• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغلیہ دور میں اکبر کی ہر دلعزیزی پورے ہندوستان میں اسلئے تھی کہ وہ سب مذاہب کے ساتھ فراخدلی اور برداشت کا برتاؤ رکھتا تھا۔ اسکا دور استحکام اور پھیلاؤ کا دور تھا۔ جہانگیر سخت گیر بادشاہ تھا اور شاہ جہاں اپنی شاہ خرچیوں میں بادشاہ تھا۔ اسکے بعد اورنگ زیب تاریخ اسلام کا عظیم صوفی اپنے باپ کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد مسند شاہی پر بیٹھا۔ تاریخ کہتی ہے۔ اگر اورنگ زیب مذہبی انتہا پسندی کا شکار نہ ہوتا تو ہندوستان میں مغلیہ دور کا اختتام کافی دیر بعد ہوتا۔ اورنگزیب پکا نمازی، حافط قرآن اور شرک سے سختی سے اجتناب کرنے والا راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ موسیقی اس نے اسلئے ترک کر دی تھی کہ اس میں اسے لذت شہوانی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے اپنے علاوہ دیگر تمام مذاہب کو ہندوستان سے مٹانے کی کوشش کی۔ وہ ان کی عبادت گاہوں کو کفار کے صنم خانے قراردیتا تھا۔ اس نے تمام ہندو عبادات پر پابندی عائد کرتے ہوئے ہر عبادت کرنے والے ہندو پر بھاری جرمانے عائد کئے۔ اس کے دور میں سیکڑوں کی تعداد میں مندر اور گرجے توڑے گئے یا مساجد میں تبدیل کر دیئے گئے۔ ہندوستان کے ہندو اور عیسائی اس سے بچتے اور چھپتے پھرتے تھے۔ ان تاریخ انتہا پسندیوں نے ہندوستان میں رہنے والوں کے درمیان جو نفرت کی بنیادیں رکھیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی چلی گئیں۔ اور ہندوستان میں انگریز سامراج سے لڑائی کی بجائے ہندو مسلم نفرت بڑے تضاد کے طور پر نمایاں ہوئی۔ اور پاکستان بھی سامراج سے لڑائی کے بجائے ہندو مسلم نفرت کے حوالے سے وجود میں آیااسی لئے جب پاکستان بنا تو مذہب کا حوالہ اسکے ساتھ نتھی ہوگیا۔ اور جناح کے بعد آنے والے ملاؤں نے اسے نفاذ شریعت کے لئے بنائی جانے والی ریاست قرار دے دیا۔ شریعت کے اعتبار سے ہر مسلک سچائی کا مینار ہے۔ اور دوسرے مسلک کے لئے اس میں نہ تو برداشت ہے اور نہ ہی کوئی جگہ۔ ان نفرتوں اور عدم برداشت نے عقائد میں اورنگ زیب والی تعصب اور تنگ نظری بھردی ہے۔ہر ایک مسلک اور فرقے والے کا دوسرے مسلک اور فرقے کا ذکر سنتے ہی خون کھولنے لگ جاتا ہے جو ہم آجکل پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں دیکھ بھی رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی غریبی جہالت، خاندان کی ٹوٹ پھوٹ اور کمزور ذہن میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان سے باہر تو دیکھنے میں آیا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ زیادہ تر وہ مسلمان اسکی زد میں آئے ہیں جو طبقاتی اعتبار سے بہتر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یا اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہوئے ہیں۔ تاہم فی الحال پاکستان میں اس انتہا پسندی کے رجحان کے مضبوط ہونے کے اسباب کی نشاندہی ضروی ہے۔ تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ آخر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کی حیثیت ایسے گھنٹہ گھر والی ہوچکی ہے۔ جہاں دنیا کے کسی کونے میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی کڑی آ ملتی ہے۔ میں نے اورنگزیب کا حوالہ اس لئے دیا تاکہ یہ بات سمجھی جاسکے کہ یہ Phenomenon کوئی نیا نہیں ہے۔ تنگ نظری محض حالیہ دور کی پیداوار نہیں ہے۔ عدم برداشت کا جذبہ آج کے ملاں کا ہی تحفہ نہیں ہے گردن کاٹنے اور کٹانے کا شوق ابھی پیدا نہیں ہوا۔ دوسرے کی نہ سننے اور بزورِ طاقت اپنی بات منوانے کی ریت ہمارے ہاں نہ تو نئی ہے اور نہ ہی درآمد شدہ۔ یہ عدم برداشت جو ہمیں انتہا پسندی تک لے کے جاتی ہے۔ یہ ہماری تہذیبی اقدار کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کا دفاع کرنے والے اس حوالے سے اکثر دنیا بھر کی دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور گروہوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ تاکہ دنیا کو یہ جواب دیا جاسکے کہ ایسا صرف ہمارے اندر ہی نہیں ہے جس میں آئی آر اے، تامل ٹائیگر اور نکسل باڑی کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن ان تمام تنظیموں کی مسلح جدوجہد مقامی ہے۔ جبکہ جس مسلح جدوجہد اور فوجیت کا ہم شکار ہیں۔ اسکی نویت عالمیگیر Universal ہے کیونکہ اسکی نظریاتی اساس اور روح ریاستی اور جغرافیائی حدود کی پابند نہیں ہے۔ بلکہ اسکا فوکس ہی عالمی ہے۔ اسلئے جب یہ انتہا پسند سرگرم ہوتے ہیں تو پورے عالم کا امن خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشت گردوں کا ڈیرہ ہے۔ جس میں ازبک، چیچن اور عرب شامل ہیں۔ جو وزیرستان کے دہشت گرد ٹھکانوں میں اپنی چھاؤنی بنائے بیٹھے ہیں۔ وہیں پر تربیت حاصل کرتے ہیں اور عالمی طور پر احداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ہی ان کے سب سے زیادہ نشانے پر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے ہاں ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ سب صرف مذہبی انتہا پسند ہی کیوں ہیں۔ اس وقت پورے خطے میں کوئی اور نظریہ یا انتہا پسندی ان سے مقابلے میں میں کیوں نہیں ہے۔ لیکن ایک تو ان کانصب العین آفاقی نہیں بلکہ معاشی اور سیاسی ناہمواری کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ اپنے وقت کے مراعات یافتہ طبقے کو چیلنج کرتے ہیں۔ قوم پرست تحریکیں چلتی ہیں تو وہ جنون کو تو چھولیتی ہیں لیکن ان کا حدف بھی دوسری استحصالی قومیتیں ہی ہوتی ہیں۔ تاریخ عالم غیر ملکی جارحیت کے خلاف جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ آزادی کی جدوجہد کا نعرہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ جو مذہبی انتہا پسندی ہمارے ہاں اور دوسری مسلم اقوام میں پائی جاتی ہے۔ جسکے ثمرات اس دنیا میں نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ اس دنیا کو آزاد کرنا چاہتے ہین نہ ہی خوشحال، بلکہ یہ مرنے کے بعد کے ثمرات میں رہنا چاہتے ہیں۔ اور جو زندگی یہ جی رہے ہیں اسے جہنم بنا کے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس دنیا کے ساتھ لگاؤ اور بہتری سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس دنیا کو عارضی اور آخرت کاوسیلہ سمجھتے ہیں۔ اگر یہ معاملہ فقط انفرادی عقیدے اور یقین کی سطح تک رہے تو یہ سیاسی اور سماجی معاملہ نہیں بنتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ ہمارے ان اکثریتی مسالک اور فرقوں نے اپنے عقائد کو دنیا پر نافذ اور لاگو کرنے کافیصلہ کرلیا ہے۔ اور اسکے نفاذ کے لئے بندوق اٹھائی ہے۔ اب یہ لڑائی لڑے بغیر کسی فیصلے تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس سوچ نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اور پورے ملک کا امن اور سکون برباد ہوچکا ہے۔ ابھی گزشتہ بارہ برسوں سے جتنی انتہا پسند تنظیمیں اس دہشت گردی کو ایندھن دے رہی تھیں ان سے نمٹنا ہی بھاری پڑ رہا ہے۔ کہ اب علامہ طاہر القادری بھی شریعت کی اپنی تشریح لیکر میدان کار زار میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے تو میدان میں اترتے ہی الٹی میٹم دے دیا ہے۔ 14 جنوری سے وہ اپنا تجربہ شروع کریں گے۔ علامہ صاحب کے اس تجرباتی عمل میں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کچھ دوسری سیاسی قوتیں بھی اس تجرباتی عمل میں ان کے ساتھ ہوگئی ہیں۔ یہی وہ پے در پے حملے ہیں جو پاکستان اور اس خطے کو مذہبی جنونیت سے باہر نہیں آنے دیتے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان ایک لیبارٹری ہے جس میں داخلے کے لئے کسی قسم کی قابلیت اور اہلیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہرجاہل ہو یا دانا، اناڑی ہو یا مشاق، ان پڑھ ہو یا عالم ملکی ہو یا غیر ملکی اس لیبارٹری میں ہر طرح کے خطرناک اور تباہ کن محلول تیار کر سکتا ہے۔ اور کررہا ہے۔ کب ان مرکبات کا کیمائی عمل اس لیبارٹری کو ایک ہی دھماکے سے دھوئیں میں تبدیل کردیگا۔ وہ وقت دور نہیں لگتا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ میرے اس تجزیے کو کبھی سچ نہ ہونے دے۔
تازہ ترین