• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نسیم درّانی

آپ سے بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے، باتیں اپنی کیفیت، اپنے احساس اور اپنے تجربے کی اور اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہوں۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ آج شعر و ادب کا چوتھائی صدی قبل کا دور یاد آرہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس چوتھائی صدی میں ادب میں جو تبدیلی آئی ہے، اس نے ہم سب کو ایک بڑے سوالیہ نشان کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ پہلے، جب کوئی اچھا شعر، افسانہ، مضمون کہیں چھپتا اور نظر سے گزرتا تھا تو ایک عجیب سر خوشی اور سرمستی کا احساس ہوتا تھا، زندگی کی کوئی ان دیکھی جہت، کوئی نیا رخ، کوئی زاویہ، آواز دیتا تھا، ایک تکمیل کا احساس ہوتا تھا، بات کہے جانے کی انجانی مسرت، زندگی کے ناآسودہ گوشوں کی تکمیل کرتی تھی اور پھر ہفتوں، مہینوں بات چلتی تھی، کیونکہ بات تو چلنے ہی کا نام ہے۔ نئی کتاب، رسالے کا نیا شمارہ، کوئی نیا نام، ایسی کشش رکھتا تھا کہ دنیا اور کاروبارِ دنیا سب ثانوی شے بن کر رہ جاتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے، ایک بے نام افسردہ ہم رنگی، ایک بے احساس تسلسل، ایک بے خواب تعبیروں کا سلسلہ، چاروں اور پھیلا ہوا ہے۔ ایک ایسی تھکن، ایسی دل شکستگی، ایسی بے معنویت کا احساس ہوتا ہے کہ بایدو شاید! آخر یہ سب کیا ہے؟ ادب تو اب بھی لکھا جارہا ہے، بلکہ کمیت میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے، روز کوئی نہ کوئی کتاب منظرِ عام پہ آجاتی ہے اور پھر پس منظر کے دھندلکوں میں ڈوب جاتی ہے، اتنی گہری کہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس نام کی کوئی کتاب شائع بھی ہوئی تھی۔

آخر ہوا کیا ہے…؟

زمانہ بدل گیا ہے، ادب بدل گیا ہے یا ہم بدل گئے ہیں، وہ نہیں رہے، جو تھے اور جو ’’تھے‘‘ کا سلسلہ ، زلفِ دراز کی طرح دور تک پھیلا ہوا ہے۔ بات کہاں سے چل کر کہاں پہنچتی ہے۔ ذرا اس سلسلۂ زنجیر کی کڑیوں کو آپ بھی شمارکرتے چلیں۔ ادب کا کاروبار جاری ہے، کاروبارِ شوق بند ہوگیا ہے، ادبی رسائل اب بھی چھپ رہے ہیں اور ادب بھی بظاہر لکھا ہی جارہا ہے۔ یوں نہ ہوتا تو پتلے پتلےماہناموں سے لے کر ضخیم سالنامے، جو حسبِ معمول چھپ بھی رے ہیں اور بکتے بھی ہیں، کیسے سامنے آتے؟ پر وہ ’’بات‘‘ نہیں ہے، مولوی مدن والی۔

خیال آتا ہے کہ شاید معاشرے کی ترجیحات بدل گئی ہیں، معاشرہ تو ہمیشہ اپنی ڈگر پر چلتا آیا ہے۔ پھر کیا ہے؟ ہماری ترجیحات میں فرق آگیا ہے؟ ہماری نظر بدل گئی ہے؟ یا زاویۂ نظر تبدیل ہوگیا ہے، آخر قصہ ہے کیا؟

شاید ہم سب جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں، اقدار کے نام پر، اصولوں کے نام پر اور سب سے بڑھ کر ادب کے نام پر۔ ادب شاید کسی ’’مرحوم‘‘ شے کا نام ہے، جو خود نہیں رہا، مگر نام چھوڑ گیا ہے، یاد کرنے کے لیے، تکرار کے لیے، اعادے کے لیے، تحفظ کے لیے اور شاید سب سے بڑھ کر معاشی خوشحالی کے لیے، خوش مقالی کے لیے، تو کیا پھر خوشحالی ادب کی دشمن ہے؟ یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، یہ زہر، رگ و پے میں اُتر گیا ہے۔ وہ فقر و استغنا کہاں گئے اور کہاں گئی ادیب کی وہ قلندری، جو خرقہ و عبا اور طرۂ و کلاہ کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ اب تو ادب، خود ادیب کا کاسۂ گدائی ہے، جو در بہ در اُنہی کے سامنے دستِ سوال دراز کرتا نظر آتا ہے، جن کا وہ سب سے بڑا ناقد، سب سے بڑا پارکھ تھا، تو پھر خرابی، ادب کی نہیں، ادیبوں کی ہے، اب سوال ٹھتا ہے کہ کیا ہر لکھنے والا ادیب کہلانے کا مستحق ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے آپ سے چاہیے!

تازہ ترین