں پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں۔ دنیائے اسلام کے عظیم مفکر اور شاعر اعظم علامّہ اقبال بھی کیمبرج میں زیرتعلیم رہے۔ وہ کسی نوبل انعام کے محتاج نہیں تھے کہ ان کی شخصیت مخصوص نقطہ ٴ نظر رکھنے والے ججوں کے منتخب کردہ افراد کو دئیے جانے والے انعامات سے بہت بلندتھی ۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے سابق طلبا میں سے موجودہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت 26 افراد برطانیہ کے وزیر اعظم بنے، اور 20 آرچ بشپ آف کینٹربری کے منصب جلیلہ تک پہنچے۔ پاکستان کے پانچ سابق وزرائے اعظم (لیاقت علی خاں، حسین شہیدسہروردی ،فیروزخاں نون، ذوالفقارعلی بھٹواوربے نظیر بھٹو)آکسفورڈمیں زیر تعلیم رہے ۔سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے عموماًپولیٹیکل سائنس، فلاسفی اوراکنامکس کے مضامین میں گریجوایشن کرتے ہیں۔ کئی صدیوں تک ان اداروں یابرطانیہ کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی ا جازت نہیں تھی۔ 1875ء میں پہلی بارآکسفورڈ میں انڈرگریجوایشن کی سطح تک انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملی۔
آکسفورڈ اور کیمبرج سے پہلے میرا لیکچر لندن سکول آف اکنامکس میں تھا،لندن سکول آف اکنامکس 1895(LSE)ء میں قائم ہوا ۔معروف ڈرامہ نگارجارج برنارڈشا بھی اس کے بانیوں میں تھے۔،اکنامکس ،فنانس اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں یہ ادارہ دنیا کی بہترین درسگاہوں میں شمارہوتاہے۔LSEنے اٹھارہ نوبل انعام جیتے ہیں اوریہاں کے فارغ التحصیل 34افراد کو دنیاکے مختلف ملکوں کی قیادت کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔اس باوقاردرسگاہ کے ساتھ جڑاہوا سکول کا لفظ اس کی امتیازی حیثیت میں کبھی رکاوٹ نہیں بنا، ہمارے ہاں" گورنمنٹ کالج لاہور" ایک تاریخی نام اور تعارف تھا مگر ایک سابق پرنسپل نے بلاوجہ اس کے ساتھ یونیورسٹی کا لفظ نتھی کردیا،جو ایک بچگانہ اور مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔LSEکی پاکستان سوسائٹی کی سب سے متحرک لیڈرمس ثناء بابا ہمیں لیکچرروم تک لے گئیں مجھے "Rule of law and law enforcment challenges in Pakistan" کے موضوع پر بات کرناتھی۔LSEہی کے ایک پروفیسر صاحب نے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ" آج سامعین کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہم پاکستان کے ایک ایسےCredible Police Officerکی باتیں سننے کیلئے جمع ہیں،جن کیIntegrity اورساکھ شک وشبے سے بالاتر ہے" نوجوان طلباء وطالبات نے تقریر پوری توجہ سے سنی ،موضوع سے ہٹ کر گفتگوکا کچھ حصہ ملک کے لیے مختص کیاگیا تھا جس میں نوجوانوں کی غلط فہمیاں اور خدشات دور کرنے کی کوشش کی گئی اس سلسلے میں کہاگیا کہ" انٹرنیشنل میڈیاہمارے ملک کے بارے میں صرف منفی خبریں دیتا ہے جن میں مبالغہ اور تعصب بہت زیادہ ہوتا ہے ملک کے حالات حقیقتاً سکرین پر دکھائی جانے والی تصویروں سے بہت بہترہیں ۔غیرملکی سفارتکار بھی پاکستان کے بارے میں منفی تاثّرلے کرجاتے ہیں مگر جب وہ اسلام آباد میں دوچاردن گذارتے ہیں مری ،بھوربن،نتھیا گلی اور لاہورکی سیرکرتے ہیں توپاکستان کاحسن دیکھ کرمبہوت ہوجاتے ہیں ۔تین سال کے بعد جب وہ پاکستان سے رخصت ہونے لگتے ہیں توان کی آنکھوں میں آنسوہوتے ہیں "انہیں بتایاگیا کہ" 9/11سے پہلے پاکستان میں خودکش حملوں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ہمارے قبائلی علاقے بھی انتہائی پرامن تھے یہ سب کچھ ہمارے بیرونی ”مہربانوں“ کے دئیے ہوئے تحفے ہیں۔ ہماری سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتیں اور جذبے لا زوال ہیں اس وقت ہمارے Settled Areasکی ایک انچ زمین بھی ایسی نہیں ہے جہاں ریاست کی رِٹ قائم نہ ہو ۔ بلوچستان میں آئندہ انتخابات کے بعد حالات یقینی طورپربہت بہتر ہوجائیں گے ۔تمام مشکلات اوربیرونی مداخلت کے باوجود پاکستان کا سفر صحیح سمت پرہے اور کئی منازل طے ہوئی ہیں۔پاکستان میں اس وقت ہرسطح پر عوام کی منتخب کردہ حکومتیں قائم ہیں۔ فوج کی کوئی مداخلت نہیں ہے اوروہ اپنے آئینی فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ عدلیہ کی بالادستی قائم ہے ،ہرروزکوئی بڑاآدمی کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، وزیر گرفتار ہوئے اور وزیراعظم کو برطرف کردیا گیا،کتنے اسلامی یا ایشائی ملکوں میں عدلیہ کا اتنادبدبہ ہے ؟ ہمارا میڈیا اس قدر بے باک اور توانا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اس کے بے رحمانہ احتساب سے نہیں بچتا صرف ایشیا نہیں یورپ میں بھی میڈیا اس قدر آزاد نہیں ہے ،سیاستدانوں میں بالغ نظری پیدا ہوئی ہے اوربڑی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے بھی غیر آئینی راستوں کو مکمل طور پر مسترد کردیاہے جسٹس فخر الدین ابراہیم کی صورت میں قوم نے اتفاق رائے سے ایک نیوٹرل امپائر ڈھونڈ لیا ہے۔پولیس، انتظامیہ، فارن سروس ،انکم ٹیکس، کسٹمز،ریلوے وغیرہ میں اہم ترین اسامیوں پربھرتیاں مقابلے کے امتحان کے ذریعے میرٹ پرہوتی ہیں یہ تمام Indicators ناکا می کے نہیں ،کامیابی، ترقی اور استحکام کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ملک کا مستقبل بہت روشن ہے۔ ہمارے مسائل کا حل یہی ہے کہ جمہوری نظام (جس میں اصلاحات کی بہت گنجائش ہے اور جو بلدیاتی اداروں کے بغیر نا مکمل ہے)بغیررکاوٹ کے چلتا رہے ، یقینا بہت اعلیٰ معیار کی لیڈر شب میسرآجائے گی۔وطن عزیز کے بارے میں غیر روایتی باتیں سن کر اور اس کے روشن پہلو دیکھ کر دیارغیرمیں رہنے والے نوجوانوں کے چہرے کھل اُٹھے۔طلبا و طالبات کی شرکت بڑی بھر پور اور پر جوش تھی۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی سوسائٹی کے صدر عدنان رفیق نے ہمیں ریسیو کیا ۔اِس ذہین اور با صلاحیت نوجوان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے طلبا ء وطالبات کے ساتھ انتہائی Interactiveسیشن کے بعد ڈنر پر بھی گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستانی طلبا ء وطالبات(جن میںBritish Bornپاکستانی بھی شامل تھے) کے ساتھ زیادہ تر دہشت گردی کی dimensions ،کراچی میں امن کے امکانات، بلوچستان کے حالات، کرپشن، پولیس کی ٹریننگ، استعداد اور امن و امان وغیرہ کے بارے میں سوال وجواب ہوتے رہے۔ رات گئے جب عدنان رفیق اور ان کے ساتھی ہمیں کار پارکنگ تک چھوڑنے آئے تو الوداع کرتے ہوئے کہنے لگے "پاکستان کے بارے میں آج کافی غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں ہم انشاء اللہ قائداعظم اورعلامہ اقبال کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملک واپس جائیں گے "۔ کیمبرج یونیورسٹی میں پاکستانی طلباء کا سنجیدہ اور باوقار لیڈرطیب صفدر پی ایچ ڈی کررہا ہے ان کی بیگم شان امان(جو ڈی ایم جی میں گریڈ اٹھارہ کی آفیسر ہیں) بھی وہیں پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ کیمبرج میں بھی نوجوانوں کے ساتھ ایک بھرپور سیشن رہا ۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے قابل نوجوانوں کو اعلی ٰتعلیم کیلئے سکالرشپ دے کر شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی آ گے آنا چاہیے اور بڑے صنعتی گروپس کو بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے سکالر شپ دینا چاہیں۔طیّب کیمبرج کے فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے مجھے مختلف کالج دکھا رہاتھا اور میرا ذہن قرطبہ کی گلیوں میں گھوم رہاتھا، جو آکسفورڈ اور کیمبرج سے کئی سو سال پہلے کرہ ارض پر علوم و فنون کی سب سے بڑی درس گاہ (Greatest Seat of Learning) تھی۔کئی صدیوں تک ہم سپر پاور بھی ر ہے مگرقرطبہ جیسی مزید درسگاہیں نہ بنا سکے۔ اقبال  یہ کہتے ہوئے دل گرفتہ ہوتے تھے کہ ”لے گئے تثلیث کے فرزند میراث ِخلیل“ علم تو مومن کی میراث ہے ہم اپنی میراث کا تحفظ بھی نہ کرسکے ۔ہم اِس راز سے کیوں بے خبر رہے کہ قوموں کی عظمت اور شوکت عظیم الشان مقابر اور مساجد سے نہیں اعلیٰ معیار کی درس گاہوں سے قائم رہتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ آج دنیا کی امامت کا فیصلہ جنگ کے میدان میں نہیں کلاس روموں، لائبریریوں اور لیبارٹریوں میں ہوتا ہے یہ دیکھ کر دل کٹتا ہے کہ ہماری لائبریریوں اور لیبارٹریوں پر تالے پڑے ہیں اور سرکاری سکولوں کے کلاس روم ویران اور بے نورہیں۔ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے فٹ پاتھوں، لیکچر ہالوں اور لائبریریوں میں ایک ہی سوال کا جواب ڈھونڈتا رہا کہ انہیں کیا چیز ہماری درسگاہوں سے ممتاز کرتی ہے؟ہر جانب سے ایک ہی آواز آئی، کہ سنگ وخشت نہیں، نظام اور نصاب اور اُن سے بڑھ کر اساتذہ، نظام، جو طلباء میں سوچنے اور غور کرنے کی صلاحّتیں پیدا کرے ، نصاب جو نئی نسل کو صحیح سمت دکھائے اور گروہوں کو قوم بنا دے اور قابل ترین اساتذہ کی صحبت اورتربیّت۔ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کے اساتذہ کا معیار ہی اس کا وقار اور اعتبار قائم کرتا ہے۔کاش بیرونی ممالک سے تعلیم حاصل کرنے والے حکمرانوں کو کوئی یہ بتادے کہ آج بھی زوال اور پستی سے نکلنے کے تین نُسخے ہیں تعلیم،تعلیم اور تعلیم۔ مستقبل کے حکمران ہی یہ راز کی بات سمجھ لیں کہ زوال سے کمال تک پہنچنے کے لئے تعلیم اور تدریس کو تمام نوکریوں سے زیادہ پرکشش بنانا ہوگا۔تعلیم کے میدان میں صحیح ترقی کا سفر اُس دن شروع ہوگا جب لاہور کےG.C اور LUMSکے فارغ التحصیل نوجوان موازنہ کرنے کے بعد پولیس اور ڈی ایم جی کو ٹھکرا کر لیکچرر شپ اختیار کریں گے جب یورپ اور امریکہ کی طرح ملک کے قابل ترین افراد کی پہلی ترجیح تدریس ہوگی،اس کیلئے شعبہٴ تدریس کو افسر شاہی سے زیادہ محتر م اور با وقار بنانا ہوگا۔ یہ اُسوقت ہوگا جب فیصلہ سازی میں ایک افسر کی بجائے پچاس ماہرینِ تعلیم کی رائے حتمی سمجھی جائے گی۔ یہ تب ہوگا جب لاہوراورکراچی کے جی اوآر ون میں اساتذہ کو رہائش گاہیں ملیں گی اور ہر بڑی تقریب کی پہلی لائن میں وزیروں اور افسروں کی بجائے سکولوں اور کالجوں کے سربراہ بیٹھا کریں گے۔
تازہ ترین