• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گورنمنٹ اسکولز کی ناقص کارکردگی کا ملبہ تعلیمی بورڈز پر ڈالنا دُرست نہیں، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن

پینل انٹرویو :سلطان صدیقی، آصف خان تُرک، پشاور

عکاسی: فرمان اللہ جان

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، پشاور کے چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا آبائی علاقہ بنّوں ہے، لیکن وہ گزشتہ 30برس سے پشاور میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنے گائوں کے ایک اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1982ء میں پوسٹ گریجویٹ کالج، بنّوں سے بی ایس سی، 1986ء میں جامعہ پشاور سے پاکستان اسٹڈیز اور 1989ء میں سیاسیات میں ماسٹرز اور 2001ء میں قائداعظم یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ وہ 1990ء میں خیبر پختون خوا پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر نے کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج پہاڑ پور، ڈی آئی خان میں لیکچرار تعیّنات ہوئے۔ 1994ء میں اُن کا تبادلہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، بنّوں میں کر دیا گیا، جب کہ1997ء سے 1999ء تک خیبر میڈیکل کالج، پشاور میں لیکچرار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ 1999ء میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، مانسہرہ میں تعیّنات ہوئے اور 2005ءکے زلزلے کے دوران متاثرہ علاقوں میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور مختلف رفاہی اداروں کے تعاون سے مانسہرہ کے مختلف علاقوں میں ایک درجن اسکولز قائم کیے، جنہیں بعد ازاں محکمۂ تعلیم کے حوالے کر دیا گیا۔ دریں اثنا، اسی برس جب حکومت نے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے ’’پی ای آر آر اے‘‘ نامی ادارہ قائم کیا، تو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو اُن کی اعلیٰ خدمات کی بنا پر اس ادارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عُہدے پر تعیّنات کر دیا گیا اور بعد ازاں انہوں نے اسی ادارے میں ڈائریکٹر مانیٹرنگ اور ڈائریکٹر جنرل کے طور پر بھی فرائض انجام دیے۔ 2007ء کے آخر میں یو این ڈی پی میں پراوِنشل کوآرڈی نیٹر برائے ڈونر ایجنسیز کے طور پر کام کا آغاز کیا اور ترقّی کرتے ہوئے 2008ء میں پراوِنشل پلاننگ ایکسپرٹ کے عُہدے پر پہنچے۔ یو این ڈی پی سے وابستگی کے دوران انہوں نے 1700سے زاید منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، جن میں بڑی تعداد اسکولز اور مراکزِ صحت کی تھی۔ 2012ء میں انہوں نے یونیسیف میں ایجوکیشن کنسلٹنٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس دوران جہاں وہ خیبر پختون خوا میں نصاب سازی کے عمل میں شریک رہے، وہیں انہوں نے برداشت، رواداری اور امن پر مبنی نصاب کی تشکیل میں بھی کردار ادا کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن 2013ء میں بہ حیثیتِ ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ سپیریئر سائنس کالج، پشاور میں تعیّنات ہوئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں پروفیسر کے عُہدے پر ترقّی دیتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ ٹریننگ، پشاور کا ڈائریکٹر تعیّنات کر کے گورنمنٹ کالج حیات آباد، پشاور کے پرنسپل کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا اور 2017ء میں صوبائی حکومت نے انہیں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، پشاور کا چیئرمین تعیّنات کر دیا۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ایم فِل کے 24طلبہ کے مقالہ جات کی نگرانی کے علاوہ 3کُتب تحریر کیں، جب کہ ان کے 12تحقیقی مقالے مختلف مستند جراید میں شایع ہو چُکے ہیں۔ انہیں زمانۂ طالب علمی کے دوران مقابلۂ حُسنِ قرأت و حُسنِ تقریر میں بنّوں اور ڈیرہ اسمٰعیل خان ڈویژنز میں ہمیشہ اوّل آنے کا اعزاز حاصل ہے، جب کہ سابق وزیرِ اعظم، میر ظفر اللہ خان جمالی نے انہیں سیرتِ طیبہؐ اور انتہا پسندی کے موضوع پر بہترین تحقیقی مقالہ لکھنے پر امتیازی سند اور انعام سے بھی نوازا۔ گزشتہ دِنوں ہمارے تعلیمی نظام اور مُلک کے سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتِ حال پر ان سے خصوصی بات چیت ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

گورنمنٹ اسکولز کی ناقص کارکردگی کا ملبہ تعلیمی بورڈز پر ڈالنا دُرست نہیں، پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن
جنگ پینل سے بات چیت کرتے ہوئے

س :سرکاری اسکولز کے طلبہ میٹرک اورانٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں ’’ٹاپ ٹوینٹی‘‘ میں جگہ کیوں نہیں بنا پاتے؟

ج:دراصل، نجی تعلیمی اداروں میں احتساب کا باقاعدہ نظام موجود ہے، جب کہ اس کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں میں احتساب کا نظام ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے ذمّے داریوں کا احساس ۔ درحقیقت، ہمارے ہاں لوگ صرف روزگار کے لیے سرکاری تعلیمی اداروں میں ملازمت اختیار کرتے ہیں اور درس و تدریس سے اُن کی دِل چسپی کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات کے نتائج میں نجی شعبے کے طلبہ سرکاری شعبے کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

س:آپ کی سربراہی میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، پشاور نے طلبہ کی سہولت کے لیے کیا اقدامات کیے ؟

ج:میرے چیئرمین بننے سے قبل مائیگریشن کروانے کے لیے طلبہ کو کئی روز تک بورڈ آفس کے چکر لگانا پڑتے تھے، لیکن میرے مروّجہ طریقۂ کار کے مطابق اب طلبہ کی مائیگریشن اُن کے رجسٹریشن نمبر پر ہوتی ہے اور اس عمل میں صرف 20منٹ لگتے ہیں۔ اسی طرح پہلے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سرٹیفکیٹس، نتائج آنے کے ایک برس بعد ملتے تھے، لیکن اب طلبہ تین ماہ بعد حاصل کر سکتے ہیں اور ہم اس وقفے کو مزید کم کر کے ایک ماہ تک لے جانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، میری آمد سے قبل عدالت میں بورڈ کے بہت سے مقدّمات چل رہے تھے، جنہیں کم سے کم وقت میں نمٹانے کے لیے عدلیہ نے ہم سے بھرپور تعاون کیا۔ تاہم، اب ہم نے ایک ایسا دفتر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جو خود ہی سارے تنازعات نمٹائے گا اور انہیں عدالت تک لے جانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ نیز، نہم و دہم اور گیارہویں و بارہویں جماعت کے مشترکہ امتحانی فارمز متعارف کروائے گئے ہیں۔ یعنی اگر کوئی طالب علم نہم جماعت کا امتحانی فارم پُر کرتا ہے، تو اسے دہم جماعت کے لیے الگ سے امتحانی فارم نہیں بھرنا پڑے گا اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے لیے بھی یہی طریقۂ کار ہو گا۔ نیز، طلبہ کی سہولت کے لیے بینک کی رسید بھی آن لائن دست یاب ہو گی۔

س:کہا جاتا ہے کہ طلبہ پیسوں کے بَل پر امتحانات میں پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟

ج:بورڈ میں تعیّناتی سے قبل مَیں نے بھی یہ سُن رکھا تھا کہ یہاں مخصوص نجی تعلیمی اداروں کے پرچے الگ سے چیک کیے جاتے ہیں اور ان اسکولز کے طلبہ پیسوں کے بَل بوتے ہی پر پوزیشنز حاصل کرتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جب امتحانی کاپیاں بورڈ میں آتی ہیں، تو اُن پر طالب علم کے نام اور رول نمبرز کی بہ جائے ایک کوڈ نمبر درج کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں امتحانی کاپی چیک کرنے والا چاہتے ہوئے بھی کسی مخصوص طالب علم کی شناخت نہیں کر پاتا۔ علاوہ ازیں، ہم مزید شفّافیت کے لیے’’ ٹاپ ففٹی‘‘ مارکس کی ری ٹوٹلنگ اور ان کی تیسرے فریق سے توثیق بھی کرواتے ہیں۔

س:نتائج کے بر وقت اعلان کے لیے بھی کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟

ج:جی ہاں۔ پہلے پوزیشن ہولڈرز کے ناموں کے اعلان کے اگلے روز دیگر طلبہ کے نتائج دست یاب ہوتے تھے، لیکن اب پوزیشن ہولڈرز کے ناموں کے ساتھ ہی عام طلبہ کے نتائج بھی بورڈ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیے جاتے ہیں۔

س:امتحانات کے دوران ذمّے داریاں انجام دینے والے اساتذہ معاوضے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ کیا اس مسئلے کا بھی کوئی حل نکالا جا رہا ہے؟

ج:اس مسئلے کے حل کے لیے ہم عن قریب ہی الائیڈ بینک اور مسلم کمرشل بینک کے ساتھ ایک معاہدہ کر رہے ہیں، جس کے تحت اساتذہ کو ان کا معاوضہ ان کے شناختی کارڈ نمبر یا بینک اکائونٹ نمبر پر مذکورہ بینکس کی کسی بھی شاخ سے مل سکے گا۔

س: کیا امتحانی کاپیوں کی چیکنگ میں بہتری لانے اور طلبہ کے اعتراضات دُور کرنے کے لیے بھی کوئی نظام وضع کیا گیا ہے؟

ج:میری تعیّناتی سے قبل ایک امتحانی کاپی 4سے5اساتذہ چیک کرتے تھے، جب کہ اب ہم نے تمام پرچے متعلقہ مضامین کے اساتذہ سے چیک کروانا شروع کر دیے ہیں، جب کہ ہیڈ ایگزامنر صرف چیکنگ کے عمل کی نگرانی کرے گا۔ نیز، ہم نے بورڈ پر طلبہ اور ان کے والدین کا اعتماد بڑھانے کے لیے ری ٹوٹلنگ کی بہ جائے ری چیکنگ کا نظام وضع کیا ہے اور سیکڑوں شکایات دُور کرنےکے نتیجے میں شفافیت کو فروغ ملا ہے۔

س:آپ نے بورڈ میں پائی جانے والی بد انتظامی دُور کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ؟

ج:میری آمد سے قبل بورڈ میں بہت زیادہ بد انتظامی پائی جاتی تھی۔ مَیں نے سب سے پہلے ترقّی کے خواہش مند نچلے درجے کے ملازمین کے لیے یہ شرائط عاید کیں کہ وہ کمپیوٹر کا استعمال جانتے ہوں اور اس کے ساتھ ہی انہیں این ٹی ایس ٹیسٹ بھی پاس کرنا پڑے گا ۔ پھر مَیں نے 1960ء میں بورڈ کے قیام کے بعد سے لے کر اب تک کے سارے ریکارڈکو (ماسوائے پرائیویٹ اسٹوڈینٹس کے ریکارڈ کے) کمپیوٹرائزڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور اب صرف ایک کلک ہی سے کسی بھی طالب علم کا سارا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے۔

س:انٹر میڈیٹ کی سطح پر معیار ِتعلیم کو کسی طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے؟

ج:دیکھیں، امتحانات میں حاصل کردہ مارکس معیاری تعلیم کی نشان دہی نہیں کرتے۔ معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے اساتذہ کو اپنے طلبہ میں مطالعے اور سیکھنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا اور ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب اساتذہ خود مطالعے سے شغف رکھتے ہوں۔ ہم آغا خان ایجوکیشن سروسز کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں، لیکن اپنا تدریسی نظام بہتر کیے بغیر ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آج پوری دُنیا میں بُک لیس نظامِ تعلیم رائج ہے، جب کہ ہم روایتی طرزِ پر گام زَن ہیں، جس کی وجہ سے ہم دُنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ درحقیقت، ہمارا نظامِ تدریس بے تحاشا مسائل کا شکار ہے، لیکن امتحانات میں سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ بورڈز پر ڈال دیا جاتا ہے، حالاں کہ بورڈز صرف تخمینہ کاری کرتے ہیں۔ سو، اگر تدریس کے نظام میں بہتری لائی جائے، تو نتائج بھی اچّھے آئیں گے۔ مزید برآں، ہمارے ہاں بہ ظاہر تو تعلیمی ادارے، ٹریننگ اکیڈیمیز، ٹیکسٹ بُک بورڈ اور امتحانی بورڈز محکمۂ تعلیم کے زیرِ انتظام نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت ان تمام اکائیوں میں رابطے کا شدید فقدان ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ تمام ادارے صرف کاغذوں کی حد تک ہی ایک دوسرے سے منسلک ہیں، تو بے جا نہ ہو گا۔ لہٰذا، ہمیں حقیقتاً ان تمام اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا ہو گا۔ پھر ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ خیبر پختون خوا کے تمام تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے عُہدے کا دورانیہ 2سال ہوتا ہے، جو ناکافی ہے، کیوں کہ کسی بھی چیئرمین کو ایک سال سے زاید عرصہ تو بورڈ کے نظام کو سمجھنے میں لگ جاتا ہے اور جب وہ کام شروع کرتا ہے، تو اس کے عُہدے کی مدّت ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، فیڈرل بورڈ کی طرز پرصوبائی تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کا تقرّر بھی 5برس کے لیے کیا جانا چاہیے۔ نتائج میں بہتری کے لیے ایک اور منصوبہ بھی زیرِ غور ہے، جس کے تحت ٹاپ ٹوینٹی طلبہ کی امتحانی کاپیاں نمونے کے طور پر منظرِ عام پر لائی جائیں گی، تاکہ دیگر طلبہ ان سے موازنہ کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کر سکیں۔ معیارِ تعلیم کی بہتری میں ایک رُکاوٹ معیاری اساتذہ کا فقدان بھی ہے۔ اس وقت ہم جوائنٹ اکیڈیمک کمیٹی کو فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں صوبے کے تمام بورڈز کے چیئرمین، سبجیکٹ اسپیشلسٹس اور ٹیکسٹ بُک بورڈ کے ارکان شامل ہواکرتے تھے۔ علاوہ ازیں، تعلیمی ماہرین پر مشتمل کورسز کمیٹی اور پیپرز اسٹیئرنگ کمیٹی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو فعال کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

س:امتحان شروع ہونے سے پہلے ہی سوالیہ پرچہ کیسے منظرِ عام پر آ جاتا ہے؟

ج:امتحانی ہال میں موبائل فون لانا ممنوع ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو اس پر 2ہزار روپے جرمانہ عاید کیا جاتا ہے اور اگر اس موبائل فون میں سے سوالیہ پرچہ یا اس سے متعلق مواد مل جائے، تو پھر یو ایف ایم کا مقدّمہ بنتا ہے۔ لہٰذا، امتحانی عملے کی ملی بھگت کے بغیر پیپر آئوٹ ہونا ممکن نہیں۔

س:آپ خود پر ڈالے جانے والے دبائو سے کیسے نجات حاصل کرتے ہیں؟

ج:میرے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ میرا کوئی رشتے دار ہے اور نہ کوئی دوست۔ دراصل، مَیں چیئرمین بورڈ کے طور پر خود کو ایک جج سمجھتا ہوں اور جس طرح ایک جج کی سماجی مصروفیات کم ہوتی ہیں، اسی طرح ایک تعلیمی بورڈ کے چیئرمین کا حلقہ بھی نہایت محدود ہونا چاہیے۔ چُوں کہ مَیں غیر جانب دار رہتے ہوئے اپنی ذمّے داریاں بہ حُسن و خوبی انجام دیتا ہوں، لہٰذا کوئی مجھ پر دبائو ڈالنے یا میرے کام میں مداخلت کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ دراصل، میرے والد بھی ایک استاد تھے اور اُن کی تربیت کی بہ دولت ہی مَیں اس مقام تک پہنچا ہوں۔ مَیں نے یہ منصب حاصل کرنےکے لیے کوئی تگ و دو کی اور نہ کسی سے سفارش کروائی۔ لہٰذا، کوئی بھی فرد مجھ پر احسان نہیں جِتلا سکتا۔ مَیں اپنی اولاد پر بھی سختی کرتا ہوں اور ان کی ترقّی کے لیے سفارشیں نہیں ڈھونڈتا، کیوں کہ یہ کسی اور کی اولاد کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

س:بورڈ کی مالی صورتِ حال کیسی ہے؟

ج:بورڈ کی آمدنی کا ذریعہ صرف طلبہ سے حاصل کردہ فِیس ہے۔ حکومت نے کبھی بھی ہماری معالی معاونت نہیں کی، بلکہ ایم ایم اے اور اے این پی کے ادوارِ حکومت میں تو ہم سے رقم لی جاتی رہی، جب کہ پی ٹی آئی نے اپنے دَورِ حکومت میں ہم سے کبھی رقم کا تقاضا نہیں کیا۔ جب مَیں نے بورڈ کی چیئرمین شِپ سنبھالی تھی، تو تب اسے مالی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن میری کوششوں کے نتیجے میں ان میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ڈھائی لاکھ طلبہ کی انرولمنٹ، رجسٹریشن، ویری فکیشن، امتحانات اور اسناد وغیرہ کی فیِس کی مَد میں بورڈ کو سالانہ 45کروڑ روپے ملتے ہیں اور بورڈ کا عملہ 203افراد پر مشتمل ہے۔ گرچہ میرے اسٹاف کی استعدادِ کار کم ہے، لیکن یہ اپنے امور کی انجام دہی میں غفلت نہیں برتتا اور مَیں نے اسے فری ہینڈ دے رکھا ہے۔

س :طلبہ اور ان کے والدین کو کیا نصیحت کرنا چاہتے ہیں؟

ج:مَیں تمام والدین کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ہر بچّہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکتا، لہٰذا بچّوں کو اپنی مرضی سے کوئی بھی شعبہ چُننے دیں اور ساتھ ہی انہیں یہ ہدایت بھی کریں کہ وہ اپنے پسندیدہ شعبے میں اتنی مہارت حاصل کریں کہ ناگزیر بن جائیں۔ دراصل، کسی بھی بچّے میں اتنی قابلیت و اہلیت ہونی چاہیے کہ لوگ اس کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اگر ہم اپنے بچّوں کو اُن کے پسندیدہ شعبوں میں آگے بڑھنے کے لیے رہنمائی فراہم کریں، تووہ بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین