• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امید ہے آئندہ کچھ مہینوں میں پاکستانی عوام پانچ سال کے عرصے کے لئے ایک نئی حکومت منتخب کرنے والے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشوروں کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ مجھے توقع ہے اس کالم سے انہیں اپنے معاشی منشوروں کو حتمی طور پر متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ نئی حکومت کو کن اہم ترین مسائل کا سامنا ہو گا؟ صاف بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی پانچ سالہ معاشی بدانتظامی نے ملک کی معیشت کو اس حد تک مسخ کر دیا ہے کہ آج اس کی صورت پہچان سے باہر ہے۔ میکرو اکنامک کی کمزور پالیسیاں، زوال پذیر انفرااسٹرکچر اور خراب طرز حکومت معیشت کی ’باقاعدہ‘ تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ موجودہ حکومت کے عرصہ اقتدار کے دوران متعدد مبصرین، عالمی مالی ادارے اور درجات کا تعین کرنے والی ایجنسیاں پاکستانی معیشت کی مسلسل بڑھتی کمزوریوں کو اجاگر کر چکی ہیں اور انہوں نے ان سے نمٹنے کے لئے قابل عمل حل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ معیشت کبھی بھی حکومت کی نظر میں نہیں رہی اس لئے ان مشوروں کی صدا نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہوئی۔ اس دوران معیشت کی رگوں سے بدستور خون جاری رہا اور قوم اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے جا رہی ہے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کے پانچ سال ’تباہی کی طرف دوڑ‘ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ نئی حکومت کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ اب کام کرنے کا معمول کا طریق کار کارگر نہیں ہو گا اور اسے معیشت کے احیاء کے لئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہو گی۔ نئی حکومت کو یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ معاشی احیاء کے لئے کوئی چور راستہ نہیں ہے۔ درحقیقت کسی بھی سطح کے احیاء کے لئے تحمل اور معاشی نظم و نسق کے ساتھ طویل عزم درکار ہو گا۔ معاشی احیاء کی کسی بھی قابل اعتبار حکمت عملی کے دو بنیادی ستون ہوں گے، با سہولت سرمایہ کاری کے ماحول کی تخلیق اور غریب افراد کی فلاح و استحکام تاکہ وہ اس نمو کا حصہ بن کر اس کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکیں۔ نجی شعبہ نہ صرف نمو کا بنیادی انجن ہے بلکہ یہ روزگار کے موقعوں کی پیدائش کا اہم ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے نمو کو فروغ دینے کے لئے نجی شعبے کی ترقی شہہ رگ کی طرح اہم ہو گی جس سے ملازمتوں کے موقعوں کی پیدائش کے علاوہ غربت میں کمی آئے گی۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کا بہت بڑا حصہ نجی شعبے کے پاس ہے جو اپنی90فی صد لیبر فورس کو رو زگار فراہم کر رہا ہے مگر صرف سادہ سرمایہ کاری سے نمو کا عمل شروع نہیں ہو گا۔ اس مقصد کے لئے بہت احتیاط سے با قاعدہ سرمایہ کاری کا ماحول تخلیق کرنا ہو گا جو معاشی احیاء کا پہلا ستون ہے۔
سرمایہ کاری کے ماحول کا ارتکاز انسٹی ٹیوشنل استحکام، طرز حکومت، پالیسیوں، مضبوطی اور انفرااسٹر چر پر ہوتا ہے جسے تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی میکرو اکنامک استحکام، انفرااسٹرکچر کا معیار اور بہترین طرز حکومت کے ساتھ مضبوط ادارے۔ اگرچہ حکومت سرمایہ کاری کے خلاف تمام تر قدرتی غیر یقینی حالات کی ضمانت نہیں دے سکتی مگر اس بات کو یقینی بنانا اس کا بنیادی فرض ہے کہ سرمایہ کار کی محنت پر موقع پرست انسانی مداخلت ڈاکہ نہ ڈال پائے۔ اسی لئے نئی حکومت کو سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے لازمی طور پر اقدامات کرنے ہونگے یا کم از کم سرمایہ کاری کو ضائع ہونے سے بچانا ہو گا۔ ایک مستحکم میکرواکنامک ماحول سرمایہ کاری کے اچھے ماحول کا پہلا جز ہے جس کی نمایاں خاصیتوں میں کم اور مستحکم افراط زر، بجٹ اور جاری کھاتے کا کم خسارہ، کم مگر اصلی شرح سود، زرمبادلہ کی مستحکم قدر اور زرمبادلہ کے قابل اطمینان ذخائر شامل ہیں۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران موجودہ معیشت سرمایہ کاری کے بدترین ماحول کی بہترین مثال ہے۔ اگر نئی حکومت مالی نظم و نسق برقرار رکھتے ہوئے میکرو اکنامک کی اچھی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوئی تو یہ بلند سرمایہ کاری، بہترین نمو اور غربت میں کمی کے ثمرات سے بہرہ ور ہو گی۔ ایک معیاری انفرااسٹرکچر سرمایہ کاری کے ماحول کا دوسرا لازمی پہلو ہے۔ داخلی اور بیرونی سرمایہ کار دونوں توانائی، گیس، ٹرانسپورٹ، کمیونی کیشن اور حتیٰ کہ اقتصادی انفرااسٹرکچر تک کو سرمایہ کاری کی ایک اہم ضرورت باور کرتے ہیں۔ ناکافی فنڈز کے باعث ٹوٹ پھوٹ کے شکار انفرااسٹرکچر نے جسے مرمت کی ضرورت ہے ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ نئی حکومت کو توانائی کے شعبے میں بدانتظامی، گیس کی قلت اور کمیونی کیشن نیٹ ورک میں بہتری کے حوالے سے خصوصی اقدام کرنا ہوں گے۔ اچھا طرز حکومت اور مستحکم ادارے سرمایہ کاری کے ماحول کا تیسرا پہلو ہیں۔ شفاف، مسابقت کی حامل مستحکم مارکیٹیں یک لخت بیدار نہیں ہوں گی۔ انہیں ملکیت کے حقوق، قانونی کوڈ، معاشی قواعد و ضوابط اور انفرادی اور کمپنیوں کے ٹیکس کے انتظام و نفاذ کے لئے مددگار اداروں کی ضرورت ہو گی۔ بلاشبہ رشوت ستانی داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کے سدباب کے لئے حکومتی عزم کا کوئی عدالتی حکم متبادل نہیں۔ بڑے پیمانے پر رشوت ستانی، اہم اداروں کی باقاعدہ تباہی، ٹیکس نظام میں اصلاحات کے لئے عزم کی کمی اور معاشی پالیسیوں میں عدم ربط اور شفافیت کی کمی نے ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو ابتر کر دیا ہے۔ نئی حکومت کو ٹیکس کے پورے نظام میں اصلاحات، اہلیت کی بنیاد پر تقرریوں، متعلقہ افراد کی متعلقہ جگہوں پر تعیناتی، داخلی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ کمیونی کیشن میں بہتری، معاشی پالیسیوں میں ربط اور شفافیت کو یقینی بنانے اور سب سے بڑھ کر ’اپنا آدمی کلچر‘ سے چھٹکارا پانے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ جب تک یہ عناصر اپنی جگہ پر موجود نہ ہوں ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری نہیں آئے گی اور معاشی بحالی کی امید محض خواب ہی رہ جائے گی۔ اس بات کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ سرمایہ کاری کے ایک اچھے ماحول سے رسمی اور غیر رسمی دونوں سیکٹروں کو فائدہ ہو گا اور غیر رسمی شعبے میں بہترین ملازمتوں کے حصول کے ثبوت پائے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری کا اچھا ماحول مضبوط معاشی نمو کو جنم دے سکتا ہے جس سے ملازمتوں کے موقعوں کی تخلیق اورغربت میں کمی لانے میں مدد ملے گی مگر صرف اس پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ تمام تر نمو غریبوں کے مفاد میں نہیں ہوتی۔ معاشی بحالی کا دوسرا پہلو پاکستان کے غریب عوام کو تقویت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ نمو کے عمل کا حصہ بن سکیں اور یہ پہلو ناگزیر ہے۔ اس دوسرے پہلو کا ارتکاز افراد کے لئے سرمایہ کاری پر ہوتا ہے یعنی ہر سطح پر اور بطور خاص خواتین کی تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ پر سرمایہ کاری سے عوام نمو اور ترقی کے عمل میں شرکت کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہ چیلنجز اگرچہ دشوار ہیں مگر ناممکن نہیں ۔
تازہ ترین