• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملیر میں تعیناتی کی وجہ سے 1998ء میں فوج کی زیرِنگرانی شہرِ کراچی میں مردم شماری میں حصّہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔اس انوکھے تجربے نے میرے مردم شناسی کے علم میں خاطرخواہ اضافہ کیا۔ یہ عمل کٹھن ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا پیچیدہ بھی تھا۔ ہماری ٹیمیں علی الصبح اپنے گھروں سے نکل کر دوسروں کے گھروں پر جا کر دستک دیتیں اور شام ڈھلے اپنے گھروں کو لوٹتیں۔ کھانا لنچ باکس میں ہوتا اور ہاتھ میں مردم شماری کا سوالنامہ ہوتاجس میں کچھ اس قسم کے "NGO" نما سوالات پوچھے گئے تھے جو جواب دینے والے حضرات اگلے روز ہماری کئی ٹیموں کے منہ پر دے مارتے۔ دن کے وقت عموماًگھر میں چونکہ خواتین ہی ہوتی تھیں اور ہماری ٹیمیں اس جنس سے محروم تھیں اس لئے زیادہ تر گفتگو بند دروازے کے آگے اور پیچھے سے ہی ہوا کرتی تھی۔ ایک بات جس نے ہمارے تجسسّ میں بے پناہ اضافہ کیا وہ یہ کہ کم وبیش تمام گھروں میں رہائش پذیر افراد کی تعداد ایک یا ڈیڑھ درجن سے کم نہ ہوتی، چاہے ان کے قبضے میں فقط ڈیڑھ یا دوکمرے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس چیلنج کے بعد میری خوش بختی دیکھئے کہ میں 2000ء میں کراچی کا مانیٹرتعینا ت ہوگیا ۔مجھے کیونکہ اپنے اسکول کے زمانے کی مانیٹری کا خاصا تجربہ تھا ،اس لئے میں نے ان ہی رہنما اصولوں کی روشنی میں اپنے کام کا آغاز کیا مگر اللہ نے امداد کی اور کچھ کام اچھے بھی ہو گئے۔مثلا گلشن اقبال سے سبزی منڈی کو ٹول پلازہ پر بسانا اور شیریں جناح کالونی کی ٹینکر مافیا کوقا ئدآباد منتقل کرنا۔ بظاہر تو ان کاموں کی تکمیل کا تذکرہ دو سطروں میں ہی مکمل ہو گیالیکن کراچی میں بسنے والا اور اس شہر سے محبت کرنے والاہرشخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہ کام جُوئے شیر لانے سے کسی بھی صورت کم نہ تھے۔ کراچی کی قلتِ آب سے نمٹنے کیلئے کے پی ایک دو تین کی منصوبہ بندی کی گئی اور ذرائع آمدو رفت میں آسانی پیدا کرنے کی غرض سے شمالی اور جنوبی بائی پاس اور متعدد فلائی اوورز کی منصوبہ بندی بھی پایہء تکمیل کو پہنچی۔یہاں تک تو معاملات خاصے اچھے رہے لیکن جب ہم نے کراچی کے نظم و ضبط پر ہاتھ ڈالا تو شدّت سے احساس ہوا کہ قائد کے شہر میں انہی کے بتلائے ہوئے رہنما اصولوں اتحاد ، یقین اور تنظیم کا مکمل فقدان ہے۔ ان حالات کو سدھارنے کیلئے ہمارے شب و روز مسجدوں، امام بارگاہوں اور مدرسوں کے گردو نواح میں گذرے۔ بلا ناغہ ہر جمعے کے روز ہمارے دستے مزار قائد پر تعینات ہوتے اور اس انتظار میں رہتے کہ قریبی مسجد میں کس وقت نمازی اپنے دو رکعت نماز فرض ادا کرکے سلام پھیریں تو ہم اپنا فرض ادا کر سکیں۔ یہ آنکھ مچولی کا قومی فریضہ یوں ہی رواں دواں رہا۔قارئینِ کرام! حالات یوں تھے کہ رینجرز چھتوں پر اور پولیس سڑکوں پر۔ پولیس کا یہ حال کہ 98 تھانوں میں سے تین چوتھائی سے زیادہ یا تو اسکولوں اور ہسپتالوں کی بلڈنگزمیں یا پھر قبضہ شدہ عمارات میں براجمان تھے۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود ان تھانوں میں آمدنی کی یہ فراوانی کہ کسی میں دو دن میں اور کسی میں ایک ہفتے میں ایک عدد کرولا گاڑی تیار ہو جاتی ۔ یہ آمدنی تھانے کے ملازمین اپنی فلاح وبہبودپر اپنی ہی مرضی سے خرچ کیا کرتے ۔اس کے باوجود تھانے اپنی حدود میں رہتے ہوئے اکثراوقات مقامی مخّیر حضرات کی گود میں رہتے۔ جہاں تک پولیس کی نفری کا تعلق تھا تو ایک کانسٹیبل 30 ہزار شہریوں کے رحم و کرم پر تھا۔ اب یہ ان شہریوں کی صوابدیدپرمنحصر تھا کہ اس کی خوب آؤبھگت کریں یا پھر اغوا ہی کر لیں۔ جہاں تک کراچی کی ٹریفک کے دِگر گوں حالات کا تعلق ہے وہ کچھ یوں تھی کہ رکشے پہ رکشا چڑھا ہوا تھا اور بس پہ بس مگر سواریاں چھتوں پر ۔ ان حالات کوسدھارنے کیلئے ہم نے بھی "ہفتہء ٹریفک" منانے کی کوشش میں دنیا جہاں کے اداروں کے سربراہوں کو مدعو کر کے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں ان کے مشورے، حل کی بجائے بے بسی کی علامت نظر آئے۔ اس اجتماعِ لاحاصل کے اختتام پر مجھے اختتامی کلمات کے کیلئے مدعو کیا گیا تو میں نے اپنے والدِ محترم کی 1961 میں کراچی کی بس پہ لکھی گئی نظم کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھ کر اپنی جان چھڑالی-:
نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
جو گردن میں کالر تھا ”لر“ رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں ”ٹر“ رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پَر رہ گیا ہے
جو لکھیے تو اب اور کیا بات لکھیے
نہ بس چل رہی ہے، نہ بس چل رہا ہے
قارئینِ کرام! جان پھر بھی نہ چھوٹی اور 2000 کے بلدیاتی الیکشن بھی ہمارے ہی سر پر آن پڑے جن کے نتیجے میں خوش قسمتی سے جناب نعمت اللہ اور مصطفیٰ کمال جیسے قابل اور محنتی ناظمِ اعلیٰ کراچی کو میسر آئے۔ بلا شبہ کہنے کو تو کشمیر کے علاوہ کراچی بھی ہماری شہ رگ ہے مگر افسوس کہ اس شہ رگ کے ساتھ ہم سو تیلی ماں والا سلوک کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں نے کراچی کے اُس وقت کے حالات کی مختصر جھلک اس لئے پیش کی کیونکہ موجودہ صورت حال سے ہمیں بالکل تعجب نہیں ہونا چاہیئے۔ ہونا یہی تھاکیونکہ ہم کہتے کچھ اور کرتے کچھ کے ماہر ہونے کے علاوہ "بالکل ہی کچھ نہ کرنے" میں عالم فاضل ہو چکے ہیں۔ کراچی جو پہلے سے ہی ایک دلدل میں پھنسا ہوا ہے اورہم اپنی اپنی راگنیاں گا کر اس کے معاملات کو مزید الجھا رہے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا فقط فوج ، رینجرز یا پولیس ہی مسئلے کا حل ہے اور کیا الیکشن کی آمد آمد کے وقت مردم شماری اور حلقہ بندیاں ہمیں کسی منطقی انجام تک پہنچائیں گی ؟ کاش میرے پاس ایک سطری حل ہوتا! البتّہ اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے قومی قائدین مقامی سطح کی سیاست سے بالا تر ہو کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس وقت تک بیٹھے رہیں جب تک ایک جامع لائحہ عمل طے نہ ہوجائے ورنہ ، خاکم بدہن، کہیں یہ مملکت خدادادِپاکستان لہو لہان نہ ہو جائے۔ بد قسمتی سے موجودہ صورت حال اور اس پر ہماری قومی روش سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ ہم سے: -
”نہ بس چل رہی ہے، نہ بس چل رہا ہے“
تازہ ترین