پچھلے ستر برسوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات آشکار ہوگی کہ جنوبی خطہ ارض میں جنگیں اور اموات کا ایک لامتناعی سلسلہ جاری ہے۔ ایک مغربی اندازے کے مطابق 40 ملین لوگ مارے گئے اور شمالی خطہ ارض کے لوگ اپنا اسلحہ بیچ کر مالدار ہوتے چلے گئے یعنی غریب ممالک میں جنگ، دہشت گردی، بھوک، افلاس اور دیگر قسم کے واقعات ہوتے رہے جبکہ امیر ممالک امیر تر ہوتے چلے گئے، یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ جنگ کا محور رہا اور ایشیائی ممالک بھی اس جنگ کا ایندھن بنے، شاید یورپی ممالک نے جنگ کو خودسے دور رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد بھی کیا، ایشیائی و افریقی ممالک میں کشیدگی اور جنگی ماحول پروان چڑھتا گیا یا جان بوجھ کر چڑھایا گیا۔ دوسری طرف پچھلے دو عشروں سے امریکہ کی شکست اور اسرائیل کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے جاتے رہے، امریکہ اسرائیل کو محفوظ بنانے کیلئے ہر طرح کی کوشش کرتا رہا، امریکہ کی ہر شکست کے نتیجے میں اسرائیل مضبوط ہوتا گیا مگر اموات مسلمانوں اور ایشیا ئی ملکوں میں ہوتی رہیں جو کئی ملین تک جا پہنچی ہیں۔ امریکہ میں اگرچہ اب امریکہ پہلے کہا جانے لگا ہے مگر امریکی پالیسی میں ہمیشہ اسرائیل کا عمل دخل رہا ہے،اسرائیل کی حمایت میں خطرات، اسرائیل دشمنوں کی شناخت اور پھر اُن پر حملے جس کے نتیجے میں امریکہ کے لاکھوں فوجی برسرپیکار رہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل ،امریکہ اور اس کے اثاثہ جات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا رہا ہے جس سے اسرائیل کا مشرق وسطیٰ اثرورسوخ بڑھا ہے۔ اگر عراق، صومالیہ، لیبیا، یمن، افغانستان، شام اور لبنان کی جنگوں کا جائزہ لیں تو اس میں اسرائیل کامیاب نظر آتا ہے۔ ان جنگوں میں دشمن کی نشاندہی کی گئی اور امریکہ کیلئے وہ خطرےکی علامت بنائے گئے کہ عراق میں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیار چھپے ہیں اور اس ملک کی عسکری طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔کچھ لوگ پاکستان کی ملٹری طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے خواہاں ہیںجبکہ دراصل ایسا دشمن کسی ملک کو نشانہ بنانے کیلئے کرتا ہے، اس لئے یہ طریقہ بہت مناسب ہے کہ جو کچھ کرو وہ دشمن کی نظروں سے اوجھل رہے، اگر کوئی حکمت عملی وضع کی جائے تو اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بجائے مناسب انداز میں پیش کرنا چاہئے نہ کہ بڑکیں مارنا شروع کردیا جائے، اگر زندگی میں کوئی اچھی پالیسی وضع کرلی ہے جیسا کہ کرتارپور کی راہداری تو اس کے مثبت پہلو کو اجاگر کرنا چاہئے نہ کہ کرکٹ کی زبان میں گگلی بال سے تشبیہ دے کر اُس کی اہمیت کو خوامخواہ بڑھایا جائے جس پر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج نے کہا ناکہ اس سے حقیقت عیاں ہوگئی۔ امریکہ نے جنگ افغانستان سے شروع کی جوعراق پہنچی اور پھر 2011ء میں اپنے بلاگرز کے ذریعے عرب عوام میں بے چینی کی فضا ہموار کی جس کے نتیجے میں تیونس، مراکش، لیبیا، بحرین اور شام لپیٹ میں آئے، 2011ء میں شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی جو تاحال جاری ہے۔ اس طرح تمام عرب ممالک جو فلسطین کی آزادی کی سعی کررہے تھے وہ اس سے پیچھے ہٹ کر اندرونی طور پر الجھ گئےجس کی وجہ سے اسرائیل دبائو سے آزاد ہوگیا اور اس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے اور عظیم تر اسرائیل کی راہ ہموار ہوگئی، یہ تو روس اور ایران کی پالیسیوں کو سراہنا چاہئے کہ انہوں نے امریکہ و اسرائیل کو آگے بڑھنے سے روکا ہوا ہے پھر افغانستان کی بات کی جائے تو وہاں بھی امریکہ کا ایران اور پاکستان پر دبائو ہے کہ وہ کوئی کردار ادا نہ کرسکیں اور یہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کو کئی طریقے سے ہوا دے رہا ہے، اس کو اسلحہ دے کر، اس کا افغانستان میں کردار متعین کرکے اور وہاں داعش کو جمع کرکے تاکہ وہ پاکستان، روس، چین اور سینٹرل ایشیائی ممالک کیلئے درد سر بنا رہے اور طالبان سے مذاکرات کرکے اُنکو حکومت دلوا دے اور داعش کو اُن پر حملے کیلئے جدید اسلحہ دیکر افغانستان پر اپنی دسترس یا اپنے 9اڈوں کو محفوظ بنا سکے۔ وہ بھارت کو علاقائی طاقت بنانے پر تلا ہوا ہے تاکہ اسکی بالادستی برقرار رہے اور چین سے درپیش چیلنج کو بے اثر کردے۔چاہے اس عمل میں خوں خرابہ ہو ، کرئہ ارض کو نقصان پہنچے یا انسانیت تباہ ہو، اس سے امریکہ کو کوئی غرض نہیں۔