اسلام آباد (نمائندہ جنگ، نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت اسلام آباد سے ملنے والی سزائوں کی معطلی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف نیب چیئرمین کی اپیلیں باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کر لی ہیں اور تینوں کی رہائی کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اصول دیکھنا ہے کہ اپیلوں کی سماعت سے پہلے سزا معطلی سے کیس کامیرٹ متاثر تو نہیں ہوا، مناسب ہوا تو لارجر بینچ تشکیل دینگے، بداعتمادی سے چھٹکارا پانا ہوگا، ایک تاثربن جاتاہے کہ عدالتوں میں پتہ نہیں کیاہورہا ہے، دیکھنا چاہتے ہیں کیا سزا معطل ہوسکتی ہے؟کیا اصول قانون اسکی اجازت دیتا ہے؟ ضمانت کی درخواست پر شواہد کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جاسکتا، یہ حکم بھی جاری کر سکتے ہیں کہ گرفتاری نہ کی جائے اور اپیل کا ایک ماہ میں فیصلہ کردیا جائے۔ نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ٹھیک کہہ رہی ہے کہ معاملہ سزا کی معطلی کا بھی ہے لیکن ہر کیس کی اپنی ایک نوعیت ہوتی ہے، سزائے موت کے مقدمات میں بھی سزائیں معطل ہوئی ہیں۔خواجہ حارث نے جسٹس آصف کھوسہ کے بنچ کےدیئے فیصلوں کی نظائر پیش کیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل خصوصی بینچ نے پیر کے روز چیئرمین نیب کی تین الگ الگ اپیلوں کی سماعت کی تو نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر اکرم قریشی اور نوازشریف وغیرہ کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے فاضل وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہم نے یہ اپیلیں سماعت کیلئے منظور نہیں کی ہیں، ہم نے پچھلی سماعت پرآپ سے تحریری معروضات مانگی تھیں ، خواجہ حارث نے تفصیلی جواب جمع کروایا ہے لیکن یہ بہت طویل ہے ، ہم نے درخواست پر نمبر وار معروضات طلب کی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مقدمہ سماعت کیلئے اپیل کی منظوری کا ہے،ہم نے دیکھنا ہے کہ کیا اس کیس کی سماعت کیلئے لارجر بنچ بنایا جانا چاہیے یایہی بنچ اسکی سماعت کرے ؟ اسپیشل پراسیکوٹر نیب نے کہا کہ ہم نے بھی اپنے معروضات جمع کروائے ہیں لیکن وہ زیادہ طویل نہیں ہیں بلکہ صرف 4 صفحات پر مشتمل ہیں۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے طویل معروضات میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں،جس پر انہوں نے کہا کہ اس میں ضمانت کی منظوری کی نظائر پیش کی گئی ہیں،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کریمنل پروسیجر کوڈسے متعلق ہے، لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ نے کچھ اصولوں کو نظر انداز کیا ہے کیونکہ آپکے موکل کے معاملہ میں یہ صرف ضمانت منظوری کا معاملہ ہی نہیں بلکہ سزا کی معطلی کا معاملہ بھی ہے۔