• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جغرافیائی حالات کے جبر نے پاکستان اور اس کے عوام کے شانوں پر شدید بوجھ لا ڈالا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع، پل پل رنگ بدلتا پڑوس اور عظیم طاقتوں کے مفادات سے جنم لینے والی تند و تیز عالمی ارضی، سیاسی ہواؤں نے وطن عزیز کو متعدد علاقائی طوفانوں کے بھنور میں کھڑا کر دیا ہے۔ آج ملک کو ایک پیچیدہ سیکورٹی ماحول کا سامنا ہے جو اپنے جلو میں متعدد سخت یا نرم روایتی اور غیر روایتی خطرات کو لئے ہوئے ہے۔ بے شمار اندرونی، علاقائی اور عالمی چیلنجوں کا ایک سمندر منہ کھولے کھڑا ہے۔ ان چیلنجز میں سے کچھ پرانے ہیں جب کہ بعض نے حال ہی میں جنم لیا ہے اور کچھ کے اسباب ماضی میں ملکی پالیسیوں کے غیرارادی نتائج میں پنہاں ہیں، دیگر بیرونی جنگوں کے نتائج کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ ملک کو ان تمام چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے قوت ارادی، استعداد اور فکری صلاحیت کی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا ایک تذویراتی بہاؤ اور غیر یقینی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ طاقت کا انجذاب و پھیلاؤ اور عالمی مسائل کے حل کے طریق کار کی کمی بین الاقوامی معاملات کو مزید غیر یقینی اور غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ پاکستان کو سیل رواں کی طرح بہتے اس بیرونی بہاؤ سے ابھرتے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے جب کہ یہ شدید اندرونی مسائل سے بھی نبرد آزما ہے۔ یہ دونوں باہمی طور پر منسلک ہیں۔ آج بیرونی اور اندرونی مسائل کے درمیان خط امتیاز ختم ہو چکا ہے۔ آنے والے سالوں میں سامنے آنے والے متعدد رجحانات اور تذویراتی ایشوز پاکستان کے تحفظاتی خاکے پر اثر انداز ہوں گے۔ ان میں اہم ترین یہ ہیں۔ (الف) سیاسی ایشوز: (1) امریکہ کی ایشیاء کے لئے محوری حیثیت کا کیا مطلب ہے؟ چین، امریکہ تعاون یا تصادم؟ چین کو قابو کرنے کی اعلان شدہ یا غیر اعلان شدہ حکمت عملی کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟ (2) امریکہ اور بھارت کے ابھرتے ہوئے تذویراتی اشتراک کا خطے پر کیا اثر پڑے گا؟ امریکی حکام اس اشتراک کو امریکہ کی ایشیائی پالیسی کے لئے ’بنیادی پرزہ‘ قرار دیتے ہیں۔ (3) 2014ء میں افغانستان کی سیاسی اور سیکورٹی کی غیر یقینی کیفیات سے کس طرح نمٹا جائے گا؟ افغانستان سے نیٹو کے انخلاء کے بعد ان کا افغانستان کے استحکام پر کیا اثر پڑے گا؟(4) امریکہ اور ایران کے مابین حالیہ کشیدگی کا مستقبل میں کیا روپ سامنے آئے گا؟ (5) مسلم دنیا کے سنّی اور شیعہ مراکز اختیارات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے کیا اثرات ہوں گے؟ (ب) فوجی ایشوز: (1) مغربی دنیا میں روایتی جنگوں سے بڑے پیمانے پر تھکن اور بیزاری کے نتیجے میں کیا روبوٹوں اور اسی نوعیت کے جدید ترین ہتھیاورں سے لڑی جانے والی جنگیں سامنے آئیں گی؟ (2) کیا اسٹکس نیٹ قسم کے سائبر حملے بہت عام ہو جائیں گے؟ (3) بھارت کے بڑھتے ہوئے روایتی اور تذویراتی ہتھیاروں کے ذخائر اور طرفین کے درمیان عدم توازن میں اضافہ پاکستان کے لئے کیا نتائج کھڑے کرے گا؟ (ج) معاشی ایشوز (1) ایشیاء کا نیا رواں مالی نقشہ طاقت میں ہو رہی تبدیلی کا عکاس ہے۔ (2) بطور خاص اہم طاقتوں کے درمیان توانائی کے وسائل اور نئی مارکیٹوں کے لئے دھکم پیل۔ (3) ایشیاء میں آبادی میں اضافہ اور آمدنی میں بڑھتی ہوئی تفریق۔ (4) موسم کی تبدیلی اور خطے میں پانی کے تنازعات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے اثرات۔ ان مسائل میں زیادہ تر روایتی ’کٹھن‘ سیکورٹی معاملات کی حدود سے ماورا ہیں مگر پاکستان کے لئے ان کے اثرات بہت دور رس ہیں کیوں کہ آج ہر ملک کا ماننا ہے کہ قومی سلامتی کا جامع ہونا ناگزیر ہے۔ اب ہم اندرونی خطروں سمیت ملک کے مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے تذویراتی اور سیکورٹی چیلنجوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کا وطن عزیز کو سامنا ہے۔ حالیہ سالوں میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ایک پُرامید آغاز کیا گیا ہے۔ گو کہ بات چیت، سیاست اور بزنس کے ماحول میں بہتری لائی گئی ہے مگر تذویراتی تعلقات میں کشیدگی اور تناؤ تاحال برقرار ہے۔ اس کشیدگی کا سبب کشمیر سمیت دیگر غیر حل شدہ تنازعات کی کیفیت ہے اور اس میں بھارت کے روایتی اور تذویراتی ہتھیاروں کے ذخائر اور اسی تناظر میں اس کے موقف کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ حتیٰ کہ مثال کے طور پر سیاچن کے معاملے پر بھارت کے سخت گیر موقف کی وجہ سے آسان ترین باور کئے جانے والے ایشوز کے حل بھی پہنچ سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ تجارتی روابط میں آسانی کو تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں محوری حیثیت دی گئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا باہمی روابط میں مثبت معاشی زاویئے کو سیاسی معاملات میں پیشرفت کے بغیر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اس امر کا تذویراتی پیشرفت کے تناظر میں بطور خاص کردار ہے۔ بھارت کی طرف سے ایک ’پیشگی‘ فوجی نظریئے کے برملا اظہار اور اسے قابل بنانے کے اقدامات نے جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے بغیر ایک محدود روایتی جنگ لڑنا ہے پہلے ہی سے پریشان کن تذویراتی منظر نامے میں عدم استحکام کی مزید بدنما سیاہی انڈیل دی ہے۔ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے دفاع کے خلاف بھارت کی فوجی استعداد میں اضافے کا بھی جواب دینا پڑا ہے۔ اس طرح یہ مقولہ درست ثابت ہوا ہے کہ ریاستیں صلاحیتوں کا جواب دیتی ہیں نہ کہ ارادوں کا…جن میں راتوں رات تبدیلی آسکتی ہے۔ بھارت کے نظریئے اور نتیجتاً فوجی موقف اور ڈیولپمنٹ حکمت عملی میں تبدیلی نے جس کا زیادہ تر ارتکاز پاکستان پر ہے پاکستان کی سلامتی کے تخمینوں اور منصوبہ بندی کے تعین پر گہرا اثرا ڈالا ہے۔ جواب میں پاکستان نے اپنی فوجی حکمت عملی کے اصولوں میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک جامع جواب تشکیل دیا ہے جس کا مقصد روایتی اور جوہری دونوں سطحوں پر ’فل اسپیکٹرم ڈیٹی رینس‘ کا حصول ہے۔ چونکہ اس طرح دفاعی حکمت عملی کو تذویراتی، آپریشنل اور فوجی سطح پر ازسرنو منطبق کرنا پڑتا ہے اسلئے ابتدائی سوچ کو الوداع کہنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اسی اثناء میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے تذویراتی تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ’اسٹرٹیجک ریسٹرینٹ رجیم‘ کے قیام کیلئے سفارتی بات چیت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اسے 1999ء میں پہلی بار تجویز کیا گیا تھا مگر یہ تاحال مذاکرات کی میز پر ہی موجود ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں: جوہری ہتھیاروں کو حد میں رکھنے کے اقدامات، روایتی ہتھیاروں میں توازن اور تنازعات کا حل۔ بھارت نے تاحال انہیں قبول نہیں کیا ہے۔ وطن عزیز کی مغربی سرحد پر افغانستان کی صورتحال نے اس کیلئے طویل عرصے سے برقرار شدید ترین تذویراتی مسائل کو جنم دیا ہے۔ 2014ء میں افغانستان سے زیادہ تر نیٹو افواج کے قریب آتے انخلاء کے بعد سامنے آنے والی غیر یقینی صورتحال اسلام آباد کی سیکورٹی کے حوالے سے فکر و تشویش کو دو چند کر رہی ہے۔ افغانستان میں تین عشروں سے جاری جنگ و جدل کے بدترین اثرات کا سامنا کرنے کے بعد مغربی سرحد پر مستقل جاری عدم استحکام پاکستان کی سلامتی کے لئے سنگین بلاواسطہ نتائج کا حامل ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے مذاکرات و سیاسی حل کے ذریعے افغانستان کی جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے۔ پاکستان کیلئے ہولناک صورتحال یہ ہے کہ2014ء کے انخلاء کے بعد علاقہ انتشار میں نہ ڈوب جائے اور کہیں90ء کی دہائی کے واقعات خود کو دہرانا نہ شروع کر دیں جو خطے کے لئے نہایت تباہ کن ثابت ہوئے تھے۔ پاکستان ایک ایسے نتیجے کا بھی خواہاں ہے جس کی صورت میں افغانستان ایک بار پھر سابقہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور ایک پڑوسی ملک پر حملوں کی جنت نہ بن جائے۔ اس طرح 2014ء کے انخلاء کا موثر انتظام پاکستان اور اس کی داخلی سلامتی کے لئے فیصلہ کن ہے جو اس کے قبائلی علاقوں اور آگے کے خطے میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ امریکی سربراہی میں مغربی اتحاد نے افغانستان سے انخلاء کی جو تاریخ متعین کی ہے وہ 2014ء کا سال ہے جسے ان قیاسات کی بنا پر متعین کیا گیا ہے کہ افغان فورسز اپنے ملک کی سیکورٹی کا نظم و نسق سنبھالنے کے قابل ہوں گی۔ صرف حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک امن عمل کے امکانات کا جائزہ لینے کیلئے سفارتی کوششوں کا آغاز کیا گیا ہے مگر اس کی بابت توقعات غیر یقینی کی دھند میں لپٹی ہوئی ہیں۔ اس طرح پاکستان کے سامنے دہرے مسائل کا ایک کوہِ گراں کھڑا ہے کہ وہ نیٹو افواج کے انخلاء کے دوران ممکنہ سیکورٹی خلا کا کس طرح جواب دے۔ اس بات کا خطرہ سر پر کھڑا ہے کہ قبائلی علاقوں میں شورش شدید تر ہو جائیگی اور افغان پناہ گزینوں کی ایک اور بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرے گی جہاں پہلے ہی30لاکھ کے قریب افغان پناہ گزین مقیم ہیں جو دنیا میں اپنی جگہ سے بے دخل ہونیوالے افراد کی تاحال سب سے بڑی تعداد ہے۔ کنار اور نورستان میں پاکستانی طالبان کی محفوظ ترین پناہ گاہیں جہاں سے وہ پاکستان میں سرحد پار حملے کرتے ہیں ایک مہیب خطرے کا نشان ہیں جس میں افغانستان میں سیکورٹی خلا کے وسیع ہونے کی صورت میں نہایت اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان کو ان مہیب حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ناگزیر اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کے ساتھ یہ امریکہ، افغانستان، پاکستان پر مشتمل سہ ملکی ’کور گروپ‘ کے مابین ایک متفقہ حکمت عملی کے حصول کی کوشش بھی جاری رکھے گا تاکہ سنجیدہ امن عمل کے نفاذ کیلئے سیاسی حالات قائم کئے جا سکیں جس میں 2014ء سے قبل جنگ کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ نیٹو کی ڈیڈ لائن میں صرف 24 ماہ بچے ہیں اور یہ عظیم ترین چیلنجز کے سامنے بہت تھوڑا وقت ہے۔ افغانستان میں مزید انتشار ملک کی داخلی سلامتی کی تصویر کو مزید ابتر کر دے گا کیونکہ متشدد گروپوں کے سنڈیکیٹ کی جانب سے تحریب کاری اور دہشت گردی کے خطرات کو نکیل ڈالنا کار محال ہو گا۔ سوات اور وزیرستان میں دو اہم فوجی آپریشنوں اور دیگر جگہوں پر جاری اقدامات نے دہشت گردوں کو اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے اور وطن عزیز کے شہری علاقوں میں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے مگر شمالی وزیرستان میں معروف دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا مسئلہ ابھی حل کیا جانا ہے اور دہشت گردی کو شکست دینے کا ہدف تاحال پہنچ سے دور ہے۔ پُرتشدد شدت پسندی اور تخریب کاری ایک مہیب چیلنج کے طور پر برقرار ہیں اور آنیوالے کئی سالوں تک وہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو مصروف کار رکھتے ہوئے ملک کیلئے غالب خطرہ بنے رہیں گے۔ پاکستان میں پہلی بار افواج پاکستان کو بیرونی خطروں اور داخلی سلامتی مسائل کے دو محاذوں پر ایک ساتھ برسرپیکار ہونا پڑا ہے۔ جس دوران پیچیدہ عالمی اور علاقائی تحرکات پاکستان کے سامنے گمبھیر چیلنجوں کو پیش کریں گے اہم ترین اسٹرٹیجک چوائسز ان کے ہم رکاب ہوں گی۔ اندرونی سلامتی سے بے فکر ایک معاشی طور پر مستحکم اور برداشت کی صلاحیت سے بہرہ ور قوم ہی بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی سلامتی کیلئے سب سے فوری اور شدید خطرہ زوال پذیر معیشت ہے جس کا بنیادی حل تلاش کیا جانا ہے۔
تازہ ترین