• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے الیکشن پاکستان کے غریب عوام کے روشن مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بنیں گے یا محدود اقلیت کی بالادستی اور خلقِ خدا کے ایک بڑے حصے کی محرومیوں کے حوالے سے یہ جمہوری مسافتِ لاحاصل اور بے نتیجہ رہے گی۔ یہی وہ سوال ہے، ملک کے بیس کروڑ عوام کو جمہوریت کے حضور پیش کرتے ہوئے جس کا ٹھوس اور واقعاتی تجزیہ ضروری ہے۔
اس بظاہر شر میں نہ جانے خیر کا کونسا پہلو پوشیدہ ہے کہ پاکستانیوں اور جمہوریت کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ پاکستان میں انتخابات کبھی آئین کے طے شدہ تقاضوں کے مطابق نہیں ہوئے۔آئندہ الیکشن کے بارے میں سامنے کی بات یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے اور اگلی جمہوری حکومت کی آمد آمد ہے۔ آصف علی زرداری اور نوازشریف بڑی دلجمعی سے”اقتدار کے انتقال“کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ جلسے جلوسوں کا جبر، اختلافات کو الزامات اور جھگڑوں کی شکل دے رہا ہے لیکن درحقیقت دونوں طرف سے خیرسگالی کے مظاہر نہایت بلند ہیں۔ زرداری صاحب کو بحیثیت صدر حاصل استثنیٰ کی آئینی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج ہے لیکن نواز شریف اس معاملے سے دور ہیں وہ صدر زرداری کی مشکلات میں اضافہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ متعدد مرتبہ نوازشریف اس خیال کا اظہار کرچکے ہیں کہ بحیثیت صدرجناب زرداری کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ جواب میں حکومت بھی نواز شریف کے لئے خلوص کے اظہار میں پیچھے نہیں۔ اصغر خان کیس میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سمیت بہت سے رہنماؤں پر1990ء میں جنرلوں سے بھاری رقومات لینے کے معاملے کی تحقیقات کا سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے لیکن حکومت نے اس معاملے میں کسی سرگرمی کا اظہار نہیں کیا۔ قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ نوازشریف سمیت کوئی بھی کامیاب ہو ہم اس کے گھر جاکر ہار پہنائیں گے۔ نوازشریف بھی ماضی کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہیں۔کامیابی کی صورت میں انہیں صدر زرداری سے حلف لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ دونوں مرکزی جماعتوں کے یہ ”عقیدتی دھارے“ گزشتہ پانچ برس سے بہہ رہے ہیں۔ نوازشریف نے ملک کی تباہی گوارا کر لی لیکن ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جو حقیقی معنوں میں زرداری حکومت کے لئے نقصان کا باعث ہو۔ اسی طرح پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ ن کو حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں لیکن پی پی حکومت نے کبھی پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد کی کوشش نہیں کی۔ جہاں تک الیکشن کے التواء اور تیسری قوت کے غاصبانہ قبضے کا معاملہ ہے تو اس کے لئے بھی وہی جذبات پائے جاتے ہیں جو”جان“ کی جمہوریت کے لئے مخصوص ہیں یعنی”اگر کوئی بزور شمشیرحکومت پر جبری قبضہ کرلے تو وہ اس بات کا سزاوار ہے کہ اسے شمشیر سے ہلاک کردیا جائے“۔آزاد عدلیہ اور میڈیا نے بھی اس امکان کے سامنے بہت سے بند باندھ دیئے ہیں۔جہاں تک الیکشن مہم کا تعلق ہے تو یہ جدید خطوط پر ترتیب دی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی مرکزی جماعتوں کا ماحول اور مزاج مفاہمانہ ہے۔ جناب فخرالدین جی ابراہیم کو ہماری عدالتی تاریخ میں انتہائی عزت اور احترام حاصل ہے بطور چیف الیکشن کمشنر ان کا انتخاب آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے افق کو روشن بنا سکتا ہے۔ پی پی حکومت کے لئے ان کی تقرری میں اختلافات کے کئی پہلو تھے۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم پیپلزپارٹی مخالف سوچ رکھتے ہیں۔کئی مقدمات میں وہ نوازشریف کے وکیل رہ چکے ہیں۔ ان کا نام بھی اپوزیشن نے تجویز کیا تھا لیکن ان تمام باتوں کے باوجود پی پی حکومت نے انہیں چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیا۔ انتخابی فہرستیں منصفانہ الیکشن میں بنیادی اینٹ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ووٹر لسٹوں کی شفافیت اور جعلی ووٹ ڈالنے کا مسئلہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے کافی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔ انتخابی فہرستوں کی درستی اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو کراچی میں ایک عظیم چیلنج کا سامنا ہے جسے عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں فوج اور رینجرز کی مدد سے حل کر لیا جائے گا۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود پورے ملک میں الیکشن کی گہماگہمی شروع ہو چکی ہے۔ تمام جماعتیں اور سیاستدان رابطہ عوام مہم پرہیں۔شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے بعدغربت کے اندھیروں میں زندگی گزارتے پاکستانی عوام کی اکثریت کے مسائل حل ہوجائیں گے؟یقینا نہیں۔جمہوریت جادوئی چھڑی نہیں جو آنِ واحد میں ملک و قوم کو لاحق تمام امراض کاخاتمہ کردے، یہ ایک پروسس ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جن ممالک میں جمہوریت نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے رائج ہے وہاں جمہوریت انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر سکی ہے یا نہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔گزشتہ 65برس سے عام انتخابات کے تواتر اور تسلسل کے بعد جمہوریت نے بھارت کی جو صورت گری کی ہے اس میں بھارت دنیا کی سب سے بڑی غربت ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ جمہوریت کا فیضان ہے کہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر تین سوارب ڈالر کو چھو رہے ہیں، عالمی تجارت میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے بھارت نے چین اور برازیل کی طرح ترقی کے بہت سے مراحل طے کئے ہیں لیکن یہ ترقی بھارت کے لوگوں کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر سکی۔ بھارت کے جمہوری نظام نے ایک اعلیٰ سطح کیEliteکلاس پیدا کی ہے اور اسے بے پناہ دولت فراہم کی ہے لیکن دنیا کی بائیس فیصد یعنی ایک ارب اکیس کروڑ کی بھارت کی آبادی میں سے تقریباً 85کروڑ افراد کو غربت کی سطح سے بھی نیچے غرق کر دیا ہے۔ ہرسال ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ لوگ غربت اور قرضوں کی ذلت سے بچنے کے لئے خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عصمت فروشی وبائی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بھارت کے ایک معروف ادیب اور صحافی سردار خشونت سنگھ نے کہا ہے کہ میں نے پاکستان کے متعدد دورے کئے ہیں اور وہاں کسی بھی شخص کو بغیر جوتے ننگے پاؤں نہیں دیکھا۔ ان کی یہ بات اس تناظر میں تھی کہ ننگے پاؤں چلتی پھرتی بھارت کی ایک بڑی آبادی لینڈاسکیپ کا حصہ ہے۔ یہ بھی 65سالہ جمہوریت کا اعجاز ہے کہ بھارت کے تقریباً 36کروڑ 60 لاکھ شہریوں کو ٹائلٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ جس جمہوریت کے لئے ہم اس قدر بے تاب ہیں یہ ہے اس جمہوریت کا سب سے بڑا مظہر بھارت۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے۔
تازہ ترین