• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی میں اس موقف کا حامی بھی ہوجاتا ہوں کہ انسان واقعی درندے کی ایک حد تک ترقی یافتہ شکل ہے۔ میں اس کے دماغ میں اب بھی بعض وہ اجزاء زندہ اور متحرک دیکھتا ہوں جو اسے قتل و غارت پر آمادہ رکھتے ہیں۔
اگر یہ واقعی ارتکاء کا کوئی سلسلہ ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ آئندہ بھی …وہ آئندہ جب بھی آئے…ہزار برس دو ہزار برس جب انسان درندگی سے بالکل بری ہوجائے گا شاید ارتکاء کی تاریخ جدید ترین نقطہٴ نظر سے سمجھتے ہوئے یہ توقع بھی درست ہو کہ ہم اس کی تبلیغ کرکے چند بغلیں بھی بجاسکتے ہیں مگر تاکہ…اور اصل مسئلہ تو آج کے حوالے سے زیرغور آیا اور یہ سوال ساتھ لایا ہے کہ انسانوں میں بات بات پر جو قتل و غارت آج رواں ہے اس کا کیا کیا جائے۔ مستقبل مستقبل سے ہی، اس کی نہایت بڑی اہمیت اپنی جگہ مگر ہم آج کیا کریں کہ آج کے باہمی ظلم و غارت سے مستقلاً محفوظ ہوجائیں۔ یقینا مذہب نے ، مذاہب نے اس سمت میں ایک بڑا کردار ادا کیا لیکن بالآخر، تاحال، انسانی سماج سے ناانصافی اور ظلم و غارت کو عارضی طور پر بھی ختم کرنے میں نام رہے۔ بعض مواقع پر تو مذاہب نے باہمی ظلم و غارت کو عجیب و غریب کردار بھی ادا کئے۔ بتایئے خدا کے نام پر اس کے بندوں کا قتل و غارت کیا معنی رکھتا ہے۔ اغلباً صرف یہی کہ ابھی آپ درجہ انسانیت تک نہیں پہنچے ہیں اور آپ میں درندگی کے بعض اجزاء ابھی تک پرورش پارہے ہیں۔
ورنہ…ورنہ پھر اس صورت کو کس نام سے یاد کیا جائے؟ نام بہت ہیں مگر خدا لگتی بات یہی ہے کہ ابھی ہمارا انسانی معاشرہ اس قابل نہیں۔ کیا ہم اس صورتحال کو اگلی چند صدیوں تک جانے سے قطعاً نہیں روک سکتے؟ افسوس اور معذرت کہ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے لیکن مکمل مایوسی کی کوئی وجہ نہیں یہی حقیقت کہ انسان ارتکاء کے پروسس میں ہے، اس امید کے لئے کافی ہے کہ انسان آئندہ کبھی نہ کبھی واقعی انسان بن جائے گا، لیکن!!
لیکن اول تو یہ فکر آج کے بدترین غیرانسانی حالات کو نظرانداز کرنے کے لئے دوم آئندہ کا یہ خوفناک تصور آج کے لئے کسی پُرمسرت اور اطمینان بخش زندگی کی راہ میں ایک خاصا بڑا حارج ہے۔
اگر آپ کو یہاں میرے تجزیئے سے اختلاف نہیں تو پھر آپ کو میرے ساتھ مل کر سوچنا ہوگا۔ اگر اختلاف ہے تو بے شک آپ آزاد ہیں آپ خالصتاً اپنے طور سے جو چاہے سوچیں اور جو اس سوچ کا نتیجہ ہو اس کے مطابق عمل کریں۔
لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آپ معاشرے کی موجودہ صورتحال سے سخت نامطمئن ہیں۔ بطور خاص یہ بات بات پر قتل و غارت کے جو خونی واقعات پیش آتے ہیں وہ آپ کو شاید مجھ سے بھی زیادہ ستاتے ہیں یعنی تمام تر واقعات کے باوجود سکون اور ترقی کی طرف راغب ضرور ہے۔ اسے ایک عالم سکون میں اپنی اگلی نسلوں کے لئے سکون اور مستقل باہمی تعاون کیلئے عظیم امکانات برابر نظر آتے رہتے ہیں۔
تو بے شک مستقبل پر رجائیت کے ساتھ سوچئے بلکہ اسے نور یہ نور ہی دیکھئے لیکن…
لیکن کیا یہ سب بھی آپ، آج کو ایک طرف ڈال کر شروع کرسکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں بلکہ بدیہی جواب ہے کہ نہیں، نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ انسانی ذہن ایک مستقل قسم کا جمود اختیار نہیں کرسکتا۔
تو پھر ہمیں شعوری طور پر کیا کرنا چاہئے؟ بدیہی جواب ہے کہ نئی نئی ترقی کے اقدامات وضع کرنا اور ان پر عمل کرنا۔ مگر یہ جواب تو صدیوں سے موجود ہے لیکن اس پر عمل کی جو رفتار پیدا ہوئی وہ بھی ہمیں صدیوں سے معلوم نہیں لیکن ہم آج بھی، تمام محترم مذاہب کے باوجود ایک بحرانی اور غیرانسانی حالت میں ہیں۔
اور اس امر کی تحقیق بھی ہوچکی ہے، کبھی کی ہوچکی ہے اور بار بار ہوتی رہتی ہے کہ ایسا کیوں ہوا اورکیوں ہو رہا ہے۔
وہ تحقیق یہ بتاتی رہتی ہے اور بتارہی ہے کہ سب جھگڑوں کی بنیاد باہمی ناانصافی ہے۔ ژانی ژاک روسو کا کہنا تھا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جدھر دیکھوں پابہ زنجیر ہے۔ یہ بات روسو نے کوئی ڈھائی سو برس پہلے کہی تھی مگر آج کے حالات اور ماحول پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ باقی باقی
تازہ ترین