• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران حکومت اپنے وجود کے دن سے ہی اپنے ’’نحیف مینڈیٹ‘‘ کے وزن سے لڑکھڑا رہی ہے، پرانے پاکستان کے قرضوں کے بوجھ نے نوجوانوں کے پرعزم لیڈر کو تمام تر دعوئوں اور وعدوں کےباوجود غریب اور متوسط طبقے کی زندگیوں کو مشکل بنانے کے فیصلوں پر مجبور کردیاہے۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کی فہرست طویل ہے لیکن عمل کا راستہ بدستور نظر نہیں آرہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ جو کام اپوزیشن کو پارلیمنٹ کےاندر یا باہر کرنا چاہئے اس کا ذمہ بھی وزیر، مشیر اپنےسر لئے ہوئے ہیں اور دن رات اپنی جگ ہنسائی میں مصروف ہیں۔ پچھلے ’’کرپٹ‘‘ ادوار میں کمیٹیز اور گروپس بنائےجاتے تھے اب کی بار ’’ٹاسک فورسز‘‘ کےنام پر آزمائے ناآزمودہ پرانے چہروں نے حکمرانوں اور عوام کو بےوقوف بنانے کا کامیابی سے دوبارہ ٹھیکہ لے لیا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ خدانخواستہ اس بار بھی وہ ہاتھ کی صفائی دکھانے کے بعد ٹکا سا جواب دیں گےکہ ، ’’وہ ان حالات میں مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے‘‘۔ خان صاحب نے سو دن مانگے تھے لیکن50 دن کے بعد ہی حکومتی اقدامات اور کارکردگی پر پہلا عوامی نتیجہ آگیا ہے جی ہاں عوام کی عدالت سے،2018 کے عام انتخابات کےبعد پہلے بڑے ضمنی انتخابات کےنتائج نے خان صاحب کو اپنی ہی جیتی ہوئی دو نشستوں سےمحروم کرکے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ عوام ان کے اب تک کے فیصلوں سے مطمئن اور متفق نہیں، ووٹ کے ذریعے اتنا سخت عوامی ردعمل تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے لئے بڑا سبق ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ضمنی انتخابات بالعموم ایسے ہی نتائج دیتے ہیں، ووٹرز کا عدم رجحان کم ٹرن اوور بھی وجہ ہوسکتاہے، لیکن اقتدار کے رسیا ماضی کے پٹے گھوڑے ہی اگر باکردار عوامی چہروں پر قابل ترجیح بنیں گے تو نتائج ہمیشہ یہی آئیں گے۔ اچھنبے کی بات ہےکہ معمولی اکثریت سے اقتدار حاصل کرنے والی پی ٹی آئی کے ساتھ ضمنی انتخابی دنگل میں ن لیگ نے تمام تر پریشرز کےباوجود مقابلہ 4،4سے برابر کردیا ہے یوں اہم نشستیں کھونے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت پر گرفت مزید کمزور اور حلیفوں کی بلیک میلنگ میں مزید اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان یقیناً سرسبز و شاداب اور صاف پاکستان بنانے کےلئے کوشاں ہیں لیکن بائی الیکشن ٹریلر بتارہا ہے کہ خان صاحب کی ’’صفائی‘‘ مہم میں عوام نے بھرپور حصہ لیا ہے لیکن ووٹوں کی صفائی کی صورت میں.....! اقتدار میں رہتے ہوئے قومی اداروں کی زیرنگرانی شفاف ضمنی انتخابات سے آنے والا یہ عوامی فیڈبیک ہرقسم کی حکومت کو اپنی حکمت عملی کو جانچنے کا یقیناً ایسا سنہری سبق آموز موقع بن گیاہے کہ بقا اسی میں ہے کہ پہلے جھٹکے میں ہی سنبھل جایاجائے۔ بلاشبہ ملک جس مشکل صورت حال سے دوچار ہے یہ پچاس روز میں تحریک انصاف کی نوزائیدہ حکومت کی پیدا کردہ نہیں، جمہوری دور ہو یا ڈکٹیٹر شپ بدقسمتی سے اس ملک اور عوام پر روز نت نئے اور بدترین تجربات کئے جاتے رہے ہیں، عوام کو کبھی سچ بتایا گیا نہ ہی ان کے مفادات کا کبھی سوچا گیا، مان بھی لیا جائے کہ شب خون مارنے والے آمر ظالم تھے اور محض اقتدار چاہتے تھے تو منتخب نمائندوں اور جمہوریت نوازوں نے اس ملک کے ساتھ40 برس میں کیا کچھ نہیں کیا، یقیناً ملک کو آئین دینا، ایٹمی قوت بنانا اور سڑکوں کی تعمیر جیسے بڑے اقدامات ان کے ماتھے کا جھومر ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کی مشکلات کا ازالہ، خوراک، صحت، تعلیم، روزگار، چھت اور خوشحال زندگیوں کی فراہمی بھی تو اسلامی و جمہوری اصولوں کےمطابق ان ہی کی ذمہ داری تھی، کیا کسی نے سنا کہ پگڑی غریب ووٹر کے قدموں میں رکھ کر منتخب ہونے والے ہر ضلع سے دو ایم این ایز اور چار ایم پی اے ایز میں سے کبھی کسی نے اپنے علاقے میں اسپتال نہ ہونے یا اسپتالوں میں ڈاکٹر سمیت بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی پر ڈیسک توڑے ہوں، کسی نےسنا کہ کسی رکن اسمبلی نےاپنے گائوں میں تعلیمی ادارے نہ بنائے جانے یا عمارت میں گدھے باندھے جانے کےخلاف واک آوٹ کیا ہو۔ اس ملک کا70 فی صد غریب طبقہ کیا جانے کہ ماضی کے جمہوریت نوازوں کا غریب کے نام پر لیا گیا30 ہزار ارب کا قرضہ اس کی زندگی سنوارے بغیر کہاں گیا؟ کوئی مانے نہ مانے ہمارے بڑے طبقے کے بڑے فیصلوں کا نتیجہ ضمنی انتخابات کے میدان سے آگیا ہے، شاید اسی منہ توڑ جواب سے کوئی اصلاح کا پہلو مل جائے، شاید یہ پہلا جھٹکا نئی مثبت معاشی پالیسیوں کی سمت طے کردے ،آئی ایم ایف سےمزید قرض کے بجائےمقامی متبادل آپشن کے لئے سوچ بچار کا سبب بن جائے، شاید عظمت و طاقت کےمینار ادارے اپنے اخراجات کو کچھ حد تک قربان کرنے کا سوچنے پر مجبور ہو سکیں، شاید جمہور کے ووٹوں سے جمہوریت کو مضبوط بنانے پارلیمنٹ کی عالی شان عمارت میں آنے والے اپنا پیٹ کاٹنے کی بات کرنے پر مجبور ہوجائیں...... یہ سب کچھ ہو نہ ہو اگر کسی میں سوچنے اور سمجھنے کی معمولی صلاحیت بھی ہو تو حالات گواہ ہیں کہ کیا ایک اکیلا عمران خان جیسا ہمت و محنت کا دھنی ہر قسم کی بیماری میں مبتلا قوم کو مصیبت سے تن تنہا کیسے نکال سکتا ہے، کوئی ایک جماعت اس ملک کو درپیش سنگین چیلنجز سے کیسے نمٹ سکتی، حقیقت یہی ہےکہ ہرقسم کی پریشانیوں اورابتلا کی کیفیت سے نکلنے کے لئے پوری قوم کو متحد اور ایک پاکستان بننا پڑے گا۔

تازہ ترین