• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے تقریباً ہر سروے میں، مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک، مثلاً چین، سنگاپور اور جاپان کے طلباء ریاضی اور سائنس کے مضامین میں اول درجے پر براجمان نظر آتے ہیں۔ یہ ممالک ’زیادہ کام، زیادہ پڑھائی، کم زندگی جینا‘ کے ماڈل پر عمل پیرا ہیں۔ تاہم تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج ایک اور طریقے سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تعلیم کا یہ متبادل، زیادہ پیداواری اور بہتر صحت مندانہ نظام فِن لینڈ نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بات دُنیا کےبہترین تعلیمی نظام کی ہوتی ہے تو فِن لینڈ سرِفہرست ہوتا ہے۔ فِن لینڈ کے تعلیمی نظام کو دنیا کا بہترین نظام کیوں قرار دیا جاتا ہے، آئیے جانتے ہیں۔

کوئی معیاری امتحان نہیں

فِن لینڈ نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے کئی دانشورانہ اور علمی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔ ان میں ایک بڑی تبدیلی ملک بھر میں طلباء کی اہلیت کو جانچنے کے لیے معیاری امتحانات کے نظام کا خاتمہ ہے۔ روایتی تعلیمی نظام کے تحت، اکثر یہ ہوتا ہے کہ طلباء امتحان میں مطلوبہ نمبرز حاصل کرنے کے لیے رٹا لگاتے ہیں اور اساتذہ ایک مضمون اس طرح پڑھاتے ہیں کہ بس بچے امتحان میں پاس ہوجائیں، اس عمل میںتعلیم کے ذریعے علم حاصل کرنے کا بنیادی اور حقیقی مقصد کہیں کھوجاتا ہے۔

فِن لینڈ میں کوئی معیاری امتحان نہیں ہوتا۔ ’کوئی معیاری امتحان نہیں‘ کے اس اصول کو صرف National Matriculation Exam کی صورت میں استثنیٰ حاصل ہے۔ فِن لینڈ نے اعلیٰ ثانوی (ہائر سیکنڈری) اسکول کے اختتام پر (امریکی ہائی اسکول تعلیم کے مساوی) طلباء کے لیے ایک انقلابی امتحان متعارف کرایا ہے۔ پورے فِن لینڈ میں طلباء کی درجہ بندی (گریڈنگ) انفرادی حیثیت میں کی جاتی ہے، یہ گریڈنگ سسٹم اساتذہ خود تشکیل دیتے ہیں۔ مجموعی پیش رفت پر وزارتِ تعلیم نظر رکھتی ہے۔

اساتذہ کا احتساب (غیرمطلوب)

دنیا بھر میں تعلیمی معیار کی بلندی یا پستی کا ذمہ دار اساتذہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ دنیا کے لیے یہ بات بڑی حد تک دُرست بھی ہے، تاہم فِن لینڈ نے اساتذہ کے لیے ایسے بلند معیارات مقرر کیے ہوئے ہیں کہ وہاں اساتذہ کے لیے سخت گریڈنگ سسٹم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس بارے میں فِن لینڈ کی وزارت تعلیم کے ڈائریکٹر Pasi Sahlbergکہتے ہیں، ’فِن لینڈ میں احتساب کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ احتساب کی بات وہاں کی جاتی ہے جہاں ذمہ داری کا تعین نہ کیا گیا ہو‘۔

فِن لینڈ میں تدریس کا پیشہ اختیار کرنے والے افراد کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹرز ڈگری ہے۔ تدریس کے پروگرام انتہائی سخت ہوتے ہیں اور گنے چُنے اداروں کو تدریس کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر ایک استاد اچھی کارکردگی نہیں دِکھا رہا تو اس کی ذمہ داری پرنسپل پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بارے میں ضروری قدم اٹھائے۔ فِن لینڈ نے ’استاد۔طالب علم‘ کے تعلق کو نوکر شاہی کے اثرورسوخ اور معیاری امتحان سے آزاد کردیا ہے۔

مسابقت نہیں تعاون

امریکا سمیت دنیا کے اکثر ملکوں نے تعلیم کو علم کےحصول کے بجائے ایک مقابلہ بنا دیا ہے، تاہم فِن لینڈ اس بارے میںمختلف سوچ رکھتا ہے۔ ’حقیقی فاتح ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کیا کرتے‘۔ فِن لینڈ کا نظامِ تعلیم رٹے کے ذریعے حاصل کی گئی ذہانت یا ’صوابدیدی میرٹ‘ پر مبنی نظام کے بارے میں فکرمند نہیں ہوتا۔ فِن لینڈ میں آپ کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے تعلیمی اداروں یا اساتذہ کی ایک بھی فہرست نہیں ملے گی۔وہاں مقابلے کا ماحول تخلیق نہیں کیاگیا، اس کے بجائے ’تعاون‘ کو سکہ رائج الوقت قرار دیا گیا ہے۔

بنیادی ضروریات کو ترجیح

دنیا کے کئی اسکول سسٹمز امتحانات میں ’زیادہ سے زیادہ نمبرز حاصل کرنے کی دوڑ‘ میں آگے سے آگے نکلنے کی کوشش میں یہ بھول جاتے ہیں کہ تعلیم کے حصول کے لیے ایک خوشگوار، ہم آہنگ اور صحت مند تدریسی ماحول دراصل ہوتا کیا ہے۔ کئی برس پہلے، فِن لینڈ کے اسکول سسٹم میں بڑے پیمانے پر اصلاح کی ضرورت محسوس کی گئی۔ فِن لینڈ نے اس اصلاحاتی پروگرام کے تحت بنیادی ضروریات(Basics)کی طرف لوٹ جانے پر توجہ مرکوز کی۔ اس نظام میں زیادہ مارکس (Marks)کے حصول اور رائج معیارات کو مزید بلند کرنے کے بجائے اسکولوں کے ماحو ل کو زیادہ مساوی بنانے پر زور دیا گیا۔ 1980ء کی دہائی سے، فنِ لینڈ کے ماہرینِ تعلیم نے درج ذیل بنیادی ضروریات کو فوقیت دے رکھی ہے۔

٭ تعلیم سماجی عدم مساوات ختم کرنے کا ذریعہ ہے

٭تمام طلباء کو اسکول میں مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے

٭تمام طلباء (اور فِن لینڈ کے عوام کو) صحت کی سہولیات تک آسان رسائی حاصل ہے

٭طلباء کی نفسیاتی تربیت کی جاتی ہے

٭ہر طالبِ علم کو انفرادی سطح پر رہنمائی فراہم کی جاتی ہے

بڑی عمر میں اسکول جانا

فِن لینڈ میں بچے 7سال کی عمر میں اسکول جاناشروع کرتے ہیں۔ وہاں ان کے بچپن کو لازمی تعلیم کے حصول میں نہیں جکڑا جاتا۔ وہاں بچوں کو بچہ رہنے دیا جاتا ہے۔ فِن لینڈ میں بچوں کو لازمی تعلیم کے حصول کے لیے صرف 9سال اسکول جانا پڑتا ہے۔ 9ویں درجے یا 16سال کی عمر کے بعد ہر چیز اختیاری بن جاتی ہے۔ اگرچہ کہ کئی لوگوں کو یہ بات کوئی قصہ محسوس ہو، لیکن کئی اسکول متعدد برسوں تک مسلسل تعلیم کے حصول کو قید سمجھتے ہیں۔ فِن لینڈ نے اپنے نوجوانوں کو اس جبری مشق سے آزاد کردیا ہے، اس کے بجائے وہاں نوجوانوں کو عملی دنیا کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

کالج ڈگری کے بعد پیشہ ورانہ تعلیم

فِن لینڈ میں 3سالہ اَپر سیکنڈری اسکول پروگرام کے ذریعے طلباء کو Matriculation Testکے لیے تیار کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ان کی یونیورسٹی تعلیم کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ ان خصوصیات کا مجموعہ ہوتا ہے، جو طلباء نے اپنی ہائی اسکول تعلیم کے ذریعے حاصل کی ہوتی ہیں۔ اَپر سیکنڈری اسکول کے بعد ایک اور آپشن 3سالہ ووکیشنل ایجوکیشن پروگرام کا ہے، جس کے ذریعے انھیں مختلف شعبہ جات کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ فِن لینڈ میں یونیورسٹی اور ووکیشنل تعلیم کو مساوی درجہ اور اہمیت حاصل ہے۔

فِن لینڈ کے اسکول دیر سے کھُلتے ہیں

ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ علی الصبح کھُلنے والے اسکول بچوں کی مجموعی صحت اور بلوغت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ فِن لینڈ کے اسکول عمومی طور پر صبح 9بجے سے لے کر 9:45تک کھُلتے ہیں، جس کے بعد اسکول کا دورانیہ طویل رکھا جاتا ہے،اس دوران طلباء کو درمیان میں طویل وقفے بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

آرام دہ ماحول کا قیام

درمیانی وقفوں میں طلباء کھانوں سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، تفریح اورسکون حاصل کرتے ہیں، تازہ ہوا کھاتے ہیں اور جسمانی و دماغی دباؤ کو بھگاتے ہیں۔اسی طرح اساتذہ کے آرام، تیاری اور سماجی روابط کے لیے بھی خصوصی کمرے بنائے گئے ہیں۔

ایک ہی استاد سے تعلیم کا حصول

فِن لینڈ کے اسکولوں میں آپ کو کم اساتذہ اور کم طالب علم ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک استاد، طلباء سے بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں ہر بچے کو انفرادی توجہ نہیں دے سکتا۔ فِن لینڈ میں بچوں کو عموماً 6سال تک ایک ہی استاد تعلیم دیتا ہے۔ اس عرصے میں استاد بچوں کے لیے مشیر، گُرو یا پھر خاندان کے ایک فرد کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس دوران استاد اپنے ہر طالب علم کی کمزوریوں، دلچسپیوں اور رجحانات کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے اور ان کے مستقبل کے مقاصد حاصل کرنے میں ان کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔

کم ہوم ورک

او ای سی ڈی کے تمام رُکن ملکوں میں، فِن لینڈ کے طلباء کو سب سے کم ہوم ورک یا اسکول سے باہر کے ٹاسک دیے جاتے ہیں۔ انھیں صرف اتنا ہوم ورک دیا جاتا ہے، جسے وہ رات میں صرف آدھے گھنٹے میں انجام دے سکیں۔ فِن لینڈ میں ٹیوشن کا تصور نہیں ہے۔ فِن لینڈ میں طلباء ہر کام اسکول میں ہی کرتے ہیں اور کسی مضمون میں امتیازی کارکردگی کے لیے انھیں اضافی دباؤ نہیں لینا پڑتا۔

تازہ ترین